ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون
بن گیا موتی اسے تابندگی دیتا ہے کون
آ گیا موسم خزاں کا ، موت سب کو آ گئی
مردہ پودوں کو دوبارہ زندگی دیتا ہے کون
بن گئی ہیں پھول سب اپنے چٹکنے کے سبب
لب پہ کلیوں کے اچانک ہی ہنسی دیتا ہے کون
وہ ہیں سب بے جان ان میں جان کیسے آ گئی
تال، سر، لفظ و صدا کو دلکشی دیتا ہے کون
کھو گیا اس کی نوا میں تو مگر یہ بھی تو دیکھ
نالۂ بلبل میں درد و نغمگی دیتا ہے کون
ان کی تابانی سے نظروں کو ہٹا کر یہ بھی سوچ
انجم و شمس و قمر کو روشنی دیتا ہے کون
اپنے شعروں پر ہے ساحلؔ کیوں تجھے اتنا غرور
سوچ کہ شاعر کو ذوقِ شاعری دیتا ہے کون