غربت کی وجہ سے میں پرائمری سکول نہ جاسکا لیکن جیسے تیسے پڑھ کر مڈل سکول میں داخل ہوگیا۔ اب حالات یہ تھے کہ گھر کے اخراجات کیلئے سکول کی کینٹین میں بھی کام کرتا اور ساتھ میں لوگوں کے جوتے پالش کرکے چند پیسے کماتا اور سکول میں بھی پڑھتا۔ اگر آپ واقف ہیں تو آپ کو پتہ ہوگا کہ جوتے پالش کرنے والے کے ہاتھ کافی میلے ہوتے ہیں اور خاص کر ناخنوں کے درمیان پالش کی سیاہ رنگت رچ بس جاتی ہے۔ اب چونکہ مجبوری اور غربت تھی اس لیئے جو بھی کرلیں، ناخن صاف ہی نہیں ہوتے تھے۔ خیر، سکول میں پہلا دن تھا اور پہلا درس ریاضی کا تھا۔ کیا رعب داب والا استاد تھا۔ آتے ہی بولا کہ اپنی نشست پر کھڑے ہوکر اپنے ناخن دکھائیں۔ اب چونکہ میں باقی بچوں سے کافی بڑا تھا تو کلاس کے آخر میں میری نشست تھی۔ انہوں نے کلاس کے آخر سے ہی دیکھنا شروع کیا۔ میرے ہاتھ اور ناخن دیکھتے ہی بولے، ''بیوقوف، یہ کیا حال ہے؟''۔ یہ واقعہ میں عمر بھر نہیں بھول سکتا۔ پھر مجھے کانوں سے پکڑ کر مجھے ایک طرح سے گھسیٹ کر جماعت کے سامنے لے آئے اور میرے ہاتھوں کو اٹھاکر بولے، ''دیکھیں ان ہاتھوں کو، ایسا لگتا ہے ان پر کبھی پانی نہیں لگا''۔اس وقت اگر وہ مجھے مار ڈالتے تب بھی شاید اتنی تکلیف نہ ہوتی۔ پھر انہوں نے مجھے مزید نشانہ بناتے ہوئے کہا، ''جاؤ اور تختہ سیاہ پر لکھے ہوئے سوال کو حل کرو''۔ بہت ہی آسان سوال تھا لیکن بے عزتی کی وجہ سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ انہوں نے ڈانٹ کر مجھے بیٹھنے کو کہا اور پھر کہا، ''تم کبھی بھی کچھ نہیں بن سکتے، جاؤ، بھیڑ بکریاں چراؤ، یہ پڑھنا لکھنا تمہارے بس کی بات نہیں''۔ میں بیٹھ گیا اور پھر سر نیچے رکھ کر سسکیوں سے رونا شروع کیا۔
اگلا سبق ترکی زبان و ادبیات کا تھا۔ معلم کے آتے ہی مجھے حضور اکرم صلعم کا وہ قول یاد آگیا کہ ''لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرو، اور انکی مشکلات کم کرو اور ان سے محبت کرو، نفرت نہیں''۔ ان کے مہربان الفاظ، ان کا نرم لہجہ اور ان کی مشفقانہ مسکراہٹ، سب دل میں بس جانے والی تھی۔ خیر، درس کے آخر میں انہوں نے کہا، ''آج گھر جاکر اپنے آج کے اچھے اور برے تجربے کے بارے میں لکھیں، تاکہ آپ ناگوار یادوں سے جان چھڑائیں اور خوشگوار کو اپنے یادوں میں بسا سکیں''۔
اس رات گھر جاکر میں نے آج کی ناگوار یاد کاغذ پر منتقل کی تو میرے آنسو بھی قلم کے ساتھ رواں ہوگئے اور میرے آنسو بھی اس وقت ہی رکے جب میرا قلم بھی رک گیا۔ یہ کاغذ پھر میں نے اپنے بستے میں تہہ کرکے رکھ لیا۔ اب کیا ہوا کہ تقریباً ایک ہفتہ بعد اسی ترکی زبان کے معلم نے مضمون نویسی کے ایک مقابلے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ جیتنے والے کو نقد انعام دیا جائے گا۔ میں نے دل ہی دل میں خواہش ظاہر کی کہ میں یہ مقابلہ جیت جاؤں۔ میری پتلون میں سوراخ تھے اور میرے جوتے پھٹے ہوئے، اور اوپر سے عید بھی نزدیک۔ سوچنے لگا کہ اگر مقابلہ جیتوں تو عید سے قبل ہی عید ہوجائے۔ استاد نے کہا کہ اپنا مضمون لکھ کر مجھے جمع کرانا ہے، میرا تو پہلے سے لکھا ہوا تھا، وہی میں نے بستے سے نکال کر ان کو دے دیا۔ وہ پڑھتے گئے اور روتے گئے۔ مضمون ختم کرکے پوچھا، ''پیارے بیٹے، کیا یہ روداد تم پر اسی جماعت میں گزری ہے؟'' میں نے اثبات میں سر ہلایا تو مزید رونے لگے۔ پھر آنسو صاف کرتے ہوئے کلاس سے مخاطب ہوئے، ''بچو، آپ کو پتہ ہے میں کیوں رو رہا تھا؟ کیونکہ ادبیات کا یہ اصول ہے کہ جو تحریر روتے ہوئے لکھی گئی ہو، اس کو پڑھتے ہوئے ضرور رونا آتا ہے''۔
بہرحال، انہوں نے وہ تحریر بھیج دی اور میں وہ مقابلہ جیت گیا۔ اس سے اتنے پیسے ملے کہ میں جوتے خرید سکا لیکن پتلون اسی خستہ حالت میں تھی۔ خیر، ایک ہفتے بعد اسی معلم نے مجھے ایک پتلون تحفے میں لاکر دی۔ ایسا لگا جیسے اس نے سارے جہاں کی دولت میری جھولی میں ڈال دی ہو۔ اس ایک پتلون سے انہوں نے مجھے ہمیشہ کیلئے خرید لیا۔ مجھے ان سے محبت ہوگئی، مجھے ان کے مضمون سے محبت ہوگئی اور مجھے ان کی کہی ہوئی ہر بات سے محبت ہوگئی۔
اصلاح و دعوت
استاد کے اثرات
(ترکی کے ایک مشہور معلم اور مصنف کے ویڈیو کا اردو ترجمہ) محترم Faisal Nadeem بھائی کی وال سے