میرے ایک کولیگ ایک سرکاری ادارے میں اچھی پوسٹ پر ہیں۔ تنخواہ لاکھوں میں ہے۔ ایک بڑے شہر میں ایک گھر اور تین دکانیں کرائے پر دے رکھی ہیں۔ اپنے ایک بچے اور بیوی کے ساتھ ایک اچھی کالونی میں اپنے ذاتی گھر میںرہائش ہے۔ بیوی شوقیہ کسی کالج میں پڑھاتی تھی، پچیس ہزار کے قریب اس کی تنخواہ بھی تھی۔ سب کچھ بہترین چل رہا تھا۔
ہمارا وہ کولیگ ایک خدا ترس آدمی ہے اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی کو کسی طرح معلوم ہو گیا کہ وہ کئی سالوں سے اپنے رشتہ داروں میں دو بیوہ بوڑھی خواتین اور ان کے یتیم بچوں کی کفالت کر رہا ہے۔ اس بات پر اس کی بیوی نے لڑائی شروع کر دی کہ مجھے بتائے بغیر تم اتنے پیسے ان پر کیوں لٹا رہے ہو۔
شوہر نے اسے سمجھایا کہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس۔ آپ لوگوں کی تمام جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بھی کافی بچ جاتا ہے۔ اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور پھر اپنے ہی رشتہ داروں پر خرچ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن بیوی اسی بات پر اڑی رہی کہ اپنا پیسہ رشتہ داروں پر لٹانا بند کرو۔ بات اتنی بڑھی کہ بیوی نے اسی بات پر خلع کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اس کی بیوی کے ایک بھائی سے میری کافی اچھی سلام دعا ہے۔ اس نے مجھے اس معاملے کو سلجھانے کے لیے کہا۔ میں نے ایک اور دوست کو ساتھ لیا اور اس کے بھائی سے ملے۔ اس نے کہا کہ میں خود بھی سمجھا چکا ہوں۔ میری بات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ اب یہ کرتا ہوں کہ امی ابو کی موجودگی میں بہن سے ہم سب مل کر بات کر لیتے ہیں ۔ اللہ کرے کہ یہ گھر اجڑنے سے بچ جائے۔ ہم سب ان کے گھر ملے۔ ان کا چھوٹا سا گھر تھا جس میں تین بھائی اپنے درجن بھر بچوں اور والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ لڑکی سے ہم نے پوچھا کہ شوہرسے کیا شکایت ہے اور اس کے ازالے کی کوئی صورت ممکن ہے؟کہنے لگی کہ وہ اپنی ساری آمدن اپنے رشتہ داروں پر لٹا دیتا ہے۔ یہی شکایت ہے مجھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا ہے؟کہنے لگی کہ رکھتا ہے۔
ہمارے بزرگ دوست نے پوچھا کہ کیا آپ کو پیسے کی تنگی دیتا ہے کہ آپ کسی چیز کے لیے کہو یا پیسوں کا کہو اور وہ منع کر دے؟کہنے لگی کہ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میرے کہے بغیر ہی میرے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے بھیج دیتا ہے کہ مجھے کبھی کہنا ہی نہیں پڑا۔ شاپنگ بھی ساری کرواتا ہے۔
ہم نے کہا کہ پھر جو بچ جائے اس پر آپ کو اعتراض کیوں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے جہاں بھی خرچ کرے۔ کہنے لگی کہ ایسے کیسے میں اسے رشتہ داروں پر لٹانے دوں
میں نے پوچھا کہ اچھا جو آپ کی تنخواہ ہے کیا آپ اسے دے دیتی ہویا اس کی مرضی سے خرچ کرتی ہو؟ایک دم اونچی آواز میں بولی کہ وہ میری کمائی ہے تو اپنی کمائی اسے کیوں دونگی؟ وہ میری ہے تو اپنی مرضی سے ہی خرچ کروں گی۔ اس کے بعد ہم نے اسے کافی سمجھایا کہ آپ کی جائز ضروریات پوری کرنا شوہر کا فرض ہے لیکن اس کی ساری کمائی پر آپ کا حق نہیں ہے۔ اس کو پورا استحقاق ہے کہ وہ اس میں سے اللہ کی راہ میں اور اپنے دوسرے رشتہ داروں پر، غریبوںرشتہ داروں پر جیسے چاہے خرچ کرے۔ لیکن اس کا کہناتھا کہ مجھے ایسے شخص کے ساتھ نہیں رہنا جسے اپنی تنخواہ دوسرے رشتہ داروں پر لٹانے کا شوق ہو۔ اس میں اس کی والدہ اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ جب کسی بھی طرح بات نہ بنی تو ہم نے اسے اٹھتے ہوئے کہا کہ خلع لینے کی صورت میں ان ساری مراعات سے محروم ہو جاؤ گی جو ابھی تمہیں حاصل ہیں۔ والدین کا گھر بھی چھوٹا ہے تمہارے لیے یہاں رہنا بہت مشکل ہوگا۔ علیحدگی کے بعد اپنے قریبی بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہی کہنا تھا کہ میں خود کماتی ہوں، میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں۔ ہم نے اپنے کولیگ کو بھی کہا کہ فی الحال ان کا کوئی اور انتظام کر لو۔ ہم ان کی کفالت کا ذمہ لے لیتے ہیں۔ آپ گھر بچا لو۔ لیکن اس کا یہی تھا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ میں اپنی آمدن پر بھی اپنا حق نہیں رکھتا ، یہ تو ایسے سمجھتی ہے کہ میں شوہر نہیں اس کا غلام ہوں کہ جو کماؤں اس کے ہاتھ پر لا کر رکھ دوں اور پھر جیسے وہ کہے ویسے خرچ کروں۔ وہ اپنی کٹی پارٹیز پر لاکھوں اڑا دے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں اپنے غریب رشتہ داروں کی کفالت کروں تو طوفان آجائے۔ میری کوئی بھی غلطی ہے تو بتائیں لیکن غلط بات نہیں مان سکتا۔
اور بھی کئی لوگوں نے کوشش کی۔ عدالت نے بھی مصالحت کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ بالآخر خلع کی صورت میں ہی انجام ہوا۔ بچے کا خرچ باپ دیتا رہا۔ کچھ دن والدین کے گھر رہی۔ وہاں بھابیوں نے نوکرانیوں جیسا سلوک کیا تو قریب ہی ایک گھر کرائے پر لیا۔ لاکھوں والے ٹھاٹھ پچیس ہزار میں کہاں پورے ہونے تھے۔ ہمارے کولیگ نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کر لی۔ اس کا گھر پھر سے بس گیا جب کہ اس عورت کی حالت دیکھتا ہوں تو ترس آتا ہے۔ خود بھی رل گئی اور اپنے بچے کو بھی رول دیا۔ کچھ عرصے بعد باپ بچے کو اپنے پاس لے بھی آئے تب بھی ویسے حالات تو نہیں ہو سکتے جیسے اس کی اپنی ماں کے اس گھر میں ہونے سے اس کو ملنے تھے۔
چند سال قبل تک ہمارے معاشرے میں طلاق کو انتہائی معیوب چیز سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پچھلے کچھ عرصے میں اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیم و روزگار کی وجہ سے عورتوں میں خود اعتمادی کے نام پر پیدا ہونے والا غرور بھی ہے۔ عدالتوں میں خلع کے کیس دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کیس کیے ہوئے ہیں اس میں زیادہ تر انا اور غرور کا دخل ہے۔ رہی سہی کسر میڈیا پر چلنے والے ڈراموں نے پوری کر دی ہے۔ اس معاشرے میں اکیلے مرد کے لیے رہنا ایک عذاب ہے ، عورت تو پھر عورت ہے۔ خدارا اپنے گھروں کو خراب نہ کیجیے۔