گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکِستان کی تاریخ کے کئی اہم ترین افراد دُنیا سے گئے ہم ان میں سے تین کی مثال لیتے ہیں تاکہ کامیاب زندگی اور عزّت کے مفاہیم پر اپڑی گرد ہٹ سکے۔ یہ تینوں کسی نہ کسی دور میں پاکِستان کے مُؤثّر ترین افراد رہے، لیکن اِن میں سے دو کے مرنے کی خبر شاید اِنکی گلی کے سارے گھروں کے مکینوں کو بھی نہ ہُوئی ہو جبکہ ایک کی موت سے نہ صرف پاکستان کا بچّہ بچّہ واقف ہُوا بلکہ انکے حامی اور مُخالفین دونوں طرح کے لوگوں کو انکی موت پر مثبت یا منفی رائے دینی ہی پڑی۔
اِن میں سے ایک شریفُ الدین پیرزادہ تھے جنھوں نے نہ صرف پاکستان کے سب آئین لکھے بلکہ ایک سو اسّی کے قریب آئی کیو لیول کے حامِل تھے جو دُنیا میں ایک وقت میں چند لوگوں کو ملتا ہے۔ ایک کیس کی کروڑوں رُوپے فیس لیتے، مارشل لا ایڈمینسٹریٹرز اور غاصبوں کو آئینی قدغنوں سے بچنے کے چور راستے بتاتے زندگی گُزاری ۔ ہر حکمران انکے قدموں میں جھکنے پر مجبور ہُوا۔ انہیں بجا طور پر پاکستانی تاریخ کے طاقتور ترین افراد میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکِن آج اِنکی غیر موجودگی کا احساس شاید اِنکے پالتو کُتے کو بھی نہ ہو۔ یعنی کمائی ہُوئی عزّت کی تدفین انکی میّت کے ساتھ ہی ہُوئی۔ آپ چاہیں تو انکی شاہانہ اور بااثر زندگی کو کامیاب زندگی کہہ لیجیے لیکن نہ صرف میں اسے صلاحیتوں کے ضیاع کی بہترین مثال سمجھتا ہوں بلکہ تاریخ بھی انہیں اچھے الفاظ کے ساتھ یاد نہیں کرے گی۔
ایسے دوسرے فرد ائیر مارشل اصغر خان ہیں۔ یہ پینتیس سال کی کم عُمری میں عملاََ فضائی فوج کے سربراہ بنے اور لمبا عرصہ اس طاقتور عہدے پر رہنے کے بعد استعفا دیا اور سیاسی پارٹی بنالی۔ عمران خان جیسے نظریات کے حامِل تھے لیکن انہی کی طرح اُسی عطار کے لونڈے کی دوا سے طاقت حاصل کرنا چاہتے تھے جس نے دو نسلیں بیمار کی تھیں- نوازشریف انہی کی گود میں میں سیاستدان بنے، بیرسٹر اعتزاز سمیت بیسیوں بڑے سیاستدان انکی اندرونی جیبوں سے برآمد ہُوئے۔ کیا جاگیردار کیا سرمایہ دار کیا سیاسی مُلّا، کوئی سیاسی مُہرہ انکی اجازت کے بغیر اپنی جگہ نہ بدلتا۔ یہ نہ ہوتے تو بھٹو کی حکومت نہ جاتی نہ اُسے پھانسی دینے کا ضیا کا خواب پُورا ہوتا۔
پچھلے چند سالوں کے دوران ائیر مارشل اصغر خان بھی مر گئے، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہُوئی، ہاں اُن کے مرنے سے پہلے آخری خبر یہ آئی تھی کہ یہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ آپ سوچیے کہ ان صلاحیتوں کا حامل شخص اگر تخلیقِ انسان کے مقصد کی تکمیل کے مشن سے متعلق ہوتا تو انسان کے مفید ہونے کی کیسی کیسی مثالیں قائم نہ کر سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی تاریخ میں زندہ رہنے کی بجائے طاقت اور اقتدار کی راہداریوں میں مرنا چُنا۔
انہی سالوں میں ایدھی صاحب بھی فوت ہُوئے۔ تنگ نظر طبقہ انکی وفات پر اُلٹی سیدھی باتیں کرتا رہا لیکن دُنیا کے ہر فرد نے ایدھی صاحب کی رُخصت کو محسوس کیا۔ میری حیثیّت ہی کیا کہ اُنکی تعریف بیان کروں لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاںہے کہ اللہ کی آیات میں سے ایک آیت یعنی تاریخ انکا ہزاروں سال ذکر کرے گی۔ یعنی ایدھی صاحب وہی دائمی عزّت پاگئے جو اللہ کسی خاصُ انسان کو اُسکے کسی خاص کام کی بدولت دیتا ہے۔
طے ہوا کہ نہ تو سیاسی انتظامی عدالتی حکُومتی یا دیگر عُہدے عزّت کی علامت ہیں نہ ہی کوئی مذھبی گدّی، عزّت وہ ہے جو اللہ کی نظر میں ہو اور جو لوگ اللہ کی نظر میں معتبر ہوں یا تو تاریخ اُنکے گُزر جانے کے بعد اُنکا ذکر ضرور بُلند رکھتی ہے یا پھر اُنکے مدار میں موجود بے کس اور کمزور لوگ شدّت سے اُنکی کمی محسُوس کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اللہ کی نظر میں معتبر ہو اور اُسکا وجُود اللہ کے بندوں کے لیے باعثِ طمانیت نہ ہو۔گویا عِزّت کی ایک ظاہری قِسم وہ ہے جو جھاگ کی طرح عارضی توہوتی ہی ہے یہ ایک ایسا سراب بھی بن جاتی ہے جو انسان کو عمر بھر اپنے پیچھے لگائے رکھتا ہے لیکن یہ سراب بندے کی قبر میں اُسی کے ساتھ دفن ہوجاتا ہے۔
ایک عزّت وہ بھی ہے جو اللہ کا قانون کسی خاصُ انسان کو اُسکے کسی خاص کام کی
بدولت دیتا ہے، یہ عزّت دائمی ہوگی، تاریخ نسل در نسل اس عزّت کی امین ہوگی۔
میری مرضی ہے میں عارضی عزّت کے پہلے اور آسان راستے کو اپناؤں یا دائمی عزّت کے کانٹوں بھرے راستے پر لہُولُہان ہو کر اللہ اور تاریخ کی نظروں میں امر ہو جاؤں۔