الفاظ میں بھی انرجی ہوتی ہے، پھر وہ الفاظ انسانی ہوں یا اللہ کے۔ ایک ہی لفظ میں مثبت انرجی بھی ہو سکتی ہے منفی بھی، اس بات کا تعلق اس سے ہے کہ یہ لفظ کِس کے نفس یا روح سے چھن کر نکلا ہے۔ یعنی کسی لفظ سے جو مفہوم واضح ہو گا وہ تو ہو گا اس مفہوم کے علاوہ یہ اپنے ادا کرنے والے کی انرجی کا بھی ایک حصہ اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ ہمارے اردگرد ایک ہیولہ موجود ہوتا ہے جسے آپ سائنسی زبان میں میگنیٹک فیلڈ کہہ لیتے ہیں۔ ہم کسی چیز کو چھو بھی لیں تو اُس میں ہماری مثبت یا منفی انرجی کا کچھ حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ کسی میوزیم میں جا کر آپ پر جو احساس طاری ہوتا ہے وہ سینکڑوں سال پہلے کے افراد کی وہاں موجود اشیا میں موجود انرجی کا شاخسانہ ہو گا۔ میگنیٹک فیلڈ یا حصار تو فطرت کے ہر مظہر کا ہوتا ہے تبھی آپ وادیوں ندی نالوں پہاڑی مقامات یا باغات وغیرہ کے قریب جا کر اچھا محسُوس کرتے ہیں۔ ہمارا میگنیٹک فیلڈ ایک مخصوص مدار رکھتا ہے، اسی مدار کی وجہ سے ہم بعض لوگوں کی موجودگی میں خوشی محسوس کرتے ہیں بعض کی موجودگی میں بے چینی، خواہ وہ ایک لفظ بھی نہ بولیں۔ یہ انرجی کی زبان کا اثر ہے۔
قرآنِ پاک میں بیان کردہ مفاہیم اللہ کی انرجی سے متعلقہ ہیں جسکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر طاری ہونے سے قرآن کے الفاظ وجود پذیر ہوئے، گویا قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ اور اللہ کی انرجی کا مرکب ہے۔ قرآن کا ترجمہ سمجھنا تو اتنا ضروری ہے جتنا مچھلی کے لیے پانی لیکن اسے عربی میں بھی انہماک سے پڑھا سُنا کیجیے تاکہ آپ وہ انرجی حاصل کر پائیں جو اسکے الفاظ کا خاصا ہے۔
جب بھی ممکن ہو فطرت کے قریب بھی اکیلے وقت گزارا کیجیے تاکہ یہ آپکی منفی انرجی جذب کر کے آپ کو اپنی انرجی سے بھر دے۔
ہمارے اندر اور اردگرد ایسا بہت کچھ ہے جسے ہم اس ترقی یافتہ دور میں بھی نہیں جان پائے، یہ سچ ہے کہ آپ اپنے جسم کے اردگرد بھی موجود ہوتے ہیں اور آپکی انرجی کے حصار کی آخری لئیر روح کے حصار کی کسی لئیر سے مفاہیم کا لین دین کر سکتی ہے بس اس لین دین سے پہلے آپکو اپنے اندر توازن لانا پڑتا ہے۔
یہ توازن عبادات اور اعمالِ صالح سے تو آئے گا ہی، فطرت سے قریب ہو کر بھی آپ اس طرف بڑھ سکتے ہیں، تبھی تو بیشتر انبیاؑ جنگلوں بیابانوں میں بھیڑ بکریاں چراتے رہے۔ آپ جانتے ہی ہونگے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کئی انبیاؓ چرواہے تھے۔ اللہ نے اُنہیں کافی عرصے کے لیے یہ کام اس لیے دیے رکھا کہ اُنہیں نبوّت جیسے فریضے کی ادائیگی کے لیے فطرت کی بہت سی انرجی درکار تھی۔
اصلاح ودعوت
الفاظ کی انرجی
رضوان خالد