عربی زبان، دنیا کی ترقی اور ہمارے مدارس کی عربی تکلم سے بے توجہی
سعودی عرب میں سنہء 2020 اور سنہء 2021 عربی زبان اور خطاطی کا سال منایا جارہا ہے، اور نوجوانوں کے لئے کئی شعبوں میں جو عربی کی ترویج میں معاون ہوسکتے ہیں ان پر کئی پروجیکٹ کا بھی آغاز کیا گیا، اسی سلسلے میں میں نے برطانیہ میں سنہء 2016 میں ہونے والے ایک روزگار کے حوالے ایک برطانوی کمپنی (Adzuna) کی جانب سے روزگار کی موجودگی (Job opportunity) کے حوالے سے دس لاکھ سے زیادہ ملازمتوں کا تجزیہ کیا گیا تھا، جس کا مقصد مختلف ملازمتوں میں انگریزی کے علاوہ دنیا بھر سے مطلوب دیگر زبانیں معلوم کرنا تھا یعنی کون سی زبان کا جاننے والا تنخواہ اور عہدے کے لحاظ سے جلد ترقی کر سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں انگریزی کے بعد نو زبانوں کی درجہ بندی کی گئی ہے جن میں کسی ایک کا بھی انگریزی کے ساتھ جاننا تنخواہوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔برطانوی کمپنی (Adzuna) کی رپورٹ کے نتائج میں سامنے آنے والی دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملازمت میں انگریزی کے ساتھ مطلوبہ نو زبانوں میں عربی دوسری مطلوب ترین زبان ہے۔ جو شخص انگریزی کے ساتھ عربی زبان میں روانی رکھتا ہے، اس کے سامنے ملازمتوں کے بڑے موقع ہوتے ہیں۔ ایسا شخص اپنےان ساتھیوں کی اوسط تنخواہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تنخواہ حاصل کرتا ہے جو صرف انگریزی زبان بولتے ہیں۔ بہرحال یہ سروے رپورٹ برطانیہ کی روزگار کی منڈی سے متعلق ہے تاہم یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ تھی جو دنیا بھر میں کمپنیوں اور کاروبار مالکان کے علاوہ روزگار کی مرکزی منڈیوں میں مطلوب زبانوں پر ایک بھرپور روشنی ڈالتی ہے ۔ امریکا اور کئی یورپین ممالک کے علاوہ عربی پر پروفیشنل دسترس کا ہونا یقیناً واقعی تنخواہ یا روزگار کی رسائی میں بہترین معاون کا کردار ادا کرتا ہے، برطانوی کمپنی (Adzuna) کے مطابق انگریزی کے ساتھ مطلوب نو اضافی زبانوں میں پہلے نمبر پر جرمن زبان ہے۔ برطانیہ میں انگریزی اور جرمن دونوں زبانوں میں روانی رکھنے والوں کو پیش کی جانے والی اوسط تنخواہ سالانہ ۳۴ ہزار ۵۳۴ پاؤنڈ (یعنی ۴۵ ہزار ڈالر) بنتی تھی۔
اس سروے میں دوسرے نمبر پر عربی زبان ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فرانسیسی اور ہسپانوی جیسی دیگر یورپ کی مرکزی زبانوں سے زیادہ مطلوب زبان ہے، لہٰذا انگریزی اور عربی زبانوں میں روانی رکھنے والوں کی اوسط سالانہ تنخواہ ۳۴ ہزار ۵۳۴ پاؤنڈ (یعنی ۴۵ ہزار ڈالر) بنتی ہے. ( یہ تنخواہ سنہء 2016 کی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے ہے۔ رپورٹ میں سنہء 2016 تک برطانیہ میں اس وقت ۱۱۱۳ ایسی ملازمتیں موجود تھیں جن کے لئے بنیادی شرط تھی کہ درخواست گزار انگریزی کے ساتھ عربی زبان میں بھی روانی رکھتا ہو۔ اسی فہرست میں تیسرا نمبر فرانسیسی زبان کا تھا اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی دوسری اہم ترین زبان ہے۔ تاہم سروے سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ جرمن اور عربی میں روانی رکھنے والے افراد آمدنی اور ملازمت کے لحاظ سے فرانسیسی زبان جاننے والوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ اسی فہرست میں چوتھا نمبر ڈچ زبان کا ، پانچواں ہسپانوی زبان کا، چھٹا جاپانی ، ساتواں روسی ، آٹھواں اطالوی اور جبکہ نواں اور آخری نمبر چینی زبان کا تھا۔
اس مضمون کا بنیادی موضوع پاکستان میں ایک کثیر تعداد مدارس کے حوالے سے ہے، چونکہ یہ میری رائے ہے اس لئے اس سے کسی کا بھی متفق ہونا ضروری نہیں ہے، مدارس کا نظام تعلیم عربی بنیاد پر ہے، اور اس تعلیم کے بعد تخصص کرنے والا شخص کیا واقعی اتنی اہلیت رکھتا ہے کہ وہ عربی زبان کو بحیثیت پروفیشنل سطح پر کسی جگہ مترجم، کتاب لکھنے ، پروف ریڈنگ، یا دفتری امور کے کاموں کو انجام دے سکے؟ جیسے میں مثال دے سکتا ہوں کہ عرب ممالک میں انگریزی لسانیات کے لئے اکثر جامعات ( University) یا کلیات (College) میں علاقائی یا آبائی زبان (Native speakers) کو ہی جگہ دی جاتی رہی تھی، مگر کچھ عرصے سے (EnglishSecond Language) کے لئے پاکستان کی کچھ مشہور جامعات جیسے کراچی یونیورسٹی یا لاہور یونیورسٹی کے کئی فاضل انگریزی لسانیات و ادب (Linguistic & Literature) ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کے امیدواروں نے اہلیت (Merit) کی بنیاد پر آبائی یا علاقائی Native speakers کے مقابلے میں جگہ پائی، یعنی ان جامعات کا معیار اس بات کے لئے کم ازکم یہ جواز ضرور دیتا ہے کہ یہاں کے فاضل خواتین و حضرات کم ازکم اکیلے یاذاری Skills میں اس لائق ہیں کہ یورپین، امریکن یا سکینڈوین ممالک کی یونیورسٹیز کے فاضل کی برابری کسی درجے میں ضرور کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں مدارس کے فاضل کئی حضرات اکثر مکہ یا مدینہ حج و عمرے کی سعادت کے لئے جب آتے ہیں تو ان کا بیان خاصا عجیب سا ہوتا ہے کہ جناب،سعودی عرب میں وہ ٹیکسی میں بیٹھے یا کسی دکاندارسے بات کی تو مقامی اہل زبان کو عربی آتی ہی نہیں، اور یہ فاضل حضرات ان سے فصح میں بات کرتے رہے، حالانکہ مکہ و مدینہ میں خصوصا ٹیکسی چلانے والے ۸۰ فیصد افراد پاکستانی انڈین و بنگالی ہوتے ہیں، لے دے کر چند یمنی و مصری ہوتے ہیں، وہ جناب کے حلیے کو دیکھ کر عمومی بول چال کے چند الفاظ بولتے ہیں تاکہ ممکنہ طور پر وہ سواری سے معاملہ کرسکیں یا دکاندار بھی اپنی چیزیں بیچ سکیں۔ یہ دعویٰ حقیقتاً بڑا مضحکہ خیز ہے، کہ وہ عربی نہیں جانتے اور آپ قدیم نصابی عربی پر کمال رکھتے ہیں۔ اگر یہ بات اتنی ہی درست ہے تو کیا وجہ ہے کہ آپ پوری دنیا میں ہونے والی جدید تحقیقات میں عربی تراجم میں کہیں کسی مدرسے کے فاضل کا نام نہیں پاتے، عرب کے کئی ممالک میں یونیورسٹیز تک کا نصاب جدید تحقیقات کا عربی زبان میں موجود ہے، یہ کام یقیناً کرنے والے عربی پر دسترس رکھتے ہیں، مگر کیا یورپ امریکا حتی کہ عرب کے ہی کسی ملک میں آپ ہمارے ان مدارس کے فاضل حضرات کا نام دیکھتے یا سنتے نہیں ہیں، ترکوں کے ادوار میں جب ترک اپنی روایات و تہذیب عربوں پر مسلط کررہے تھے، عربوں میں ان کے خلاف نفرت کی بنیاد بنی، اور اس عہد میں ان چند عیسائی اسکالرز اور ادباء نے جنہوں نے پچھلی صدی کے آواخر میں قرآن کی علمی زبان پر کام کیا، انہیں عرب میں آج بھی بہت زیادہ عزت اور مقام حاصل ہے۔
میں ایک مثال برصغیر سے ندوہ العلوم کی علمی روایات اور ندوی تہذیب و ثقافت کے ایک ستارے مولانا ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی کی دے سکتا ہوں جن کا انتقال 5؍جولائی سنہء 2016 کو کراچی میں ہوا۔ ( میری سنہء 2008 میں ان سے کئی ملاقاتیں رہیں، یہ الگ بات ہے کہ انہیں پاکستان میں کوئی خاص حلقہ نصیب نہ ہوا، اس کی وجہ ان کی زندگی کا زیادہ عرصہ عرب ممالک میں تدریس و تحقیق سے وابستگی میں گزرا، تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان میں پیداہونے والے رضوان ندوی صاحب نے ابتدائی علوم ندوہ العلوم سے لینے کے بعد سنہء 1955 میں دمشق یونی ورسٹی کے کلیۃ الشریعۃ میں داخلہ لیا، یہاں سے فراغت کے بعد انگلینڈ پہنچے اور سنہء 1963 میں کیمبرج یونی ورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ سنہء 1963 سے سنہء 1987 تک جس میں سے 10 سال سعودی عرب کی کئی بڑی جامعات میں اور 14 سال لیبیا کی کئی بڑی اور مستند جامعات میں تدریس و تحقیق سے وابستہ رہے، ان کی علمی تصنیفات کی تعداد 13 ہیں کوانہوں نے عربی، اردو اور انگریزی میں لکھیں۔ (ان کی تدریسی خدمات اور جامعات کا ریفرنس نوٹ میں موجود ہے)
اگر برصغیر سے کوئی ایک شخص اہل زبان کو مختلف فنون پر ان کی زبان میں اسپیشلائزیشن کے مضامین پڑھارہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے مدارس سے ایسے افراد کیوں نہیں پیدا ہوسکتے۔ جو پوری دنیا میں ہونے والے تحقیق یا تدریس میں آج کے دور میں کسی بھی بین الاقوامی جامعات میں کہیں نظر نہیں آتے، پاکستان میں ان فضلاء حضرات کی ہر قدیم زبان کا اردو کا ترجمے کو نام ہی صرف عربی میں ہوتا ہے ، اس کے علاوہ عربی میں کوئی خدمت نظر نہیں آتی- مغرب سے عرب ممالک ایک بڑا حلقہ جانے کا متمنی بھی رہتا ہے اور جاتے بھی ہیں مگر ماسوائے یہ مغربی ممالک کی مساجد کے امامت پکڑنے، مناظرے کرنے اور کثرت سے وہاں پر رہنے والے مسلمانوں کے بچوں کو گھر گھر جا کر قرآن پاک کے سپارے پڑھانے کے علاوہ کسی اور شعبے میں کبھی نظر نہیں آتے- چونکہ یہ مضمون میرے ذاتی مشاہدے اور محدود علم کی بنیاد پر ہے، اگر کوئی صاحب علم میری بات کی اصلاح کرنا چاہے تو مجھے آگاہ کرسکتا ہے ۔
بشکریہ : نوٹ: 1- اس مضمون کی تیاری میں حافظ صفوان صاحب کی نظر عنایت شامل رہی ہے ۔ کیونکہ حافظ صفوان صاحب کا ڈاکٹر رضوان علی ندوی سے ان کی زندگی کے آخری کئی سال فون پر بہت رابطہ رہا اور خط کتابت بھی رہی۔ انھوں نے جنابِ شان الحق حقی کے "فرہنگِ تلفظ" پر ڈاکٹر ندوی کے تفصیلی ملاحظے پر محاکمہ بھی کیا ہے۔ 2- چونکہ ڈاکٹر رضوان علی ندوی کے تدریسی تجربے کا ذکر ہے اسی لئے صرف یہاں ان کا غیر ممالک میں تدریسی زندگی کا سفر یہ تھا۔ @ کیمبرج یونیورسٹی میں Ph.Dکے حصول کے دوران ایک سال وہاں بی ۔ اے آنرز کے طلبہ کو فارسی پڑھائی (سنہء 1961 ۔ سنہء 1962 ) @ سنہء 1962 سے سنہء 1963 تک مڈل ایسٹ ریسرچ سینٹر میں مشہور صوفی مستشرق پروفیسر A.J. Arberry کے زیر نگرانی ریسرچ اسسٹنٹ کا کام کیا ۔ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں سینئر لکچرار ، اسلامی تاریخ و فارسی زبان سنہء 1963 تا سنہء 1964 ۔ [۴]کلیۃ التربیۃ مکہ مکرمہ میں سنہء ۱۹۶۴ سے سنہء 1965 کے دوران اسی عہدے پر کام کیا۔ @ اسسٹنٹ پروفیسر اسلامی تاریخ و تمدن جامعہ بن غاری لیبیا پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر سنہء 1965 سے سنہء 1967 تک۔ اسلامی تاریخ تمدن کے علاوہ یہاں عثمانی تاریخ، فارسی زبان اور اصولِ فقہ کے مضامین بھی پڑھائے۔ @ فل پروفیسر اسلامی تاریخ جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، ریاض سنہء 1979 تا 1987 سنہء تک، اور پھر خود ریٹائر منٹ لے کر واپس سنہء 1987 میں کراچی تشریف لائے۔ @ برہان الدین عربک حیئر پروفیسر جامعہ کراچی سنہء 1990 تا سنہء 1993ء۔