دلوں کا کاربن
صفوان ابوبکر
موٹرسائیکل ایک لٹر میں پینسٹھ سے ستر کلومیٹر چلتی تھی۔ اچانک اس کی ایوریج خراب ہو گئی اور پینتالیس چھیالیس پہ آ گئی۔ دو تین مکینکس کو دکھانے کے باوجود معاملہ قابو میں نہ آیا۔پھر ایک مکینک نے اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک سنیئر موسٹ کی طرف ریفر کر دیا۔چنانچہ بائیک وہاں لے جائی گئی۔ اس نے ساری بات سنی اور '' چھوٹے ''کو آواز دی۔ ''چھوٹے'' سے چھوٹا پیچ کس منگوایا۔ کاربوریٹر سے ایک پیچ کھول کے ''چھوٹے'' کو کہا کہ اسے بف لگا کے لاؤ۔
وہ ایک منٹ میں بف لگا کے لے آیا۔ مکینک نے پیچ اسی جگہ پہ لگا دیا اور کہا کہ جاو۔انشاء اللہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔پیسے بھی اس نے کچھ نہ لئے۔چند دن بعد نوٹ کیا توگاڑی پھر ستر کلومیٹر پہ آگئی تھی۔میں شکریہ ادا کرنے کے لئے گیا تو پوچھا کیا فالٹ تھا؟مکینک بولا'' کاربن آ گیا تھا ''
صرف کاربن آ جانے سے اتنا اثر پڑا؟
جی ہاں۔۔
دلوں پر بھی کاربن آجایا کرتا ہے۔تب دل کسی نیکی کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ایسے کاربن کو دور کرنے کے لئے جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نسخہ ارشاد فرمایا......تلاوت قرآن اور موت کی یاد۔
دعا کی ابتدا
محمد سلیم
درج ذیل کلمات دعائیں نہیں ہیں۔ یہ دعا سے پہلے پڑھنے کیلئے مقدمات یا ابتدائیات ہیں۔ ان کلمات میں ایسے ایسے اسم اعظم ہیں جن کو پڑھ کر کوئی دعا مانگی جائے تو کبھی رد نہ ہو، کسی مصیبت سے نجات مانگی جائے تو نجات ملے اور کسی فرعون سے اللہ کی پناہ طلب کی جائے تو پناہ ملے۔
ایسی کئی احادیث موجود ہیں جب آقا علیہ السلام نے کچھ لوگوں کو ان کلمات کے ساتھ دعا مانگتے دیکھا تو اللہ کی قسم کھا کر فرمایا یہ شخص جن کلمات کے واسطے سے اپنی دعا مانگ رہا ہے وہ دعا کبھی بھی رد نہیں ہوگی۔
ان کلمات کے بعد مانگی گئی دعا کی قبولیت مجرب ہے اور یہی ہر مستجاب الدعا کا معمول ہے۔ سب کلمات کو یا کسی ایک کو کاغذ پر لکھ لیجیئے، یاد کر لیجئے اور ان کلمات کو پڑھ کر اپنی دعا مانگنے کا معمول بنائیے اور عجائب اپنی آنکھوں سے دیکھیئے:
نمبر ایک:
اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدَ لَا إِلہَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیکَ لَکَ، الْمَنَّانُ، یَا بَدِیعَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ، یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ- -
نمبر دو:
اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنِّی أَشْہَدُ أَنَّکَ أَنْتَ اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ، الأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِی لَمْ یَلِدْ، وَلَمْ یُولَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ- -
نمبر تین:
اللہم إنی أسألک یا أللہ بأنک الواحد الأحد، الصمد، الذی لم یلد ولم یولد، ولم یکن لہ کفوا أحد - - -
شکر کی فریکوینسی
ابن عبداللہ
ایک نیک انسان اپنے شاگردوں کے ساتھ درس و تدریس میں مشغول تھے کہ اچانک ان کا ایک خادم پریشان حال کمرے میں داخل ہوا اور کہا کہ’’حضرت! جس جہاز میں آپ کا تجارتی سامان آ رہا تھا وہ راستے میں ڈوب گیا ہے۔استاد صاحب مسکرائے، پورے اطمینان کے ساتھ فرمایا ‘‘الحمدللہ ’’اور دوبارہ درس و تدریس میں لگ گئے۔ کچھ دیر بعد وہ خادم دوبارہ اندر آیا اور کہنے لگا،‘‘حضرت! خبرجھوٹی تھی، جہاز بندرگاہ پر صحیح سلامت لنگر انداز ہو گیا ہے۔’’ استاد صاحب مسکرائے ‘‘الحمدللہ’’کہا اور پھر تعلیم و تعلم کا سلسلہ وہیں سے جوڑ دیا جہاں سے رُکا تھا۔ایک شاگرد نے حیرانی کے عالم میں دریافت کیا،’’استاد جی ! یہ کیا ماجرا ہے؟ جہاز ڈوب گیا تو الحمدللہ، بچ گیا تو پھر الحمد للہ؟ آپ کی تو مسکراہٹ میں بھی کوئی فرق نہیں آیا؟‘‘استاد صاحب نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور بولے’’بیٹے! وہ ڈوبا تھا تو اللّہ کی مرضی تھی، اب بچ گیا ہے تو یہ بھی اللہ کی مرضی سے ہوا ہے۔ ہمیں تو ہر حال میں اس کا شکر گزار رہنا ہے۔
اس دنیا میں ایک قانون موجود ہے اور اسکوLaw of attraction‘‘(قانونِ کشش) کہتے ہیں۔ اس کی مثال بڑی سادہ ہے ہمارے اردگرد ہر جگہ ‘‘لہریں’’موجود ہیں۔یقین کرنا ہے تو ریڈیو آن کریں اور فریکوئنسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دیں، آپ کو کسی چینل پر کوئی ‘‘غمزدہ خبر’’سننے کو ملے گی۔آپ کا اختیار ہے کہ آپ فریکوئنسی تبدیل کر دیں۔ کسی دوسرے چینل پر کوئی ‘‘خوشگوار بات’’سننے کو مل جائے گی۔ آپ کا موڈ اور آپ کا مزاج بھی اس خبر اور اس کے اثرات کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ غمزدہ خبروالی لہریں کمرے سے چلی گئی ہیں یا اس فریکوئنسی پرغمزدہ خبرموجود ہی نہیں رہی۔بلکہ آپ نے اپنی فریکوئنسی کوخوشگوار باتوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس لئے ہر طرف سے لہریں آپ کوخوشگوار باتیں سنانے پر مجبور ہیں۔بالکل یہی معاملہ قانونِ کشش کا ہے۔ جب آپ شکر گزار ہوتے ہیں تو پوری کائنات حرکت میں آ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز کو آپ کی سیٹ کی ہوئی فریکوئنسی پر لگا دیتے ہیں۔ انتخاب اور مرضی آپ کی اپنی ہے۔ آپ شکر گزاری کا چینل سیٹ کرتے ہیں یا خود کوشکوے شکایتوں کی فریکوئنسی پر ٹیون کرتے ہیں۔آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں، جیسا بننا چاہتے ہیں، ویسا سوچنا شروع کر دیں۔ اگر آپ شکر گزار ہیں تو پھر آپ کو صبح سے شام تک شکر گزار لوگ ہی ملیں گے اور اگر کوئی ناشکرا مل بھی گیا تو آپ اس کے بھی شکر گزار ہو جائیں گے۔
اپنے پیسے، رشتے، روزگار، بچے، بیوی تعلقات اور پڑوس وغیرہ،جس چیز کی زیادتی آپ کی زندگی میں ہو گی اور آپ اس سے خوش ہوں گے تو دراصل اس کے بارے میں آپ زیادہ شکر گزار رہتے ہیں اور جس چیز میں کمی اور کوتاہی ہے دراصل وہ آپ کے کم شکر گزار ہونے یانا شکری کا نتیجہ ہے۔
بلوں کے بروقت ادا ہو جانے، تنخواہ وقت پر مل جانے، بچوں کی فیسیں ادا ہو جانے، تین وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھا لینے، جسم پر صاف ستھرے کپڑے، ہاتھ میں موبائل، گھر میں خیال کرنے والی ماں، بیوی، بہن، بیٹی۔ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے بچے اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہیں جن پر آپ دن رات صبح شام شکر ادا کرنا شروع کر دیں تو بھی کم ہے۔یاد رہے، شکر دل سے ادا ہونا چاہیئے۔ آپ کے احساسات اور دل کی دھڑکنوں تک سے شکر گزاری کے جذبات پھوٹ رہے ہوں، آپ بات بات پر پورے خلوصِ دل کے ساتھ ‘‘الحمدللہ ’’کہہ رہے ہوں۔
صبح کوڑا لینے آنے والے سے لے کر شام کو گھر چھوڑنے والے ڈرائیور تک کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک دفعہ تھینکس، شکریہ، جزاک اللہ تو بول کر دیکھیں۔ نہ آپ کا انگ انگ جھوم اٹھے تو بات کریں۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو، اس کی ساری قوتوں کو آپ کی خدمت میں لگا دے گا۔
نہایت ہی کم ظرف اور ناشکرے ہیں ہم لوگ۔ سارا دن ہم اپنی فریکوئنسی کوگلے شکوں پر ٹکا کر رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہر طرف سے شکر گزاری کی لہریں آتی رہیں۔
اللّٰہ تعالٰی قرآن میں واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ‘‘ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں شکر گزار ہونے اور ایمان لے آنے کے
بعد بھی عذاب دے؟ اللہ تو بڑا قدردان اور ہر چیز کا جاننے والا ہے’’۔
اپنی زندگی کو اگر دنیا میں جنت بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہر کسی کے لئے اپنے دل اور دماغ سے گلے، شکوے اور شکایتیں نکال کر پھینک دیں۔ ہر انسان کا، ہر چیز کا، اس کائنات کا اور اللہ تعالیٰ کا ہر لمحہ شکر ادا کرتے رہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاجو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا۔
ایک دفعہ آپ ‘‘شُکر’’کو اپنی زندگی میں لے آئیں یہ کائنات آپ پر ایسے ایسے راز کھولے گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے
اصلاح و دعوت
دلوں کا کاربن
صفوان ابوبکر