پچھلے دنوں ایک سینئیر ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو انھوں نے یہ بتایا، اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایسا غیرمعمولی نظام عطا کیا ہے کہ انسان کا بیمار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے سوائے اس کے کہ انسان اپنی بے احتیاطی اور غلطیوں کی وجہ سے خود کو کمزور کر لے۔ انھوں نے بتایا کہ جب بھی کوئی جرثومہ انسان پر حملہ کرتا ہے تو انسانی جسم مختلف طریقوں سے اس کو جسم سے پہلے مرحلے پر ہی نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً کھانسی اور چھینکیں ناک اور گلے کے ذریعے سے اندر داخل ہونے والے جراثیم کو باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یوں انسان اکثر اوقات بیماری سے بچ جاتا ہے۔جرثومہ اس کے باوجود اندر ہی رہ جائے تو انسانی نظام مدافعت پوری قوت کے ساتھ اس پر حملہ کرتا ہے اور اکثر و بیشتر موثر ہونے سے پہلے ہی اسے مار دیتا ہے۔ فطری حالات میں یہ مدافعتی نظام اتنا موثر ہوتا ہے کہ انسانوں کے بیمار ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ انسان اس وقت بیمار ہونا شروع ہوتے ہیں جب وہ فطرت سے دور ہوتے ہیں یا بعض نازک مواقع اور بعض غلطیوں کی بنا پر مدافعتی نظام کو خود ہی کمزور کرلیتے ہیں۔مناسب نیند نہ لینا، بہت زیادہ تکان اور بے آرامی، دھوپ کا کم لینا جس کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی ہوجاتی ہے، غیرمتوازن غذا جس سے جسم میں وٹامن اور پروٹین جیسے اہم اجزا کی کمی ہوجاتی ہے۔ ٹینشن، غم و الم اور اسٹریس لینا، منفی سوچ میں جینا جس میں انسان زندگی، حالات اور لوگوں کے صرف منفی رخ کو دیکھتا ہے؛ وہ اہم ترین وجوہات ہیں جو انسان کے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتی ہیں اور ایسے لوگ ہر بیماری کا سب سے پہلے نشانہ بنتے ہیں۔
اسی طرح شہری زندگی کی خرابیوں میں جینے والے، جیسے پولوشن کا شکار لوگ، گھروں کو قالینوں پردوں سے آراستہ کرنے، کھانوں میں بازاری یا فرج کے رکھے ہوئے باسی کھانا کھانے والے لوگ بھی بیماریوں کو خود دعوت دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ ان معاملات میں درست جگہ کھڑے ہوتے ہیں، وہ بہت کم بیمار ہوتے ہیں اور کبھی ہو بھی جائیں تو نہ بیماری شدید ہوتی ہے اور نہ شفایابی میں زیادہ وقت لیتے ہیں۔ ایسے لوگ جلد ہی تندرست ہوکر دوبارہ معمولات زندگی پر بحال ہوجاتے ہیں۔
انسان کے جسمانی وجود کی طرح انسان کا روحانی وجود بھی مختلف امراض کا شکار ہوسکتا ہے۔ جسمانی مدافعتی نظام کی طرح ان روحانی امراض کے خلاف بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بہت مضبوط مدافعتی نظام دے رکھا ہے جس کے کئی اجزا ہیں۔ اس کا پہلا جز فطرت ہے جو انسان کو برے اور بھلے کا شعور دیتی ہے اور اس میں انسان اس طرح واضح ہے کہ جس طرح وہ خوشبو اور بدبو میں بغیر کسی کے بتائے فرق کرسکتا ہے، اسی طرح وہ برائی اور بھلائی میں امتیاز کرسکتا ہے۔ اس کا دوسرا جز ضمیر ہے۔ یہ ضمیر انسان کو برائی کے ارتکاب پر جھنجھوڑتا اور بھلائی پر تسکین و طمانیت دے کر اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔یہ دونوں چیزیں فطرت سے اٹھتی ہیں جن کے بعد انسان کا وہ ایمان ہے جو شعوری ہوتا ہے۔ یہ ایمان انسان کو بتاتا ہے کہ انسان کا ایک خالق و مالک ہے جو اس کے لمحہ لمحہ پر نگران اور ہر عمل کا گواہ ہے اور ایک روز انسان کو اس کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔اس ایمان سے جنم لینے والی تقویٰ کی نفسیات اس مدافعتی نظا م کا تیسرا بنیادی جز ہے۔
جو لوگ اس روحانی مدافعتی نظام کو خواہش، تعصب، غفلت اور مفاد پرستی سے کمزور نہیں کرتے وہ ایمان و اخلاق کی بیماریوں سے دور رہتے ہیں اور کبھی مبتلا ہوجائیں تو توبہ کی دوا سے فوراً شفا پاجاتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اس نظام کو مذکورہ بالا چیزوں سے کمزور کرتے ہیں، وہی ہر طرح کی روحانی بیماریوں کا مستقل نشانہ بنے رہتے ہیں۔
(ابو یحییٰ، ڈاکٹر ریحان احمد یوسفی)