کوئی آٹھ نو سال قبل کی بات ہو گی جولائی اگست کی شدید حبس کا زمانہ تھا۔ میں۔۔صدر مسلم لیگ۔۔ ایریا بول رہا ہوں۔ آپ مشتاق احمد ہیں۔جی ہاں۔ آپ خود اپنی بیگم صاحبہ کے ہمراہ میرے ہاں تشریف لائیے یا مجھے اپنا پتہ دیجیے کہ میں حاضر ہوں۔ اکھٹے بیٹھ کر چائے ہو جائے۔۔ میری حیرانی بڑھتی جا رہی تھی۔۔ کہنے لگے میری عمر اس وقت تریسٹھ، چونسٹھ سال ہے اور دل کا مریض ہوں آج پنجاب یونیورسٹی کے سامنے میری گاڑی پنکچر ہو گئی۔ میں پریشانی کے عالم میں باہر نکلا سارے کپڑے پسینے سے بھیگ گئے تھے کہ کیا کروں۔۔ اچانک ایک نوجوان لڑکا کالا کوٹ ٹائی لگائے مجھے پریشان دیکھ کر میرے قریب آ کر رُکا اور پوچھنے لگا کہ سر کیا بات ہے؟ میں نے بتایا کہ گاڑی پنکچر ہو گئی ہے اور میں ہارٹ پیشنٹ ہوں سوچ رہا ہوں کہ ٹائر کیسے بدلوں؟ یہ لڑکا کار کی ڈگی کی طرف لپکا جو پہلے سے کھُلی ہوئی تھی اوزار نکالے اور میرا پنکچر ہوا ٹائر کھول کر نیا لگانے لگا تو بولا سر! اس کی تو سٹپنی بھی پنکچر ہے۔ میں نے سوچا کہ اب تو یقیناً چھوڑ کر چلا جائے گا۔ کہنے لگا سر اب کیا کریں؟ کیونکہ پنکچر کی دوکان فیروز پور روڈ پر تھی جو کم از چار پانچ کلو میٹر دور ہو گی۔ اس نے کہا سر آپ موٹر سائیکل پر میرے پیچھے ٹائر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے؟ مرتا کیا نہ کرتا ہم واپس گئے، پنکچر لگوا یا، اور اُسی طرح ٹائر پکڑ میں پیچھا بیٹھا اور واپس آئے، ٹائر تبدیل کر دیا۔ میں نے لڑکے کا نام پوچھنے سے زیادہ اس کے والد کا نام و نمبر پوچھنا زیادہ ضروری جانا تو اس نے یہ نمبر دیا۔ میںنے اس لڑکے کی بہت منتیں کیں کہ میرے ساتھ چلو کچھ کھا پی کر چلے جانا۔۔۔ کوئی بات نہیں کہہ کر یہ لڑکا چلا گیا۔۔۔میں آپ کاشکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ کو اتنے سعادت مند بیٹے کا باپ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔۔۔اور میں مسلم لیگ کے فلاں علاقے کا صدر ہوں آپ میرے لائق کوئی خدمت بتائیے کہ میں نیکی کا بدلہ اتار سکوں میں اس دن سمجھ رہا تھا کہ مجھے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا مگر عین اس وقت یہ لڑکا میرے لئے فرشتہ رحمت ثابت ہوا۔
میں اپنے زیر تعمیر مکان پر اکثر و بیشتر موٹر سائیکل لے کر جاتا ہوں کہ قریب قریب کوئی دوکان ہوٹل وغیرہ نہیں اور کوئی چیز منگوانی ہو یا مستری مزدوروں کو بار بارجانا ہوتا ہے کہ یہ موٹر سائیکل بہت مفید ہوتی ہے۔ آج دو مزدور کھانا کھانے گئے میں منتظر تھا کہ آئیں تو میں جاؤں۔ کافی دیر کے بعد آئے اور میں اپنے گھر کے لئے روانہ ہوا۔ کوئی دو بجے کا وقت ہو گا تیز،گرم لو کے بھبھکے اور اندازاً 45 سینٹی گریڈ درجہ حرارت لو اور گرمی سے سڑک کی لُک پگھل رہی ہے بالکل اجاڑ جگہ پر معلوم ہوا کہ موٹر سائیکل بند ہو گئی اور پٹرول نہیں ہے۔ کیا کرتا موٹر سائیکل کو الٹا سیدھا لٹایا کہ شائد چل پڑے مگر نتیجہ صفر۔۔ سوچ رہا تھا کہ کیا کروں اور بہت بُرے حالات میں گلے میں اپنے وزنی لیپ ٹاپ کا پٹھو لٹکائے منہ اور سر کو پانی میں بھگو کر ایک چادر سے لپیٹا ہوا جا رہا تھا کہ کوئی دو ڈھائی کلومیٹر آگے جا کر پٹرول پمپ ملے گا۔۔اچانک ایک نوجوان لڑکا میرے قریب آ کر رُکا اور بولا انکل کیا ہوا، پٹرول ختم ہو گیا؟ میں نے جی ہاں۔۔۔کہنے لگا میں آپ کو پٹرول پمپ تک پہنچا دوں؟ میں نے کہا وہ کیسے؟ بولا آپ موٹر سائکل پر سوار ہوں میں پاؤں سے اسے مسلسل دھکا دیتا جاتا ہوں۔۔
مجھے اپنے بیٹے والا پرانا واقعہ یاد آ گیا، آواز رندھ گئی اور آنکھوں میں پانی تیرنے لگا۔۔ اللہ پاک کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔
٭٭٭