میرے اندازے کے مطابق صحابہ میں سب سے زیادہ اوقاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تھے، اس معاملے میں وہ متعدد مشہور اغنیائے صحابہ سے بھی آگے نظر آتے ہیں. ایک تحقیق کے مطابق ان اوقاف کی تعداد تیس سے زائد ہے. ان میں اکثر اوقاف وہ ہیں جن کی بنجر زمینوں کو آپ نے خود آباد کیا تھا اور ان میں کنوؤں وغیرہ کی کھدائی کی تھی، بلکہ بعض روایات میں "یدہ" کے لفظ بھی آتے ہیں، یعنی یہ کام اپنے ہاتھ سے بھی کیے. ینبع کے علاقے میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعدد اوقاف تھے. ان میں سے ایک کے بارے میں مشہور حنفی فقیہ خصاف نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی پانی کی تلاش کا کام کروا رہے تھے کہ آپ کو اطلاع دی گئی کہ پانی کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے یعنی کثیر پیدا وار کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں تو آپ نے خوش خبری سنتے ہی فوراً اسے اللہ کے راستے میں وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا. گویا محنت کرو، جب نتائج پر رال ٹپکنے لگے تو فوراً اللہ کی راہ میں وقف کر دو (جی، یہ وہی علی ہیں جنھیں نعوذ باللہ نکما اور نا معلوم کیا کچھ ثابت کیا جاتا ہے).
صرف اسی ایک باغ کے بارے میں خصاف کی روایت میں ہے کہ اس کی سالانہ آمدن ایک ہزار وسق سے زائد تھی جس کی مالیت پانچ کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے، یہ کھجور کے پاکستانی ریٹ کے اعتبار سے ہے، اگر اُسی علاقے کی کھجور کا ریٹ لگایا جائے تو مالیت نا معلوم کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی. پھر آمدن بنیادی پیدا وار کے اعتبار سے ہے، وگرنہ اس طرح کے باغات وغیرہ کی ثانوی آمدن بھی کافی ہوتی ہے، وہ الگ ہے. یہ صرف ایک پراپرٹی کی آمدن ہے، باقی تیس وقف پراپرٹیز کی آمدن اس کے علاوہ ہیں، ان کی آمدن کا اگر حساب ہو تو بات بہت دور تک پہنچے گی. عام طور پر دیگر اغنیائے صحابہ کی داد ودہش کا تذکرہ تو کیا جاتا ہے، مگر علی اور خاندانِ علی کے بارے میں یہ تأثر دیا جاتا ہے کہ وہ بس صاحبزادگی کی مد میں لے لے کر کھانے والے تھے، اتنے بڑے اوقاف کے ذریعے خلقِ خدا کی خدمت کرنے والے حسنین پر ایک دو لاکھ کے سرکاری عطیوں کا احسان جو لوگ آج تک جتانے سے باز نہیں آتے ان کے علمی افلاس پر ترس ہی کھایا جا سکتا ہے-