کرایہ ادا نہ کرنے پر 94 سالہ شخص کو مالک مکان نے کرائے کے مکان سے باہر پھینک دیا۔ بوڑھے کے پاس ایک پرانا بستر، المونیم کے کچھ برتن، پلاسٹک کی بالٹی اور ایک مگ وغیرہ کے علاوہ شاید ہی کوئی سامان تھا۔ بوڑھے نے مالک سے درخواست کی کہ کرایہ ادا کرنے کے لیے اسے کچھ وقت دیا جائے۔ پڑوسیوں کو بھی بوڑھے پر ترس آیا اور انہوں نے مالک مکان کو کرایہ ادا کرنے کے لیے کچھ وقت دینے پر راضی کیا۔ مالک مکان نے ہچکچاتے ہوئے اسے کرایہ ادا کرنے کے لیے کچھ وقت دیا۔بوڑھا اپنا سامان اندر لے گیا۔ وہاں سے گزرنے والے ایک صحافی نے رک کر سارا منظر دیکھا۔ اس نے سوچا کہ اس معاملے کو اپنے اخبار میں شائع کرنا مفید ہوگا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک سرخی بھی سوچی، "ظالم مکان مالک نے پیسے کے لیے بوڑھے کو کرائے کے مکان سے نکال دیا۔" پھر اس نے بوڑھے کرایہ دار کی کچھ تصویریں لیں اور کرائے کے مکان کی کچھ تصویریں بھی لیں۔صحافی نے جا کر اپنے پریس مالک کو واقعہ کے بارے میں بتایا۔ پریس کے مالک نے تصویروں کو دیکھا اور چونک گیا۔ اس نے صحافی سے پوچھا ، کیا وہ بوڑھے کو جانتے ہیں؟ صحافی نے کہا کہ نہیں۔اگلے دن اخبار کے صفحہ اول پر بڑی خبر چھپی۔ عنوان تھا "گلزاری لال نندا، ہندستان کے سابق وزیر اعظم، ایک دکھی زندگی گزار رہے ہیں"۔ خبر میں مزید لکھا گیا کہ سابق وزیراعظم کس طرح کرایہ ادا کرنے سے قاصر رہے اور انہیں کیسے گھر سے نکال دیا گیا۔
تبصرہ کیا گیا کہ آج کل فریشرز بھی بہت پیسے کما لیتے ہیں۔ جب کہ ایک شخص جو دو بار سابق وزیر اعظم رہ چکا ہے اور طویل عرصے تک مرکزی وزیر بھی رہا ہے، اس کے پاس اپنا گھر بھی نہیں ہے۔دراصل گلزاری لال نندا کو روپے ملے۔ 500/- ماہانہ الاؤنس دستیاب تھا۔ لیکن اس نے یہ رقم یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ وہ آزادی پسندوں کے بھتے کے لیے نہیں لڑتے تھے بعد میں دوستوں نے اسے یہ کہہ کر قبول کرنے پر مجبور کیا کہ اس کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اس رقم سے وہ اپنا کرایہ ادا کر کے گزارہ کرتا تھا-
اگلے دن موجودہ وزیراعظم نے وزراء اور عہدیداروں کو گاڑیوں کے بیڑے کے ساتھ ان کے گھروں کو روانہ کیا۔ اتنی VIP گاڑیوں کا بیڑا دیکھ کر مالک مکان دنگ رہ گیا۔ تب ہی انہیں معلوم ہوا کہ ان کے کرایہ دار مسٹر گلزاری لال نندا ہندوستان کے سابق وزیر اعظم تھے۔ زمیندار فوراً گلزاری لال نندا کے قدموں میں جھک گیا۔عہدیداروں اور وی آئی پیز نے گلزاری لال نندا سے سرکاری رہائش اور دیگر سہولیات قبول کرنے کی درخواست کی جناب گلزاری لال نندا نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش قبول نہیں کی کہ اس بڑھاپے میں ایسی سہولتوں کا کیا فائدہ۔ اپنی آخری سانس تک وہ ایک عام شہری کی طرح ایک سچے گاندھیائی کے طور پر زندگی بسر کرتے رہے۔ 1997 میں حکومت نے انہیں بھارت رتن سے نوازا۔ذرا ان کی زندگی کا موجودہ دور کے سیاستدانوں سے موازنہ کریں۔