اولاد پر سختی کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیئے ایک سبق آموز واقعہ ایک پتھر دل بیٹے نے اپنے والدین کو خون کے آنسو رُلانے پر مجبور کردیا تھا۔
شام کا وقت تھا کہ ایڈیشنل IG کراچی کا فون آیا کہ ’’نیاز میں نے آپ کے موبائل پر اپنے ایک ڈاکٹر دوست کا نمبر میسج کر دیا ہے، اور مزید کہا کہ آپ نے کل دوپہر ڈاکٹرصاحب کے کلینک کے نمبر پر رابطہ کر کے اُن سے ملنا ہے ایڈیشنل IG صاحب نے سختی سے تاکید کی کہ ڈاکٹر صاحب سے موبائل فون پر رابطہ نہیں کرنا ہے‘‘-
ایڈیشنل IG صاحب کی طرف سے اتنی احتیاط میرے سمجھ سے بالا تر تھی -دوسرے دن میں نے کلینک کے نمبر پر ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کرکے دوپہر میں اُن کے پاس چلا گیا، ڈاکٹر صاحب کا نمائندہ گیٹ پر میرا انتظار کر رہا تھا وہ مجھے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیا-ڈاکٹر صاحب نے میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنے کمرے کو اندر سے لاک کردیا، ڈاکٹر صاحب بہت ڈرے ہوئے اور خوفزدہ لگ رہے تھے- ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ تین سال پہلے اُن کو اپنی کار کیلئے ڈرائیور رکھنے کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے اخبار میں اشتہار دے کر کچھ ڈرائیوروں کے انٹرویو کرکے ایک ڈرائیور رکھ لیا- ڈرائیور بنگلے میں سرونٹ کواٹر میں اکیلا رہتا تھا-ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مجھے شک ہے کہ ڈرائیور غیر مُلکی ایجنٹ ہے اور وجہ یہ بتائی کہ اُن کے گھر میں ڈان اخبار آتا ہے اور کچھ عرصے سے وہ محسوس کر رہے تھے کہ اخبار پہلے پڑھنے کے بعد اندر گھر میں بھیجا جاتا ہے- ڈاکٹر صاحب نے مزید چیک کرنے کیلئے اپنے گھر میں ایک اردو اخبار منگانا شروع کردیا مگر حیران کن بات یہ تھی کہ اردو اخبار ویسا کا ویسا گھر میں جاتا تھاُاور کوئی انگریزی اخبار پورا پڑھ لیتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ایک دن ڈرائیور کی غیر موجودگی میں اُس نے ڈرائیور کا کمرہ چیک کیا تو وہاں کچھ انگریزی کتابیں پڑی تھیں -میں ڈاکٹر صاحب کے خوف زدہ ہونے کی وجہ سے پریشان تھا، میں نے اُن سے سوال کیا آپ اتنے پریشان اور خوفزدہ کیوں ہیں ؟ ڈاکٹر صاحب اور میں آمنے سامنے بیٹھے تھے ڈاکٹر نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ تے ہوئے ہوئے بتایا کہ اُن کی بیوی غیر ملکی انگریز خاتون ہے-ڈاکٹر صاحب نے شرماتے ہوئے کہا کہ ’’کھوسہ صاحب میں آپ کو کیا بتائوں کہ گھر میں صرف تین آدمیوں کی عزت ہے، ایک میری بیوی، دوسرا ڈرائیور اور تیسرا میری بیوی کا کتا - مزید کہا کہ گھر میں ان تینوں کی Care کی جاتی ہے باقی میری گھر میں میرا کوئی نہیں سُنتا اور نہ ہی میراکوئی خیال رکھتا ہے- بس گھر میں بیوی اور ڈرائیور کی حکمرانی ہے- ڈاکٹر صاحب کے خوفزدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اگر اُس کی بیوی کو پتا چل گیا کہ اُس نے ڈرائیور کہ شکایت کی ہے تو وہ اُس کی زندگی کا آخری دن ہوگا-
میں ساری بات سمجھ چُکا تھا،ڈاکٹر صاحب گھر میں بہت مشکل میں تھے اور یہ پولیس کیس نہیں تھا اس لیئے کچھ کرنے سے پہلے ایڈیشنل IG سے بات کرنا ضروری تھا-
اس لیئے میں دوسرے دن گھر سے نکلتے ہی CPO میں ایڈیشنل IG صاحب سے ملنے چلا گیا اور اُن کو ساری حقیقت بتاکر کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھریلو حالات اُس کے کنٹرول سے باہر ہیں اور دوسرا یہ کہ ڈاکٹر صاحب ایک شریف اور بزدل آدمی ہے اور تیسرا یہ کہ یہ پولیس کیس نہیں ہے مگر ڈرائیور کا انگریزی اخبار اور انگریزی کتابیں پڑھنا حیرت انگیز ہے اور ڈرائیور کو چیک کرنا لازمی ہے۔ ایڈیشنل IG صاحب نے کہا کہ آپ ڈرائیور کو Pick کرواکر انٹروگیٹ کروالیں، میں نے اُن کو بتایا ڈاکٹر صاحب اپنی بیوی کی وجہ سے ڈرائیور کو Pick کروانے میں کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں اس لیئے ڈرائیور کو غیر روایتی طور پر Pick کرانا ہوگا۔میں نے ایڈیشنل IG صاحب کو کہا کہ وہ ڈاکٹر سے بات کرکے ڈرائیور کی تصویر اور کار کے کوائف کے ساتھ کار کی تصویر arrange کروادیں۔ دو تین دن بعد ڈاکٹر صاحب ڈرائیور اور کار کی تصویریں دینے میرے دفتر آگیا میں نے انسپیکٹر سجاد علی کو بُلاکر تصویریں اُس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈرائیور کو Pick کرنا ہے جب یہ اکیلا گھر سے نکلے اور ڈاکٹر صاحب کو کہا آپ میرے افسر کو اپنا گھر دکھا دیں باقی ڈرائیور کو ہم Pick کرا لیں گے،
انسپیکٹر سجاد علی نے دو ہفتے کی نگرانی کے بعد ڈرائیور کو Pick کر لیا اور ڈاکٹر کی کار طارق روڈ پر پارک کرکے SHO فیروز آباد کو اطلاع کردی-میں نے SHO فیروز آباد کو دفتر بلواکر بتادیا کہ ڈرائیور ہمارے پاس ہے کار آپ اپنے تھانے لے جائیں اور SHO کے سامنے Ssp East کو بھی فون کرکے اعتماد میں لے لیا۔ میری پوسٹنگ CIA میں تھی تھانے کا SHO ضلعی Ssp کے کمانڈ میں ہوتا ہے اسلئے ضلعی Ssp سے بات کرنا ضروری تھا۔ یہ احتیاطی تدابیر اسلئے کی جارہی تہیں کہ ڈاکٹر کی انگریز بیوی نے ڈرائیور کی گمشُدگی پر شور کرنا تھا۔میں نے ایڈیشنل IG صاحب کو بھی بتادیا کہ ڈرائیور Pick کر لیا گیا ہے -انسپیکٹر سجاد علی نے ڈرائیور سے پوچھ گچھ شروع کی مگر وہ شرافت کی زبان سمجھنے کیلئے تیار نہیں تھا اور اپنی شناخت چُھپا رہا تھا-اسی طرح ڈرائیور چھترول کھاتا رہا اور روز اپنا نام اور پنجاب کا کوئی غلط ایڈریس بتاتا رہا اور انسپیکٹرسجاد بتائے ہوئے ایڈریس والے تھانے کو پنجاب فون کرکے تصدیق کرتے اور ایڈریس غلط ثابت ہونے پر ڈرائیور کو دوبارہ چھترول کا سامنا کرنا پڑتا-دوسری طرف ڈاکٹر کی بیوی نے IG سندھ اور ایڈیشنل IG صاحب کو تنگ کیا ہوا تھا کہ ڈرائیور کہاں غائب ہوگیا ؟ ایڈیشنل IG صاحب روزانہ تین چار مرتبہ فون کرکے پوچھتے کہ نیاز کیا ہوا ؟ مگر ڈرائیور 25 سال کا جوان لڑکا تھا وہ کسی طرح Break نہیں ہو رہا تھا۔آخر ایک ہفتے تک پولیس کی مار کھانے کے بعد ڈرائیور لڑکا راستے پر آگیا تھا اور اُس دن تقریباً دوپہر تین بجے میں جب دفتر پہنچا تو انسپیکٹر سجاد علی اسے میرے پاس لے آیا اور بتایا کہ سر ڈرائیور لڑکا اب سچ بولنے لگا ہے آپ ذرا اس کو خود سُن لیں۔
لڑکے نے بتایا کہ وہ ایک بریگیڈیئر کا بیٹا ہے اور آرمی میں سیکنڈ لیفٹینٹ تھا اور PMA کاکول میں زیر تربیت تھا، کاکول میں دوران تربیت اُس کی کارکردگی اچھی نہیں تھی، کاکول کے کمانڈنٹ نے میرے والد کو شکایتی خط لکھا کہ آپ کا بیٹا تربیت میں دلچسپی نہیں رکھتا، میرے والد اس وقت کرنل تھے وہ بہت غصہ ہوئے اور مجھے سختی سے کہا کہ ’’اگر کاکول اکیڈمی میں تم فیل ہوگئے تو تم میرے بیٹے نہیں ہو اور واپس گھر نہ آنا‘‘-لڑکا اکیڈمی کے امتحان میں فیل ہوگیا اور سامان کے ساتھ اُسے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن چھوڑا گیا، لڑکے نے سامان ریلوے اسٹیشن پر چھوڑا اور بجائے گھر جانے کے کراچی آگیا-کراچی میں کچھ سالوں تک ادھر اُدھر نوکری کرتا رہا پچھلے 3 سالوں سے ڈاکٹر صاحب کے پاس تھا-میں نے لڑکے سے پوچھا کہ کتنے سالوں سے گھر نہیں گئے ؟ لڑکے نے بتایا کہ پچھلے آٹھ سالوں سے گھر نہیں گیا، میرے پوچھنے پر بتایا وہ گھر والوں سے اور اپنے کسی جاننے والے سے رابطے میں نہیں ہے-میں نے پوچھا کہ آپ کے والد صاحب آجکل کہاں ہیں ؟لڑکے نے بتایا کہ وہ کرنل سے بریگیڈیئر پروموٹ ہو گئے ہیں اور آجکل مُلتان میں ہیں-
میں نے اپنے آپریٹر کو کہا کہ کراچی ملیر کینٹ سے ملتان کینٹ کا نمبر لے کر میری” فلاں‘‘ صاحب سے بات کرادیں -کچھ ہی دیر میں آپریٹر نے بتایا کہ بریگیڈیئر صاحب دفتر سے گھر چلے گئے ہیں اور گھر کے نمبر پر اُن کا نوکر لائن پر ہے- دوسری طرف فون پر ایک بچہ بول رہا تھا، میں نے اُسے کہا کہ بیٹا میری بریگیڈیئر صاحب سے بات کرا دیں بچے نے بتایا کہ آج رات شب برات ہے اور صاحب ساری رات جاگتے ہیں اس لیئے وہ آرام کر رہے ہیں- میں نے بچے سے کہا کہ میری بیگم صاحبہ سے بات کرادیں- بچہ مجھے فون ہولڈ کرواکر چلا گیا
تھوڑی دیر بعد خاتون نے فون پر مجھے اسلام علیکُم کہا میں نے سلام کا جواب دیکر اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں CIA کراچی سے بول رہا ہوں اور لڑکے کا نام لیکر پوچھا کہ کیا وہ آپ کا بیٹا ہے ؟ لڑکے کا نام سُنتے ہی خاتون دھاڑیں مار کر رونا شروع ہوگئی اور اتنی دیر میں ایک مرد نے خاتون سے فون لیکر رعب دار اور غصے سے مجھ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ میں نے اُن کو اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ ہم نے ایک لڑکا پکڑا ہے اور وہ آپ کا نام لے رہا ہے کہ آپ کا بیٹا ہے دوسری طرف فون پر بریگیڈیئر صاحب نے روتے ہوے بمشکل کہا کہ میرے بیٹے کو کیا ہوا ہے ؟ وہ خیریت سے تو ہے نا ؟ -میں نے فون پر کچھ توقف کیا اور بریگیڈیئر صاحب کے نارمل ہوتے ہی ان کو بتایا کہ لڑکا ہماری تحویل میں ہے بریگیڈیئر صاحب نے مجھے کہا کہ اگر مُمکن ہے تو لڑکے کی مجھ سے بات کرا دیں لڑکا میرے سامنے کھڑا تھا میں نے فون اُس کو دے دیا فون پر ہیلو کرتے ہی لڑکا بچوں کی طرح رونے لگا اور فون مجھے واپس دے دیا
بریگیڈیئر صاحب نے مجھے کہا کہ مُلتان سے تو ابھی شاید کراچی کی فلائیٹ نہ ملے ہم ابھی اسلام آباد یا لاہور کے لیئے نکلتے ہیں کل صبح پہلی فلائیٹ میں ہم کراچی آجائیں گے۔ میں نے اُن کو اپنے دفتر کا پتہ سمجھا دیا۔ تھوری دیر بعد بریگیڈیئر صاحب کی بیگم صاحبہ کا دوبارہ فون آیا اور روتے ہوئے تسلی اور یقین کرنا چاہ رہی تھیں کہ واقعی اُن کا بیٹا ہمارے پاس ہے اور مجھے التجا آمیز لہجے میں کہا کہ بھائی آپ میری بچے کا خیال رکھنا وہ آپ کی تحویل سے کہیں چلا نہ جائے-میں نے انسپیکٹر سجاد کا بُلاکر کہا کہ لاک اپ سے بلیڈ اور شیشے کے برتن وغیرہ ہٹا دے اور مزید آدمی لڑکے کی نگرانی کیلئے لگا دے اور اُس کو حکم دیا کہ لڑکے کے لیئے نئے کپڑے اور Shave وغیرہ کرا دے کیوں کہ پولیس تحویل میں لڑکے کی حالت خراب ہو رہی تھی ۔ خاتون تقریباً ہر گھنٹے بعد فون کرکے تسلی کرتی کہ لڑکا کہیں چلا تو نہیں گیا ؟؟ رات کو 9 بجے بعد اُس کے فون آنا بند ہوگئے شاید بریگیڈیئر صاحب نے منع کردیا ہوگا کہ میں بُرا نہ مان جائوں-
دوسرے دن صبح میٹنگ کے سلسلے میں CPO چلا گیا اور 2 بجے دوپہر دفتر پہنچا تو میرے اردلی پرویز کیانی نے جیپ کا دروازہ کھولتے ہی بتایا کہ سر آپ سے ملنے کے لیئے مُلتان سے ایک فوج کے افسر اور اُن کی بیگم صاحبہ صبح سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں- میں جیسے دفتر میں داخل ہوا بریگیڈیئر صاحب اور اُن کی بیگم کھڑے ہوگئے اور میں نے پہلے خاتون کو سلام کیا اور بریگیڈیئر صاحب سے جیسے ہاتھ ملایا تو وہ باوجود کوشش کے اپنے آنسو نہ روک سکے۔ میں نے اُن سے پوچھا کیا آپ کی لڑکے سے مُلاقات ہوگئی ہے ؟ بریگیڈیئر صاحب نے جواب دیا کہ نہیں ہم آپ کا انتظار کر رہے تھے، میں نے خاتون کو مخاطب ہو کر کہا کہ بہن آپ مجھے فون کرکے اطلاع کرتیں کہ آپ میرے دفتر آگئے ہو خاتون اپنے آنسو پوچھنے لگی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اردلی پرویز کیانی کو کہا کہ انسپیکٹرسجاد علی کو کہے کہ وہ لڑکے کو لے آئے۔خاتون نے پوچھا کہ بھائی میرا بیٹا آپ ہی کے پاس ہے نا۔ میں نے جواب دیا بہن بس دو منٹ میں وہ آرہا ہے دونوں ماں باپ کی نظریں دفتر کی دروازے پر تھیں اتنے میں کمرے میں سجاد علی داخل ہوا اُس کے پیچھے لڑکا داخل ہوا لڑکے کے اندر داخل ہوتے ہی خاتون اور بریگیڈیئر صاحب دھاڑیں مارتے ہوئے
لڑکے سے چمٹ گئے اسی اثنا میں میں دفتر سے باہر نکل گیا اور سجاد علی بھی میرے پیچھے باہر آگیا- اس لیئے کہ ماں باپ کو اپنا غبار نکالنے کیلئے ٹائم مل سکے۔تھوڑی دیر بعد جب کمرے میں خاموشی ہو ئی تو میں اندر چلا گیا لڑکے کی والدہ اور والد کے آنسو تھے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ میرے ایک سوال کے جواب میں بریگیڈ یئر صاحب نے بتایا کہ گذشتہ آٹھ سالوں میں ہم نے سُکھ کا سانس نہیں لیا، کوئی پیر فقیر نہیں چھوڑا بس اللہ پاک کو ہمارے حال پر رحم آگیا اور کل آپ کا فون آگیا-
میں نے اُسی وقت ایڈیشنل IG صاحب کو فون کرکے ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ میں لڑکے کو بریگیڈیئر صاحب کے حوالے کر رہا ہوں-ایڈیشنل IG صاحب نے کہا کہ نیاز ذرا رُک جائو ڈاکٹر کی بیوی ہمارا خون پی گئی ہے، میں اُس کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں لڑکے کو ماں باپ کے حوالگی کا پراسس اُس کے سامنے کر الیں -تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب کی بیوی بھی میرے دفتر آگئی۔ جب اُس کو صورت حال کا پتہ چلا تو وہ دو لاکھ کا لڑکے کی طرف قرضہ نکال کر بیٹھ گئی۔ بریگیڈیئر صاحب ادائیگی کے لیئے تیار ہوگئے خاتون نے یو ٹرن لیا اور کہنے لگی کہ میں پیسے نہیں لوں گی لڑکا نوکری کرکے قرضہ اتارے ۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب کو کہا آپ فون کرکے واپسی کا ٹکٹ کرالیں ڈاکٹر کی بیوی کی کون سُنتا ہے اگر اس نے قرضہ وصول کرنا ہے تو سول کورٹ میں کیس کرلے۔
بریگیڈیئر صاحب کی بیوی نے جاتے ہوئے آنسو پونچھتے ہوئے مجھ سے وعدہ لیا کہ بھائی آپ نے میرے بیٹے کی شادی میں ضرور شرکت کرنی ہے-