ہم بدکاری کے عالمی دور میں زندہ ہیں۔ بدکاری کا سیلاب مغرب سے مشرقی معاشروں میں پہنچا اور اب مسلم معاشروں میں بھی داخل ہونے کو ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جو آنے والے دنوں میں تمام مسلم معاشروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج بننے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اس سوال کا جواب کچھ تفصیل کا متقاضی ہے۔
زمانہ قدیم عقیدے کا دور تھا۔ عقیدے کے اس دور کی سب سے بڑی گمراہی شرک تھی۔ دور جدید میں صنعتی انقلاب کے بعد عقیدہ علم کی دنیا سے رخصت ہوگیا۔خدا کی جگہ انسان نے لے لی اور پیغمبروں کی جگہ خواہش نفس کی تکمیل نے حاصل کرلی۔ عملی طور پر اس گمراہی کا سب سے بڑا اظہار بدکاری کی شکل میں ہوا ہے۔ اور آج ہم زنا اور بدکاری کے عالمی عہد میں زندہ ہیں۔
یہ حادثہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ اس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ زنا ایک استثنا کے طور پر ہر دور میں دنیا کے ہر معاشرے کا حصہ رہا ہے۔ مگر عمومی طور پر انسانی معاشرے عفت کی قدر کو بنیادی حیثیت دیتے چلے آئے ہیں۔ خاص کر انبیاء کی تہذیب کو چونکہ پچھلے کئی ہزار برسوں میں عالمی تہذیبی غلبہ اور اقتدار دونوں حاصل رہا ہے اور ان کے ہاں یہ ایک بنیادی قدر تھی اس لیے زنا ہی نہیں بلکہ عریانی بھی انسانی معاشروں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی۔
یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد پے در پے ایسے واقعات پیش آئے جنھوں نے نئے دور کی بنیاد رکھ دی۔ زرعی دور میں شادی کی بنیادی ضرورت روٹی اور پانی کی طرح پوری کی جاتی تھی۔ صنعتی انقلاب کے بعد تعلیم، ملازمت، گھر بار، کیرئیر اور پھر معیار زندگی کی بلند سے بلند تر ہونے والی سطح نے شادی کو موخر کرنا مجبوری بنا دیا۔ ظاہر ہے کہ شادی کے موخر ہونے سے انسانی ضروریات ختم نہیں ہوجاتیں۔ چنانچہ جب جائز راستہ بند ہوا تو ناجائز راستے اپنی جگہ بناتے چلے گئے۔ جو اخلاقی رکاوٹ لوگوں کے ذہنوں میں تھی وہ اول تو مذہب کے خاتمے کے ساتھ بہت کم ہوگئی اور رہی سہی کسر بعض مغربی فلسفیوں، دانشوروں اور محققین کے افکار نے پوری کردی جنھوں نے شادی کے بندھن سے باہر مرد و زن کے تعلق کی ہر پہلو سے توجیہہ کر دی۔
صنعتی معاشرے میں پہلی دفعہ خواتین ہر میدان میں مکمل طور پر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگیں۔ زمانہ قدیم کے برعکس جبکہ ایک مرد کا واسطہ چند قریبی خواتین سے پڑتا تھا، صنعتی دور میں مرد و زن کا عمومی اختلاط عام ہوگیا۔ میڈیا کے ظہورنے صورتحال کو اور گھمبیر کیا۔ اس نے ایک طرف خواتین کے حسن اور جسمانی نمائش کو عام کیا تو دوسری طرف زنا کے بارے میں جو عمومی حساسیت انسانی معاشروں میں عام طورپر پائی جاتی تھی اسے ختم کر دیا۔ اب دنیا بھر کی فلموں اور ڈراموں میں نکاح کے رشتے سے باہر مرد و زن کا جنسی اختلاط، عریانی اور فحش مناظرعمومی بات ہیں۔ اس کے ساتھ فیشن انڈسٹری نے عریانی کو ایک قدر بنا دیا۔
انفارمشین ایج آئی تو رہی سہی کسر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پوری کر دی۔ ان کے ذریعے سے عریانی اور فواحش تک رسائی جتنی آسان آج ہے، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آج ہم اسی دور میں زندہ ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے کوئی گہرا تجزیہ ہے نہ دین اسلامی کا گہرا مطالعہ ہے۔ خواتین کو مکمل طور پر ڈھانپ کر رکھنا اور مرد و زن کے دائرہ کار کی مکمل علیحدگی اب ہر گزرتے دن کے ساتھ ماضی کا قصہ بنتی چلی جارہی ہے۔ احیائے اسلام کی تحریکیں اپنا عروج دیکھنے کے بعد زوال کا شکار ہیں۔ ان کے لیے حالات نہ سیاسی طور پر سازگار رہے نہ عملی طور پر سماج میں ان افکار کے نفوذ کی جگہ بچی ہے اور نہ فکری طور پر ہی ان میں اتنی جان ہے کہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ کرسکیں۔
اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کی واحد طاقت قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید عالم کے پروردگار کا کلام ہے۔ یہ ہر افراط و تفریط سے پاک ہے۔ یہ مسئلہ کو جڑ سے پکڑتا ہے‘خرابی کو بنیاد سے اکھاڑتا ہے۔ برائی کو ہر اس پہلو سے روکتا ہے جہاں سے وہ انسان کے ظاہر و باطن میں داخل ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید بدکاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دو نکاتی لائحہ عمل دیتا ہے۔
پہلا یہ کہ انسانوں کے سامنے پاکیزگی نفس کو سب سے بڑا ہدف بنا کر پیش کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ جنسی بے راہ روی اس پاکیزگی کو آلودہ کرنے کے تین بنیادی اسباب میں سے ایک ہے۔ زنا تین بنیادی جرائم میں سے ایک ہے جس کو مستقل اختیار کرنے کی سزا قرآن مجید میں ابدی جہنم بیان ہوئی ہے۔
قرآن مجید کا اصل زور لوگوں میں ایمان کی کیفیات کو راسخ کرنا ہے۔ یہ ایمان انسان میں اللہ تعالیٰ کی مستقل نگرانی کا احساس زندہ رکھتا ہے اور اس جنت کا یقین عطا کرتا ہے جہاں انسان کی ہر خواہش کی تکمیل کر دی جائے گی۔ یوں پاکیزگی کا احساس، خوف و طمع کے انسانی جذبات سے مہمیز پاکر زندگی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔
قرآن مجید کے لائحہ عمل کا دوسرا پہلو معاشرتی سطح پر دو طرح سے زنا کا سدباب ہے۔ ایک یہ کہ نکاح کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کیا جائے اور اس کی اہمیت کو پوری طرح نمایاں کیا جائے تاکہ معاشرے میں کوئی شخص غیر شادی شدہ نہ رہے۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید میں مرد و زن کے اختلاط کے موقع پر وہ فطری احکام دیے ہیں جو ہر طرح کے افراط و تفریط سے پاک ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے جو انتہائی نوعیت کے مطالبات سامنے آتے ہیں، سماج کی اکثریت ان کو اپنے لیے ناقابل عمل سمجھ کر چھوڑ دیتی ہے۔ جبکہ قرآن مجید اصل برائی یعنی زنا کو پوری قوت کے ساتھ واضح کرنے کے بعد اس معاملے میں صرف اتنے ہی احکام دیتا ہے جن کا پورا کرنا ہر شخص کے لیے بہت آسان ہے اور یہ انسان کے قلب و نظر کو پاکیزہ رکھنے کے لیے بہت ہیں۔
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن مجید کے احکام کو پوری قوت سے لوگوں کے سامنے لایا جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ ان کا پورا کرنا ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ اس کے برعکس غیر فطری پابندیوں کو دین بنا کر پیش کرنا کبھی زنا اور بدکاری کا راستہ نہیں روک سکتا۔ یہ کچھ لوگوں کو معاشرے سے الگ ہوکر زندگی گزارنے پر آمادہ ضرور کرسکتا ہے، مجموعی طور پر معاشرتی رویوں کو نہیں بدل سکتا۔