یہ ایک ایسی سنت ہے جو ہر طبقے میں بہت زیادہ مقبول ہے، جسے فرائض پر ترجیح ہے اور اسے ترک کرنے کا گناہ کوئی بھی مول نہیں لیتا-کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ اس سنت کے جواب میں زیادہ قیمتی اور بڑا ہدیہ دینا رسول اللہ کی سنت متواترہ ہے-نہیں سنا، ناحالانکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ کو کسی نے ہدیہ دیا ہو اور آپ نے اسے جوابی اس سے بہتر ہدیہ نہ دیا ہو- ایک صدر شعبہ روز نئے سوٹ کی نمائش کرتے ہوئے کہتے:فلاں وزیٹنگ فیلکٹی نے تحفہ دیا-یہ فلاں نے تحفہ دیا-اس ضمن میں اصل سنت بلکہ حکم شرعی کیا ہے :ایک شخص ابن اللتیہ کو رسول اللہﷺ نے زکوۃ کلکٹر بنا کر بھیجا، وہ جو کچھ لایا اسے لاکر دو ڈھیریاں لگا دیں کہ یہ سرکاری مال ہے اور یہ وہ تحائف ہیں جو لوگوں نے مجھے دئیے-رسول اللہ نے سارا مال سرکاری خزانے میں جمع کروا دیا اور اس کی عزت نفس (جس کا آپ بے پناہ خیال رکھتے تھے) کی پرواہ کئے بغیر آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فوراً خطاب فرمایا کہ:ہم کسی بندے کو سرکاری ڈیوٹی کے لیے مامور کرتے ہیں اور وہ مال لے کر آ جاتا ہے کہ یہ سرکاری مال ہے اور یہ مجھے ملنے والے تحائف ہیں، وہ اپنی ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا، پھر دیکھتا اسے کتنے تحفے آتے ہیں-حضرت عمرؓ کا ایک دوست ہر سال اونٹ کی ایک سالم ران کا گوشت آپ کو تحفتاً بھیجتا تھا، آپ لے لیتے- ایک بار اس کا کوئی کیس آ گیا. اس نے کہا، امیرالمومنین، اس شخص کے اور میرے درمیان حق و باطل کو اس طرح الگ کر دیں جیسے ران کا گوشت ہڈی سے الگ ہوتا ہے-حضرت عمر نے کیس کی سماعت تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری کو بلا کر فوراً سرکلر جاری کر دیا کہ کوئی سرکاری ملازم کسی سے کوئی تحفہ نہیں لے گا-رسول اللہﷺ کی حدیث ہے-ھدایا العمال غلول سرکاری ملازمین کا ہدیہ لینا بددیانتی ہے-مجھے حیرت ہے کہ علوم اسلامیہ کے اساتذہ بھی اپنے طلبہ سے بالخصوص ڈگری کی تکمیل پر پر تکلف دعوت وصول کرتے ہیں-
میرے خیال میں اس کی بہ نسبت سور کے گوشت سے پیٹ بھر لینا کمتر گناہ ہوگا-