میں کالج اسٹوڈنٹ تھی شاید سولہ یا سترہ سال کی عمر تھی (اب تینتالیس سال کی ہوں) تب پہلی بار میں گھر پہ بیہوش ہو گئی۔
اور پھر ہر مہینے ڈیڑھ مہینے بعد مسلسل بیہوش ہونے لگی۔میں سو کر اٹھتی تھی اور تھوڑی دیر بعد بیہوش ہوجاتی تھی۔ کبھی باورچی خانے میں کبھی غسل خانے میں کبھی لیٹرین میں ۔ (تب اٹیچ باتھ روم کا کلچر عام نہ تھا۔ غسل خانہ اور لیٹرین الگ ہی ہوتے تھے)بس دورہ سوکر اٹھنے کے بعد ہی پڑتاتھا۔ میرے والدین کو علم نہ تھا کہ مجھے کیا ہورہا ہے وہ گھبراگئے انہوں مجھےاس وقت کے اچھے سے اچھے ڈاکٹرز کو دکھایا۔ جب تک مجھے لے کر ڈاکٹرز کے پاس پہنچتے تھے میں تب تک کافی ہوش میں آچکی ہوتی تھی۔
کسی ڈاکٹر نے کہا کمزوری ہے۔ کسی نے کچھ کس نے کچھ کہا۔۔ خوب ڈرپیں لگیں۔ انجیکشن لگے۔دوائیں کھائیں ۔ سب بے سود۔ایک ڈاکٹر نے میرے ابو سے کہا ۔ ”آپ کی بیٹی ڈرامہ کرتی ہے اس کی شادی کردیں“ ہم لوگ پیر فقیر تعویذ گنڈے نہیں کرواتے۔ مگر تب میری حالت کے پیش نظر کسی نے ایک دو پیر فقیر بتائے میرے امی ابومجھے وہاں بھی لیکر گئے ۔ایک باباجی نے کہا کہ اس پر رشتے داروں نے کالا جادو کروایا ہے۔اور خیر سے میرےامی ابو کی آنکھوں کے سامنے میرے پیٹ سے تعویز نکال کر بھی دکھادیے۔(شعبدے بازی )
میں نے باباجی کا دیا تعویز وغیرہ نہیں پہنا ۔ بس دم کرواکر واپس آگئے۔مگر میری حالت جوں کی توں رہی- کبھی مہینے بعد کبھی پندرہ دن بعد میں بیہوش ہوجاتی۔ اور میں کس قدر کرب اور اذیت میں مبتلا تھی یہ یہاں نہیں بتاسکتی کہ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی جسے کچھ دن پہلے تک زندگی بیحد حسین دکھائی دیتی تھی اسے اچانک ایسی عجیب بیماری ہوجائے کہ جس کا علاج بھی نہ ہوپارہا ہو تب اس کے دل پہ کیا بیتتی ہوگی۔مجھے علم ہی نہ ہوتا تھا کہ مجھے کیا ہوا ہے- ہوش میں آنے کے بعد میرے گھر والے مجھے کچھ نہیں بتاتے تھے بس اتنا ہی کہتے تھے کہ میں بیہوش ہوگئی تھی۔ پھر کسی نے میرے بھائی کو دماغ کے ڈاکٹر کے بارے میں بتایا۔حیدرآباد کے وہ ڈاکٹر بہت قابل تھے اور کافی عمر رسیدہ بھی۔انہوں نے سب سے پہلے مجھے بہت تسلی دی اور یقین دلایا کہ میں بالکل ٹھیک ہوجاؤنگی۔ میرے دماغ کی ایک نس چند سیکنڈ کےلیے بند ہوجاتی ہے میں اس لیے بیہوش ہوجاتی ہوں۔یہاں ڈاکٹر صاحب کی میرے والدین سے کہی باتیں لکھ رہی ہوں جو آج سے تقریباً بائیس پچیس سال پہلے ڈاکٹر نے کہی تھیں اب تو جدید دور ہے جدید علاج بھی آگئے ہونگے۔
جنہیں کسی بھی مرگی کے مریض کا علاج کروانا ہے وہ ڈاکٹر کی یہ باتیں ذہن نشین کرلیں۔ ”یہ بیماری ایک سال میں بھی ختم ہوسکتی ہے۔ اور دو سال پانچ سال یادس سال بھی لگ سکتے ہیں۔دوران علاج گھبرانا نہیں ہے۔ جو دوائیں میں آپ کو دوں گا وہ آپ اپنی بیٹی کو مستقل کھلائیں گے ایک وقت کا بھی ناغہ نہ ہو۔دوران علاج بیہوشی کے دوروں میں شدت بھی آسکتی ہے۔ ابھی آپ کی بیٹی مہینے پندرہ دن بعد بیہوش ہورہی ہے دوران علاج ہوسکتا ہے کہ یہ ہر دو دن بعد بیہوش ہو یا ایک ہی دن میں دو بار یا تین بار بھی بیہوش ہوجائے۔بیہوشی کے دوروں میں شدت سے گھبرا کر علاج بند نہیں کرنا۔ یہ نہ سوچیے گا کہ یہ ڈاکٹر ٹھیک علاج نہیں کررہے تو ڈاکٹر بدل لیتے ہیں۔دوران علاج دوروں میں شدت بھی علاج کا ہی حصہ ہے۔لیکن اس سب کے باوجود آپ کو دوا کا ناغہ نہیں کرنا۔
آپ کی بیٹی جب بیہوش ہو تب گھبرا کر میرے کلینک نہیں آنا۔ ایک ڈائری بنالیں اور اس ڈائری میں دورے کاوقت اور تاریخ لکھ کر اپنے پاس رکھیں۔اور پندرہ دن میں جتنی بار بیہوش ہو وہ سب تفصیل اور وقت وہ اس ڈائری میں لکھے ہوںاور میرے کلینک پندرہ دن بعد اس ڈائری کو لیکر آئیں“
اور ڈاکٹر کی اس تفصیلی گفتگو کے بعد یوں میرا علاج شروع ہوا۔ علاج کے آغاز میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے شاید صبح شام کھانے کی گولیاں دی تھیں۔ (اب یاد نہیں کہ دو وقت کی دوا تھی یا تین وقت کی).علاج کے دوران ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق میرے دوروں میں ایک دو بار شدت بھی آئی یعنی میں ایک دن میں دو بار بھی بیہوش ہوئی مگر میرے امی ابو نے ڈاکٹر کی کہی باتوں پہ عمل کیا۔ میری بیماری کی شدت سے ابو نہیں گھبرائے نہ ہی ڈاکٹر تبدیل کیا۔مجھے ایک وقت کی دوا کی بھی ناغہ نہیں کروایا۔شروع میں دو چار بار ڈاکٹر صاحب نے پندرہ دن بعد بلایا۔ اس کے بعد وہ ایک ماہ بعد بلاتے تھے۔۔ڈاکٹر صاحب غصے کے تیز تھے مگر اپنے پیشے کے ساتھ دیانتدار تھے۔نہ تو رقم بنانے کے چکر میں انہوں نے میرے دماغ کے ٹیسٹ کروائے اور نہ ہی بار بار دوائیں تبدیل کیں اور نہ ہی ہمیں بار بار چیک اپ کے لیے بلواکر زیادہ پریشان کیا۔ کہ میرے والدین گھبرا کر ڈاکٹر تبدیل کرتے فیس بھی ان کی بہت زیادہ نہ تھی۔بس میری ڈائری میں دوروں کا وقت دیکھ کر دوروں کی شدت چیک کرکے دوا میں کمی بیشی کردیتے۔ ایک ڈیڑھ سال بعد جب دوروں نے کافی حد تک کمی آگئ تھی یعنی دوروں کا وقفہ بڑھ گیا۔ تین مہینے یا چار مہینے کا وقفہ آگیا۔ تو انہوں نے میری دوا تبدیل کرکے مجھے صرف ایک گولی کھانے کی کہا۔ (یعنی کم پاور کی دوا کردی)اور یوں تقریباً دو سال میں میری بیماری مکمل ختم ہوگئی ۔ بیماری ختم ہونے کے بعد بھی شاید ایک سال تک میری دوا چلی یعنی مسلسل تین سال دوا کھائی۔ پھر ڈاکٹر نے میری ٹیبلیٹ جس کانام ایپی وال تھا وہ بھی بند کردی۔یوں میں مکمل صحتیاب ہوگئی۔مگر علاج ختم ہونے کے دو سال بعد میں ایک بار پھر بیہوش ہوئی۔ہم دوبارہ ڈاکٹرکے پاس گئے ڈائری وغیرہ تو گم ہوچکی تھی تب تک۔ ڈاکٹر صاحب کو تمام تفصیل دوبارہ یاد کروائیں۔
ڈاکٹر نے کہا آپ کا مکمل علاج ہوچکا ہے اسلیے گھبرانے کی بات نہیں۔ آپ ایپی وال ٹیبلیٹ ہفتے میں ایک گولی دوبارہ کھانا شروع کردیں۔بس آج سے شاید اٹھارہ سال پہلے میں آخری بار ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔پھر ایپی وال ٹیبلیٹ احتیاطاً کبھی ہفتے میں کبھی پندرہ بیس دن بعد کھالیتی ہوں۔
کیونکہ مجھے اندر سے ڈر ہے کہ کہیں دوبارہ بیہوش نہ ہوجاؤں۔
میرا اس کہانی کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بہنیں جو خود یا ان کے بچے ان کے کزنز یا بہن بھائ یا کوئی قریبی عزیز یا پڑوسی اگر اس بیماری میں مبتلا ہیں تو اس بیماری کا علاج کروائیں۔اور اگر مستقل دوا کھانی پڑتی ہے تب بھی دوا کھائیں۔میرا تو سالوں پہلے علاج ہوا تھا تب تو اتنا عام لوگوں کواس بیماری کا علم بھی نہ تھا آج کے جدید دور میں تو اور بھی بہتر اور جلد علاج ہوسکے گا۔ہمارے جاننے والوں کی پڑوسن کا تیرہ یا پندرہ سال کابیٹا تھاوہ بیچارہ بھی بیہوش ہوجاتا تھا اس کے گھر والے کہتے کہ اس پر فلاں فلاں بابا آتے ہیں۔ میری امی نے انہیں سمجھایا کہ ہم نے اپنی بیٹی کا علاج کروایا ہے آپ بھی کروالیجیے۔اور ڈاکٹر کا ایڈریس بتایا۔ وہ لوگ اپنے بیٹے کوڈاکٹر کو دکھا تو لائے مگر اسے دوا بروقت نہیں کھلاتی تھیں۔کہتی تھیں اتنا بڑا بیٹا ہے کیا گود میں لیکر دوا کھلاؤں۔
گولیاں کھاتا ہی نہیں کبھی کھاتا ہے کبھی گھر پر نہیں ہوتا میں بھی بھول جاتی ہوں۔ ایک ہفتے کی دوا کھانے میں بیس دن لگادیتا ہے
جب مریض مستقل دوا نہیں کھارہا تو مریض ٹھیک کیسے ہوگا بتائیے-
اس بیماری میں مبتلا انسان کو جن بھوت یا اوپری اثرات ہم اپنے دل کی تسلی کو کہتے ہیں۔ کہ اتنی خطرناک اور گندی بیماری ہمارے پیارے کو ہو یہ ہمارا دل نہیں مانتا۔ بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا اس بیماری کا۔ جیسا کہ میرے والدین کو علم نہیں تھا اور وہ مجھے جگہ جگہ ڈاکٹرز کو دکھاتے رہے۔
مرگی وہ بیماری ہے جس کو لطیفوں میں استعمال کیا جاتا ہے مذاق اڑایا جاتا ہے کہ جی اسے جوتا سنگھاؤہوش آجائے گا۔کچھ لوگ اس بیماری کو اوپری اثرات یا جن بھوتوں کی کارستانی بھی سمجھتے ہیں۔جسے یہ بیماری ہوتی ہے اس کے درد کا احساس نہیں کیا جاتا۔اگر خدانخواستہ گھر میں کسی کو مرگی کی بیماری ہوجائے تو وہ پوری فیملی شدید ترین کرب و اذیت سے گزرتی ہے۔ اگر گھر کی لڑکی کو یہ بیماری ہوجائے توکوشش کی جاتی ہے کہ یہ بات کسی باہر والے کو پتہ نہ چلے کہ بیٹی کا معاملہ ہے۔پیروں فقیروں کے چکر بھی لگتے ہیں کیونکہ مرگی کے وقت کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے کہ لگتا ہے کہ اوپری اثرات ہوگئے-منہ سے تھوک آتا ہے۔ ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہوجاتے ہیں۔بندہ کھڑے سے ایکدم سر کے بل گرتا ہے تو کبھی زخمی بھی شدید ہوجاتا ہے۔مرگی کے دورے سے بندے کو کچھ نہیں ہوتا مگر گرنے سے جو چوٹ لگتی ہے جو تکلیف ہوتی ہے وہ خطرناک ہوتی ہے اور گرنا ،بار بار گرنا اور مسلسل گرنا جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔نارمل ڈاکٹرز سمجھ نہیں پاتے اس مرض کا علاج دماغ کے ڈاکٹر ہی کرسکتے ہیں۔
مریض دورے پڑنے کے کچھ دیر بعد نارمل ہوجاتا ہے ۔جب تک ڈاکٹر کے پاس مریض کو لیکر پہنچتے ہیں مریض کافی حد تک ٹھیک ہوچکا ہوتا ہے۔اس مرض کی بہت سی اقسام ہیں یعنی مختلف مریضوں کی حالت دورے کے وقت الگ الگ ہوسکتی ہے-اس بیماری کے متعلق انٹرنیٹ پر ہر قسم کی معلومات موجود ہیں۔ یوٹیوب پر بھی ڈاکٹرز کی اس بیماری کے متعلق تفصیلی وڈیوز موجود ہیں۔