مال اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عمدہ نعمت ہے اور اس کا درست استعمال بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فکری و عملی دونوں اعتبار سے امت کے لیے مثالی کردار تھے۔
عشرہ مبشرہ میں سے چار اصحاب کا شمار امیر کبیر اصحاب میں سے ہوتا تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ
چاروں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگیوں میں خوب صدقہ و خیرات کیا اور ترکہ میں اپنے لواحقین کو بھی خوب آسودہ حال چھوڑا۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
نے دنیا سے رخصت ھونے سے قبل وصیت فرمائی۔
1۔تمام بدری صحابہ کو چار چار سو دینار(سونے کے سکے) دیئے جائیں۔
اس وقت 100 سے زائد بدری صحابہ موجود تھے۔سب نے یہ رقم بخوشی قبول کی حتی کہ حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا حصہ وصول کیا اور وہ اس وقت خلیفہ تھے۔
2۔پچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیئے جائیں۔جب ترکہ تقسیم ھوا تو آپ کی تین بیویوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک لاکھ دینار(سونے کے سکے)ملا۔(اولاد ھونے کی صورت میں بیوی آٹھویں حصہ کی حقدار ھوتی ھے)۔گویا 24 لاکھ دینار تو وصیت کی ادائیگی کے بعد بصورتِ زر نقد یا فاضلہ دولت موجود تھا۔علاوہ ازیں آپ نے ایک ہزار اونٹ تین ہزار بکریاں اور سو گھوڑے ورثہ میں چھوڑے۔
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو زمین کی آبادکاری کے لئے بہت بڑا قطعہ ارض عطا فرمایا تھا۔آپ کا ایک مکان کوفہ میں ایک مصر میں دو بصرہ میں اور گیارہ مدینہ میں تھے اور اس کے علاوہ بہت سے باغات بھی تھے۔ترکہ کی تقسیم میں آپ کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ لاکھ درھم(چاندی کے سکے) ورثہ میں نقد ملے۔گویا آپ کی بقایا نقد جائیداد 384 لاکھ یا 3 کروڑ 84 لاکھ درھم تھی جبکہ آپ کی کل جائیداد 5 کروڑ 2 لاکھ ھوئی۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ مشہور و معروف تاجر تھے۔ایک مرتبہ ایک ہی دن میں 4 لاکھ درھم کی خطیر رقم مساکین میں بانٹ ڈالی۔آپ کے بیٹے موسی بن طلحہ سے آپ کے ترکہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا!صدقہ و خیرات کے باوجود ھمارے لیے 22 لاکھ درھم اور 2 لاکھ دینار چھوڑے۔اس کے علاوہ اتنا سونا چاندی کہ جس کا اندازہ نہیں ھوسکا۔
حوالہ جات
اسد الغابہ/جلد 4۔
بخاری،کتاب الجہاد والسیر۔
طبقات ابنِ سعد/جلد 3۔
محترم احباب!
مال کا درست طریقہ سے حصول عین عبادت ھے مگر مال کو فقط جمع کرنا یا ضرورت مندوں سے روک کر رکھنا تعلیمات اسلام کے منافی ھے۔
آخر میں ابو سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ایک نہایت عمدہ قول پیش کرنا چاہوں گا۔
فرماتے ہیں!قال کان المال۔الخ۔۔
مفہوم۔اگلے زمانے میں مال ناپسندیدہ شئے تھا(عمومی طور پر سمجھا جاتا تھا)جبکہ اس زمانے میں مال مؤمن کی(آبرو کے لیے) ڈھال ھے۔اگر دنانیر ( ھمارے پاس) نہ ھوتے تو یہ بادشاہ (سرمایہ دار) ہمیں رومال(بے وقعت) بنا لیتے۔جس شخص کے پاس کچھ مال ھو وہ اس کی اصلاح کرے(اسے بڑھانے کے لیے اور درست مقام پر اس کے استعمال کے لیے)اس لیے کہ اس زمانہ میں کوئی محتاج ھو گا تو سب سے پہلے اپنے دین کو گنوائے گا ۔
حوالہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی۔۔۔ڈاکٹر نور محمد غفاری /ص 75
محترم احباب!
مال کو جمع و خرچ کرنے سے متعلق حضرتِ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا جو نقطہ نظر تھا اس پر محققانہ گفتگو پڑھنے کے لیے مولانا مناظر احسن گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی ۔۔حضرت ابو ذر غفاری ۔۔کتاب کا ضرور مطالعہ کیا جائے۔بہت سے غلط فہمیاں اور اشکالات دور ھو جائیں گے۔
سیرت صحابہ
عشرہ مبشرہ کی مالی حالت
شاہد شفیع