کل ایک دوست نے استفسار کیا کہ ہم مذہبی مواعظ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنتوں کا ذکر تو کثرت سے سنتے ہیں جو ’’رسومی‘‘ (ritualistic) ہیں، جیسے دائیں ہاتھ سے کھانا، مسواک اور خاص لباس پہننا وغیرہ، لیکن ایسی سنتوں کا ذکر عموماً‘نہیں سنتے جو کرداری (behavioral) ہیں۔ میں نے ان کو تو نہیں بتایا، لیکن دل میں سوچا کہ ہمیں وہی سنتیں بیان کرنا سوٹ کرتا ہے جو آسانی سے کر کے دکھا سکیں۔ جو کر کے دکھانی مشکل ہوں، وہ ہم بیان بھی نہیں کرتے۔
تو آئیے، کچھ کرداری سنتوں کی یاد تازہ کر لیتے ہیں۔ ممکن ہے، ان میں سے کچھ پر عمل کی توفیق بھی مل جائے۔ آمین
1۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ آپ بچوں کو سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے اور ان کے ساتھ بالکل بچوں جیسا بن کر کھیل اور ہنسی مزاح فرماتے تھے
2۔ آپ اپنی بیویوں کو یا خادموں کو نہ تو مارتے تھے اور نہ جھڑکتے تھے۔ فرماتے تھے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کا برتاؤ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو۔
3۔ آپ کبھی کسی کھانے کی چیز میں عیب نہیں نکالتے تھے۔ چیز پسند ہوتی تو کھا لیتے تھے، ورنہ خاموشی سے ہاتھ کھینچ لیتے تھے۔
4۔ آپ کسی کے ساتھ سخت کلامی یا بیہودہ گوئی نہیں فرماتے تھے۔ فرماتے تھے کہ جس کی بدکلامی کی وجہ سے لوگ اس سے گریز کریں، وہ اللہ کی نظر میں بدترین شخص ہے۔
5۔ قرض یا کسی چیز کی قیمت ادا کرتے ہوئے آپ واجب الادا رقم سے زیادہ ادا فرماتے تھے۔
6۔ آپ اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیتے تھے۔
7۔ مجلس میں لوگوں سے نمایاں ہو کر تشریف نہیں رکھتے تھے اور نہ اپنے آنے پر لوگوں کے کھڑا ہونے کو پسند فرماتے تھے۔
8۔ اگر مجلس میں بڑے اور چھوٹے دونوں موجود ہوں اور کوئی چیز تقسیم کرنے میں پہلا حق چھوٹوں کا بنتا ہو تو ان سے اجازت لیے بغیر بڑوں سے ابتدا نہیں فرماتے تھے۔
9۔ کوئی صاحب حق سخت کلامی کرتا تو اس پر بالکل برا نہیں مناتے تھے۔ فرماتے تھے کہ حقدار کو سخت بات کہنے کا حق ہوتا ہے۔
10۔ ہمیشہ مسکرا کر ملاقات فرماتے اور مخاطب کی طرف پوری طرح مڑ کر اور پوری توجہ سے گفتگو فرماتے تھے۔
11۔ کوئی بھی غریب یا بے حیثیت شخص آپ سے جب بھی اور مدینے کی جس گلی میں بھی روک کر بات کرنا چاہتا، آپ اس کی بات سنتے تھے اور کبھی خود اس سے رخصت نہیں چاہتے تھے، بلکہ جب وہ چاہتا، تبھی رخصت ہوتے تھے۔
12۔ خطبہ مختصر اور جامع دیتے تھے، دوران خطبہ میں ہاتھوں کو بہت زیادہ حرکت نہیں دیتے تھے اور دعا میں مسجع کلام اور پرتکلف انداز اختیار نہیں فرماتے تھے۔
13۔ اس کو سخت ناپسند فرماتے تھے کہ آپ کے سامنے آپ کے ساتھیوں کی غلطیاں اور عیوب بیان کیے جائیں۔ فرماتے تھے کہ میرے دل کو میرے ساتھیوں کی طرف سے صاف رہنے دیا کرو۔