اس لمحے یہ سطور رقم کرتے ہوئے خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات ہیں جو مجھے گھیرے ہوئے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے کا ذکر ہے کہ ڈی سی او ملتان کی ذاتی دلچسپی پر مجھے دو برس ملتان کی ڈسٹرکٹ جیل، وومن جیل اور سنٹرل جیل میں قید بچوں کی تربیت، ذہن سازی اور کردار سازی کی ذمہ داری عطا ہوئی تھی۔ زندگی میں بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ کچھ کام بنا چاہے، آپ کو سونپے جاتے ہیں بلکہ کچھ کاموں کے لیے آپ منتخب کیے جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی ان کاموں کے بارے میں سوچا تک نہیں ہوتا
ملتان کی جیلوں میں پڑھانے سمجھانے اور دل و ذہن کی کیاری تیار کرتے ہوئے ، اچھی سوچ، نیک خیالات اور اعمال کا بیج بوتے ہوئے میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ جرائم پیشہ لوگوں کی پہلی ترجیح غریب لوگوں کے ننھے منے بچے ہوتے ہیں جو انہیں آسانی سے مل جاتے ہیں۔ خاص بات یہ بھی پتہ چلی کہ چوں کہ بچوں میں سیکھنے کی حس تیز ہوتی ہے اس لیے یہ بچے جرائم میں مہارت جلدی جلدی سیکھ جاتے ہیں اور ان کو بچوں کے ذریعے وارداتوں میں کامیابی کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔دوران واردات ایسے بچے نظر میں نہیں آتے۔ بچے اگر پکڑے بھی جائیں تو لوگ بچہ دیکھ کر ترس کھا جاتے ہیں۔ ہم دردی دکھاتے ہوئے دو چار تھپڑ رسید کر کے بھگا دیتے ہیں۔ اور کم سنی کے سبب قانون میں بھی بڑی رعایت ہے اس لیے وہ جلدی چھوٹ جاتے ہیں اور رہا ہو کر دوبارہ اپنی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
جیل میں قید ایک بچے نے بتایا کہ وہ جیب کاٹنے میں ماہر ہے۔ اسے اس کے گینگ کی طرف سے روزانہ دس ہزار روپے معاوضہ ملتا ہے۔ تھانے اور جیل سے رہائی کی ذمہ داری گینگ کے سربراہ کی ہوتی ہے وہ لڑکا پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں سفر کرتا رہتا تھا۔ شہر کے بڑے جنازوں ، شادی بیاہ کی تقریبات سے موبائل فون چرانے اور جیب کاٹنے ( دلہا دلہن کے والدین کا پرس اور جیب خاص ٹارگٹ ہوتا تھا) کا کام آسانی سے کرتا ۔ آخری بار اسے ایک معروف نجی بس کے مسافروں کی جیبیں صاف کرنے کا حکم اور مشن ملا ۔ راولپنڈی سے ملتان کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ ایک خاتون اس کام میں اس کے ہم راہ ہوتی۔ اچھا بھلا کامیابی سے دھندا چل رہا تھا کہ ایک روز کسی بڑے سرکاری محکمے کے سربراہ کی جیب کاٹتے ہوئے وہ پکڑ لیا گیا وہ تب سے جیل میں تھا۔اس نونہال سے عرض کیا تھا کہ بڑے ہو رہے ہو۔ آٹھ سال کی عمر سے تم نے ایک غلط اور برے کام کو شروع کیا۔ تین برس میں بہت سارا وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے اس لیے اس برے کام سے توبہ تائب ہو جاؤ، جیل سے رہائی کے بعد باہر جا کر اچھے انسان بننا۔
اس نے کہا تھا کہ گینگ مجھے اب نہیں چھوڑے گا۔ وہ میرے گھر خرچہ بھیج رہے ہیں۔ یہاں بھی کھانا پینا کپڑے اور سامان بھیجتے ہیں۔ رہائی کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔وکیل مقدمہ لڑ رہا ہے۔ میں دل سے اس جرم کی دنیا سے نفرت بھی کروں تو میرا گینگ مجھے نہیں چھوڑے گا۔
آج صبح نشتر اسپتال کے قریب ایک معروف لیب سے اپنا سی بی سی اور ایچ بی ون اے سی ٹیسٹ کروانے گیا تو ریسیپشن پر بیٹھا تیئیس چوبیس سال کا ایک لڑکا کمپیوٹر سے رسید نکالتے ہوئے مجھے توجہ اور انہماک سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
سر آپ ڈسٹرکٹ جیل میں پڑھانے آتے تھے ؟"،
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
رسید میرے ہاتھ میں تھمانے کے بعد بازو سے ٹیسٹ کے لیے سرنج سے خون نکالتے ہوئے اس نے بتایا، "سر میں وہ ٹیڈی ہوں جو جیب کترا تھا اور جیل میں سزا بھگت رہا تھا۔ سر میں نے جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ برا کام چھوڑ دیا تھا۔ بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔سر ! میں نے بی ایس سی کر لیا ہے۔ مزید تعلیم جاری ہے ساتھ ساتھ یہ جاب بھی کر رہا ہوں" ۔
مظہر صدیقی