[ ہمارے دوست ظفر جی کو ایک بار ہسپتال داخل ہونا پڑا ، ایر فورس سے ریٹائرڈ ایک 90 سالہ بزرگ بھی اسی وارڈ میں داخل تھے . بابا جی نے اپنی ملازمت کے زمانے کا ایک واقعہ سنایا، دیکھیں زندگی لوگوں کو کیسے کسی نئے موڑ پر ملاتی ہے.ظفر جی سنواتے ہیں بابا جی کی زبانی]
پُتّر میں ان دنوں پسرور کے پاس گراؤنڈ سگنلنگ میں تعینات تھا- سرحد پار سے بھارتی جہاز اڑتے تو ریڈار کے ذریعے ہمیں ان کی خبر ہو جاتی- ہمارے شاھین فوراً حرکت میں آ جاتے- میرا کام جنگ کی خفیہ اطلاعات ہیڈ کوارٹر تک پہنچانا تھا-
6 ستمبر کو اطلاع آئی کہ ایک بھارتی طیّارے کو سرنڈر کر کے پسرور کی لینڈنگ اسٹرپ پر اتار لیا گیا ہے ، کچھ تکنیکی عملہ ساتھ لیکر فوراً جائے وقوعہ پر پہنچو-ہم نکل پڑے- ائیر فیلڈ کے قریب آرمی کی چیک پوسٹ تھی- وہاں پہنچے تو فوجی جوانوں نے بتایا کہ آپ کا کوئ طیارہ ابھی ابھی یہاں اترا ہے-ہم نے کہا وہ ہمارا نہیں ، انڈیا کا طیّارہ ہے ، اور وہ اترا نہیں اتارا گیا ہے- اس پر فوجیوں نے نعرہء تکبیر بلند کیا اور پرجوش ہوگئے-کچھ فوجی افسر اور جوان ہمارے ساتھ ہوئے اور ھم 2 جیپوں پر بیٹھ کر ائیر اسٹرپ کی طرف گئے- طیارہ دور سے ہی نظر آ گیا- یہ انٍڈین ائیرفورس کا " نیٹ" طیارہ تھا اور اسے قیدی بنانے کا شرف فضائیہ کے ایف 104 اسٹار فائٹر کو حاصل ہوا تھا جسے فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اللہ اڑا رہے تھے- ھم وہاں پہنچے تو اسٹار فائٹر اپنے شکار پر مسلسل منڈلا رہا تھا- پسرور کی یہ ائیر اسٹرپ کچّی تھی اور آس پاس کافی کھیت واقع ہوئے تھے. پائلٹ طیّارے سے اتر کر کھیتوں میں گھاس کاٹتے ایک شخص سے پوچھ رہا تھا " ایہہ کہڑی تھاں ایں وئی ؟"
ہم نے اسے ھینڈزاپ کیا اور کہا "مبارک ہو سردار جی ، آپ بخیریت پسرور ایئر فیلڈ پر اتر چکے ہو" جامہ تلاشی کے بعد اُسے جنگی قیدی بنا لیا گیا- اس کا نام برج پال سنگھ تھا- اب یہ مسئلہ آن کھڑا ہوا کہ جنگی قیدی کو رکھا کہاں جائے کیونکہ شام ہو چلی تھی- تجویز ہوا کہ یہاں سے کچھ میل دور بریگیڈئیر صاحب کا بنگلہ ہے ، فی الحال مہمان کو وہیں لے چلتے ہیں-موبائیل فون کا دور تو تھا نہیں کہ بڑے صاحب کو اطلاع کرتے- گاڑیاں بھگاتے وہاں پہنچے- دروازہ کھٹکھٹایا تو بریگیڈئیر صاحب باہر نکلے- پہلے حیرت سے ہمیں دیکھا پھر جنگی قیدی کو حیرت سے دیکھتے ہوئے بولے:
برج پال توں ؟ توں ایتھے کی کر ریاں ؟؟" دراصل دونوں ایف سی کالج لاہور میں اکٹّھے پڑھ چکے تھے- برج پال نے شرمندگی سے سر جھکا کر کہا "بس جی دانڑے پانڑی دی گل اے!"قیدی کو ٹھکانے لگانے کے بعد مقبوضہ طیارے کی فکر لاحق ہوئ- خدشہ تھا کہ رات کہیں بھارتی فضائیہ حملہ کر کے اسے تباہ ہی نہ کر دے- قریب ہی کماد کا کھیت تھا- جوانوں نے دھکا لگایا اور یوں ھم نیٹ کو کھیت کے اندر چھپانے میں کامیاب ہو گئے-مزید کیمو فلاج کےلئے اوپر کھوری شوری ڈال دی- میں قریبی تھانے جا کر دو پُلس والوں کو لے آیا اور انہیں ذمہ داری سونپی کہ رات کو کھیت کی طرف کوئ نہ پھٹکے-
اگلے روز کراچی سے سی ون تھرٹی کچھ صحافیوں کو لے کر آیا جنہوں نے جہاز کی تصاویر وغیرہ اتاریں- یہ تصاویر اگلے روز اخبارات میں چھپیں تو قوم کا جذبہ بلند ہو گیا- ادھر بھارت سرے سے مکر گیا کہ اس کا کوئ طیارہ سرنڈر ہوا ہے-اسی روز شام کو سرگودھا ائیربیس سے فلائٹ لیفٹیننٹ سعد حاتمی تشریف لائے-وہ پاک فضائیہ کے بہترین پاٰئلٹ تھے اور لندن میں تربیّت کے دوران نیٹ کو اڑانے کا تجربہ کر چکے تھے-حاتمی بہت پرجوش تھے- انہوں نے بمشکل رات کاٹی صبح ہوتے ہی بولے جہاز کو کھیت سے باھر نکالو ، میں ابھی اڑانا چاھتا ہوں- ھم نے کہا ایک بار معائنہ تو کر لیجئے- بہرحال معائنہ کرنے کے بعد وہ قدرے پریشان ہوئے اور کہا اسے اڑانے کےلئے تو اسپیشل بیٹری ٹرالی درکار ہوگی اور وہ ہمارے پاس نہیں ہے-قریب ترین ٹیلی فون 10 کلومیٹر دور تھا- گوجرانوالا انجینئرنگ کمپلیکس رابطہ ہوا- وہاں سے ایک ٹیم طیارے کا معائنہ کرنے آئ اور کچھ ڈرائنگز وغیرہ بنا کر چلی گئ- اگلے 24 گھنٹے میں "میڈ ان گوجرانوالا" ٹرالی ھم تک پہنچ چکی تھی- حالانکہ یہ ایک ماہ کی ریاضت کا کام تھا- واقعی جنگیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں-اب تو حاتمی کا جوش جنون عروج پر پہنچ گیا- وہ ہندوستانی طیارے کو پاکستانی فضاؤں میں اڑا کر ایک نئ تاریخ رقم کرنا چاھتے تھے- چنانچہ جہاز کو کھینچ کھانچ کے کھیت سے باھر لایا گیا اور ائیر اسٹرپ پہ ری فیول کیا گیا- لیکن اس دوران ایک نئ مشکل آن پڑی- حاتمی صاحب کاک پٹ میں بیٹھے ہی تھے کہ دور سے آرمی کی ایک وین آتی دکھائ دی- اس میں بیٹھے میجر صاحب ہمیں اشارہ کر رہے تھے کہ طیاّرے کو مت اڑانا- قریب آ کر انہوں نے بتایا کہ انڈین طیاروں نے سرگودھا ائیربیس پر حملہ کر دیا ہے- نیٹ اڑا تو دوست ، دشمن دونوں کے نشانہ پر ہو گا-
یہ وہی حملہ تھا جس میں ایم ایم عالم نے بھارتی فضائیہ کو تاریخی دھول چٹائ تھی-
اگلے دو دن تک نیٹ اڑانے کی اجازت نہ ملی- حاتمی ہرروز دس کلومیٹر سفر کر کے فون کرنے جاتے ، مگر ادھر سے ہر بار منع ہو جاتا کہ ابھی تک ائیر زون سیف نہیں ہے- حاتمی سخت بے چین تھے- بار بار اپنی انگلیاں دانتوں سے کاٹتے اور انگریزی میں کہتے " مائ آل فرینڈز آر ان دی ائیر ، اینڈ آئ ایم ویسٹنگ مائ ٹائم ہئیر- بہرحال تیسرے دن حاتمی نے فیصلہ کن فون کیا اور سینئر کی بات سنے بغیر چیخ کر کہا سر آئ ایم گیٹنگ دس بےبی انٹو دی ائیر ، یو کین شوُٹ می آئی ڈونٹ کیئر --!!!"اس کے بعد وہ ٹیک آف کر گئے- پھر جہاز کو فضاء میں اچھی طرح گھما پھرا کے باحفاظت سرگودھا ائیر بیس پر اتار دیا- دشمن کے طیارے کو اپنی سرزمین پہ اڑانے کا یہ حیران کن جنگی واقعہ تھا- اگلے روز بھارتی اخبارات نے لکھا " پاک فضائیہ نے اپنے طیاروں پر بھارتی رنگ پھیر دیا ہے تاکہ دشمن کے حملے سے محفوظ رہ سکیں "- ہم نے کہا اجی پہچانئے ، یہ ہمارا نہیں آپ کا اپنا نیٹ طیارہ ہے- لیکن جھوٹ بولنے اور فلمیں بنانے میں بھارت کا مقابلہ کون کرے-حکیم اللہ بعد میں پاکستانی فضائیہ کے سربراہ بنے- قیدی برج پال سنگھ کو چکلالہ منتقل کیا گیا- جب جنگی قیدی رہا ہوئے تو اپنے وطن سدھارا اور بھارتی فضائیہ میں ایئر مارشل کے عہدے پر ریٹائرڈ ہوا.... واقعی دانڑے پانڑی دی گل اے جی !
ہاں ، کماد کے کھیت میں چھپایا گیا نیٹ(GNAT)طیارہ آج بھی پی اےایف میوزیم میں کھڑا ہے-