صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں سے کئی شخصیات ایسی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ زمانے کے کئی اہل علم دانستہ و نادانستہ زیادتی کرگئے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا سعید بن العاص امویؓ جلیل القدر صغار صحابہؓ میں سے ایک تھے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب الاصابہ فی تمییز الصحابہ" جلد دوم تحت الترجمہ سعید بن العاص کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ یہ قرشی اموی تھے۔ ابن ابی حاتم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں شرف صحابیت حاصل ہے۔ (الجرح و التعدیل جلد ۴ صفحہ ۴۸) ابن حجر کہتے ہیں کہ سعیدؓ نبیﷺ کے انتقال کے وقت نو سال کے تھے۔ ان کا والدعاص بن امیہ اموی بدر میں قتل ہوا۔ سیدنا علیؓ نے اسے قتل کیا۔ سیدنا عمرؓ نے سیدنا سعید بن العاصؓ سے فرمایا کہ میں نے تمہارے والد عاص بن امیہ اموی کو قتل نہیں کیا، بلکہ اپنے ماموں عاص بن ہشام مخزومی کو قتل کیا ہے- اس پر سیدنا سعید بن العاصؓ نے جوش ایمانی سے بھرپور جواب دیا کہ اگر آپ نے میرے والد کو قتل بھی کیا ہے تو آپ حق پر تھے اور وہ باطل پر تھا، سیدنا عمر ؓ کو ان کی یہ بات بہت پسند آئی۔ وہ قریش کے فصیح ترین اشخاص میں سے تھے اسی لئے سیدنا عثمانؓ نے انہیں کتابت قرآن کے لئے منتخب لوگوں میں شامل کیا۔ ابن ابی داؤد کا مصاحف میں قول ہے کہ قرآن کی عربیت کا مدار سعید بن العاصؓ کی زبان پر تھا۔ کیونکہ ان کا لب و لہجہ نبی ﷺ کے مشابہ تھا۔ کچھ عرصہ کوفہ کے والی رہے۔ طبرستان کی جنگ کی کمان ان کے سپرد تھی اور جنگ میں فتح مند ہوئے۔ اسی طرح غزوہ جرجان میں بھی شامل تھے۔ سیدنا حذیفہؓ اور دیگر اکابر صحابہؓ کے لشکرمیں تھے۔ سیدنا معاویہؓ نے ان کو مدینہ کا والی مقرر کیا۔ حدیث کے راوی بھی ہیں۔ مسلم اور نسائی نے ان کی روایت سےبحوالہ سیدنا عثمانؓ اور سیدہ عائشہؓ حدیث نقل کی ہے۔ سیدنا معاویہؓ فرماتے تھے کہ سعید بن العاصؓ قریش کے سخی ترین انسانوں میں سے ہیں۔ آپؓ سخاوت و کرم نوازی میں شہرت رکھتے تھے حتیٰ کہ اگر ان کے پاس کوئی حاجت مند آتا اور فی الفوران کے پاس کچھ نہ ہوتا تو اسے سر بمہر تحریر لکھ دیتے۔ جب انکا انتقال ہوا تو ان پر اسی ہزار دینار قرض تھا جو کہ آپ کے بیٹے عمر الاشدق نے ادا کیا۔ صالح بن کیسان سے مروی ہے کہ سعید بن العاصؓ بڑے بردبار اور باوقار انسان تھے۔ جب کسی چیز کو پسند یا ناپسند کرتے تو اسکا اظہار نہ کرتے تھے، فرماتے تھے کہ دل بدلتے رہتے ہیں، انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ آج کسی ایک چیز کی تعریف کرے اور کل اس کی مذمت کرنے لگے۔ سیدنا سعید بن العاصؓ کی حکیمانہ باتوں میں سے ایک قول یہ بھی ہے کہ شریف سے مزاح نہ کرو کہ وہ تم سے بغض کرنے لگے گا اور نہ کسی برے انسان سے مزاح کرو ورنہ وہ جری اور دلیر ہوجائیگا۔ ابن ابی الدنیا نے بواسطہ عبداللہ بن مبارک ان کا ایک اور قول نقل کی ہے کہ میں دو جگہ خاموش رہنے میں معذور نہیں۔ جب میں کسی جاہل سے مخاطب ہوں یا مجھے اپنا کوئی کام ہو۔ مصعب زبیری کہتے ہیں کہ (ان کی شریف النفس طبیعت کے زیر اثر) ان کو شہد کا ڈبہ کہا جاتا تھا۔
سیدنا سعید بن العاصؓ قرآن مجید کے بڑے عالم تھے اور زبان کی صحت کے بارے میں حجت سمجھے جاتے تھے، چنانچہ جب امیر المومنین سیدنا عثمانؓ نے قرآن مجید کو ایک حرف پر مجتمع کیا اور باقی متداول قرأتوں کی ممانعت کردی تو جن بزرگوں کے سپرد قرآن کے و حدانی نسخوں کی کتابت تھی ان میں سیدنا زید بن ثابتؓ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ اور سیدنا عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام ؓ کے ساتھ سیدنا سعید بن العاصؓ کو بھی مصحف کی نقل پر مامور کیا تھا۔ اس بہترین علمی اور دینی خدمت کے علاوہ آپ جہادوں میں بھی بڑا نام پیدا کرچکے تھے چنانچہ جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے تصریح کی ہے کہ طبرستان کے جہاد میں کمان آپ ہی کے سپرد تھی اور اس اموی بطل عظیم کی قیادت میں اجلہ صحابہ نے اس جہاد میں شرکت کی جن میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ، سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ وغیرہم بھی شامل تھے اور یہ معرکہ سیدنا سعید بن العاصؓ کی سرکردگی میں سر کیا گیا۔ (تاریخ الطبری جلد ۵ صفحہ ۵۷)
سیدنا سعید بن العاص‘ سیدنا عثمانؓ کے داماد تھے کہ ان کو سیدنا عثمان بن عفانؓ کی بیٹی ام عمرو بنت عثمانؓ بیاہی تھی۔ اس رشتے سے یہ سیدنا خالد بن ولیدؓ کے ہم زلف بھی تھے کیونکہ سیدنا عثمانؓ کی ایک دوسری بیٹی اروی بنت عثمان سیدنا خالد کو بیاہی تھیں جبکہ تیسری بیٹی عائشہ بنت عثمانؓ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ، چوتھی بیٹی ابان بنت عثمان سیدنا مروانؓ کو بیاہی تھیں۔ اس لحاظ سے یہ تمام حضرات یعنی سیدنا سعید بن العاص، سیدنا مروان بن الحکم، سیدنا عبداللہ بن زبیر اور سیدنا خالد بن ولید رضوان اللہ اجمعین آپس میں ہم زلف اور دامادِ خلیفہ راشد ثالث عثمان بن عفانؓ تھے۔ (کتاب المحبر صفحہ ۶۶) اسی طرح سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے سمدھی بھی تھے کیونکہ سیدنا طلحہ کی بیٹی الصعبہ بنت طلحہ کی شادی سیدنا سعید کے بیٹے عنبسہ بن سعید بن العاص سے ہوئی تھی جبکہ ان کے دوسرے بیٹے عمرو بن سعید کی شادی سیدنا زبیر کی بیٹی سودہ بنت زبیر سے ہوئی تھی۔ (کتاب المحبر صفحہ ٦٦)
سیدنا سعید بن العاصؓ صغار صحابہ میں سے تھے۔ جن کی تربیت اکابر صحابہ نے کی تھی۔ علامہ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ" میں آپ کا سالِ وفات ۵۷ ہجری لکھا ہے اور اسی کے ذیل میں بڑی تقطیع کےتین صفحات میں آپ کا تذکرہ نقل کیا ہے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آپ قریش کے معروف سخی لوگوں اور ساداتِ مسلمین میں سے تھے جن کی پرورش سیدنا عثمانؓ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ سیدنا عمرؓ آپ کو بہت پسند کرتے تھے اور انہوں نے آپ کو عراق کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ابن کثیر مزید لکھتے ہیں کہ سعید بن العاصؓ کی داڑھی رسول اللہﷺ کے مشابہ تھی۔ انہوں نے طبرستان کو فتح کیا اور جب آذر بائیجان کے لوگوں نے بغاوت کی تو انہوں نے اس بغاوت کی نہایت احسن طریقے سے گوشمالی کرکے آذر بائیجان کو اسلامی حکومت کے زیرِ اقتدار کیا۔ سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد مشاجرات کے باب میں وہ غیر جانبدار رہے اور جنگ جمل و صفین کسی میں شرکت نہ کی۔ سیدنا معاویہؓ کی خلافت قائم ہونے کے بعد آپ نے سیدنا معاویہؓ کی بیعت کرلی اور ان کی خلافت میں کچھ عرصہ والئ مدینہ کے فرائض انجام دئیے۔ ابن کثیر بتاتے ہیں کہ سعید بن العاصؓ نہایت خوش سیرت اور پاک باطن تھے۔ اکثر جمعہ کے دن لوگوں کو بلا کر انہیں کھانا کھلاتے، کپڑے پہناتے اور ان کے گھروں میں ہدایا و تحائف اور دیگر چیزیں بھیجتے تھے۔ اس کے علاوہ تھیلیوں میں چیزیں باندھ کر مسجد میں ضرورتمند نمازیوں کے سامنے رکھ دیتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبیﷺ کے پاس چند عمدہ چادریں لے کر حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میں نے نذر مانی ہے کہ میں یہ چادریں عرب کے سب سے معزز شخص کو دوں گی۔ اس وقت سیدنا سعید بن العاصؓ وہاں موجود تھے۔ آپﷺ نے اس عورت سے کہا کہ یہ چادریں اس نوجوان یعنی سعید بن العاص کو دے دو۔ مشہور شاعر فرزدق کا شعر سیدنا سعید بن العاصؓ کے بارے میں ہی ہے کہ
؎ جب زمانے کی سختیاں اور مصیبتیں بڑھتی ہیں تو
قریش کے فیاض اور سخی لوگوں کو تو
سعید کی طرف دیکھتے ہوئے یوں دیکھے گا
گویا وہ چاند کو دیکھ رہے ہوں
علامہ ابو جعفر محمد بن حبیب البغدادی نے اپنی کتاب "المحّبر" میں "عہدِ اسلام کے فیاض" لوگوں کی سرخی قائم کرکے جہاں بنو ہاشم میں سے عبیداللہ بن عباس بن عبدالمطلب، السفاح عبداللہ الاصغر بن علی بن عبداللہ بن عباس، محمد بن جعفر بن عبیداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر ؓ کا ذکر کیا ہے وہیں بنو امیہ میں سے سعید بن العاص ؓ اور عبداللہ بن عامر بن کریز امویؓ کا بھی ذکر کرکے ان کی سخاوت کے قصے لکھے ہیں ۔ ابن کثیر نے سیدنا سعید بن العاصؓ کی سخاوت کے کئی رقت آمیز و قابلِ رشک واقعات نقل کیے ہیں۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا سعید بن العاصؓ نے ایک شخص سے پانی مانگ کر پیا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص اپنے گھر کو بیچ رہا ہے۔ سعید بن العاصؓ نے اس سے گھر کے فروخت کرنے کی وجہ دریافت کی تو بتایا کہ اس پر چار ہزار دینار کا قرض چڑھ گیا ہے جس کے ادا کرنے کے لیے وہ اپنا گھر فروخت کرنے پر مجبور ہے۔ یہ سن کر سیدنا سعید بن العاصؓ نے قرض خواہ کے پاس اپنا آدمی روانہ کرکے اس کو پیغام بھیجا ہے کہ تیرا قرضہ میرے ذمہ ہے اور گھر والے کو کہا کہ تم اپنا گھر فروخت مت کرو، آرام سے اس میں رہو۔
سیدنا سعید بن العاصؓ نہایت خوش الحان قاری تھے۔ ان کے مصاحبین قراء میں ایک شخص مفلس ہوگیا ، یہاں تک کہ فاقوں کی نوبت آگئی۔ اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ ہمارا امیر سخاوت کے لیے مشہور ہے۔ اگر تم اپنا حال اس کو بتاؤ تو ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری کچھ مدد کردے۔ اس پر اس شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تیرا ناس ہو، تو مجھ پر سوال کاداغ لگوانا چاہتی ہے۔ لیکن جب بیوی نے زیادہ اصرار کیا تو وہ آکر سعید بن العاصؓ کی مجلس میں بیٹھ گیا لیکن کچھ نہ بولا یہاں تک کہ سب لوگ چلے گیے اور وہ اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ سعید بن العاصؓ نے اس سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ تم کسی ضرورت سے بیٹھے ہو، اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ سعید نے اپنے غلاموں کو وہاں سے چلے جانا کا حکم دیا۔ جب وہ چلے گیے تو اس سے کہا کہ اب تمہارے اور میرے علاوہ کوئی شخص موجود نہیں۔ اب بتاؤ کیا ضرورت ہے۔ وہ شخص پھر بھی خاموش رہا۔ پھر سعید بن العاصؓ نے چراغ بجھادیا اور کہا تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، اب تو مجھے نہیں دیکھ رہا ہے۔ اب اپنی ضرورت بتاؤ۔ اس نے کہا اللہ امیر کو سلامت رکھے، ہمیں فاقہ و احتیاج نے تنگ کردیا ہے، یہی میں کہنا چاہ رہا تھا لیکن مجھے شرم آرہی تھی۔ سعید بن العاصؓ نے کہا صبح میرے وکیل سے مل لینا۔اگلی صبح وہ شخص سعید کے وکیل کے پاس آیا تو وکیل نے کہا امیر نے تمہیں کچھ سامان دینے کا حکم دیا ہے، پس سامان اٹھانے کے لیے کوئی آدمی لاؤ۔ ا س شخص نے کہا کہ میرے پاس سامان اٹھانے والا تو کوئی شخص نہیں ہے۔ پھر وہ شخص اپنی بیوی کے پاس آکر کہنے لگا کہ تو نے مجھے ایسا کام کرنے پر مجبور کیا ہے جس کی وجہ سے میں امیر کے سامنے رسوا ہوگیا ہوں، اس نے کوئی وزنی چیز دینے کا حکم دیا ہے جس کا اٹھانے والے کوئی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ امیر نے آٹا و غلہ دینے کا کہا ہے۔ اگر کوئی رقم ہوتی تو بوجھ اٹھانے والوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ اس کی بیوی نے کہا کہ جو کچھ دیا ہے، بہرحال وہ ہمارا ہے لٰہذا اسے لے لو۔ چنانچہ وہ شخص وکیل کے پاس دوبارہ آیا تو وکیل نے کہا میں نے امیر سعید کو اطلاع دی کہ سائل کے پاس کوئی سامان اٹھانے والا نہیں ہے تو انہوں نے تمہارا سامان تین سوڈانی غلام سامان کے ذریعے تمہارے گھر روانہ کردیا ہے۔ وہ شخص چلا گیا اور جب گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ہر غلام کے سر پر دس ہزار درہم ہیں۔ اس نے غلاموں سے کہا کہ سامان رکھو اور چلے جاؤ ۔ غلاموں نے کہا کہ امیر نے ہمیں بھی تجھے دے دیا ہے کیونکہ جب وہ کسی کے پاس ہدیہ بھیجتے ہیں تو سامان اٹھانے والا بھی ہدیہ کا حصہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس شخص کی تمام مالی احتیاج ختم ہوگئی اور وہ خوشحال و کشادہ رزق ہوگیا۔
اسی طرح ابن کثیر آپ کی سخاوت کا ایک اور واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے سیدنا سعید بن العاصؓ سے سوال کیا تو انہوں نے خادم کو اسے پانچ سو درہم دینے کا حکم دیا۔ خادم نے صحیح سے سنا نہیں اور پوچھا کہ پانچ سو درہم دوں یا پانچ سو دینار۔ سعید بن العاصؓ نے کہا کہ میں نے تو پانچ سو درہم ہی کہا تھا لیکن اب چونکہ تمہارا خیال پانچ سو دینار کی طرف گیا تو بہتر ہے کہ اسے پانچ سو دینار ہی دے دو۔ دیہاتی ان دیناروں کو لے کر رونے لگا۔ سعید بن العاصؓ نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی کہ کیا تم کو تمہارے حق سے کم دیا گیا ہے؟ اس نے کہا نہیں، بلکہ رونا مجھے زمین پر آتاہے کہ وہ آپ جیسے انسان کو کیسے نگلے گی۔ ابن کثیر مزید لکھتے ہیں کہ ایک شخص چار دیتوں کی ضمانت کے سلسلے میں اہل مدینہ سے مدد مانگنے کے لیے آیا تو لوگوں نے اسے بتایا کہ سیدنا حسن بن علیؓ یا سیدنا عبداللہ بن جعفرؓ یا سیدنا سعید بن العاصؓ یا سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے پاس جاؤ، وہ تمہاری حاجت پوری کردینگے۔ چنانچہ وہ شخص مسجد کی طرف گیا۔ سامنے سے سعید بن العاصؓ آرہے تھے۔ اس نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے۔ بتایا گیا کہ سعید بن العاصؓ ہیں۔ وہ جاکر ان سے ملا اور اپنی پریشانی ان کو بتائی۔ سعید بن العاصؓ وہیں سے مسجد جانے کے بجائے اپنے گھر واپس آئے اور اس شخص سے کہا کہ کوئی مزدور لے آؤ۔ اس نے کہا میں نے آپ سے مال مانگا ہے، کھجوریں نہیں مانگیں۔ سعیدؓ نے کہا مجھے معلوم ہے۔ جاؤ کوئی بوجھ اٹھانے والا لے آؤ۔ اور پھر اسے چالیس ہزار درہم دے دئیے۔ وہ شخص یہ مال اٹھا کر واپس ہوگیا اور کسی اور سے کچھ نہ مانگا۔
جب سعید بن العاصؓ کوفہ کی امارت پر فائز تھے تو ایک عابدہ عورت ان کے پاس اپنی حاجت لے کر حاضر ہوئی جسے انہوں نے فی الفور پورا کردیا اور اس عورت کے ساتھ نہایت عزت و اکرام سے پیش آئے اس پر وہ عورت سعید بن العاصؓ سے مخاطب ہوکر بولی کہ آپ کے احسانات کا بوجھ ہمیشہ شرفاء کی گردنوں پر رہے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی شریف انسان سے اپنی کوئی نعمت زائل کردیتا ہے تو آپ کو اس
نعمت کے لوٹانے کا سبب بنادیتا ہے۔
عبدالملک بن عمیر ،قبیصہ بن جابر سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ زیاد بن ابو سفیان نے مجھے سیدنا معاویہؓ کے پاس کسی کام سے بھیجا۔ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو میں نے سیدنا معاویہؓ سے پوچھا کہ امیر المومنین! آپ کے بعد یہ معاملہ یعنی امرِ خلافت کس کے ہاتھ میں ہوگا؟ تھوڑی دیر خاموش رہ کر سیدنا معاویہؓ نے فرمایا کہ یہ امر یا تو قریش کے سخی سعید بن العاص کے ہاتھ میں ہوگا یا پھر سخاوت، حیا اور رعب و دبدبے کے مالک عبداللہ بن عامرؓ کے پاس جائے گا یا پھر سردار و سخی انسان سیدنا حسن بن علیؓ تمہارے امیر ہوں گے یا پھر کتاب اللہ کے قاری، فقیہ ملت اور حدود اللہ میں سختی برتنے والے مروان بن الحکمؓ کے ہاتھ میں امارت ہوگی یا پھر لوگوں میں سب سے فقیہ عبداللہ بن عمرؓ تم پر حاکم ہوں گے یا پھر جری و بہادر، چالاک و ہشیار لیکن سختی سے شریعت کی پابندی کرنے والے عبداللہ بن زبیرؓ کی تم پر امارت ہوگی۔
جب سیدنا سعید بن العاصؓ کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلا کر وصیت کی کہ میرے بعد میرے اصحاب کو میری کمی محسوس نہ ہونے دینا اور ان کی ضرورتوں کا ویسے ہی خیال رکھنا جیسے میں نے رکھا اور ان کو وہی چیزیں دینا جو میں انہیں دیا کرتا تھا۔ کوشش کرنا کہ سوال کی تکلیف سے بچ سکو کیونکہ جب انسان اپنی ضرورت طلب کرتا ہے تو اس کی چولیں ہل جاتی ہیں اور خالی ہاتھ لوٹ جانے کے خوف سے اس کی رگیں پھڑکنے لگتی ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر کوئی اپنے بستر پر تلملاتا تمہیں اپنی ضروریات کا پورا کرنے والا سمجھتا ہے تو یہ تمہارے اوپر اس کا احسان ہے بہ نسبت اس کے کہ تم اس کی ضرورت پوری کرکے اس پر احسان جتاؤ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۸)
ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ" میں سیدنا سعید بن العاصؓ کا سن وفات ۵۳ ہجری لکھا ہے لیکن علامہ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ " میں ۵۶ھ، ۵۷ھ اور ۵۸ھ کے اقوال نقل کرکے ۵۷ ہجری کو راجح قرار دیا ہے اور اسی سال کی وفیات کے ذیل میں آپ کے مفصل حالاتِ زندگی لکھے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے عمرو بن سعیدؒ جو سیدنا زبیر بن العوامؓ کے داماد تھے، سیدنا معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدنا معاویہؓ نے آپ سے تعزیت کی اور نہایت غمگین لہجے کے ساتھ پوچھا کہ سعید بن العاصؓ پر قرضہ تھا؟ عمرو نے اثبات میں جواب دیا تو سیدنا معاویہؓ نے پوچھا کہ کتنا قرضہ تھا۔ عمرو نے بتایا کہ تین لاکھ درہم اور ایک روایت میں تین کروڑ درہم کا ذکر بھی ہے۔ سیدنا معاویہؓ نے فرمایا کہ ان کا قرضہ میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ عمرو بن سعید نے جواباً عرض کیا کہ امیر المومنین ! والد نے مجھے اپنی زمینیں فروخت کرکے قرضوں کی ادائیگی کی وصیت کی ہے۔ چنانچہ سیدنا معاویہؓ نے ان زمینوں کے بدلے عمرو بن سعید کو اتنا مال دے دیا جس سے سیدنا سعید بن العاصؓ کے تمام قرضےچکادئیے گیے۔