میری معالجاتی زندگی کا ایک عجیب واقعہ
حکیم سید علی کوثر، چاند پوری
بوڑھا پرشارتھی وشن جو پیشاب کی کثرت کا علاج کرانے اکثر میرے پاس آتا رہتا تھا۔ ایک روز بہت سویرے ایک نوجوان اور تندرست عورت کے ساتھ آیا۔ وشن ہاتھوں پر ایک چھوٹا سا بچہ اٹھائے ہوئے تھا جو لگا تار چیخیں مار کر رو رہا تھا۔ اس نے آتے ہی اس روتے ہوئے بچے کو میری گود میں ڈال دیا اور پرنام کرنے کے انداز میں ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے بولا۔ ‘‘اسے بچاؤ بابا، اسے بچاؤ!’’اسے بچاؤ!’’ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی موٹی موٹی بوندیں ڈھلک رہی تھیں۔ ‘‘کیا بات ہے وشن؟’’ میں نے اس ننھے منے خوبصورت بچے کو غور سے دیکھا۔ وہ بالکل بھلا چنگا تھا۔ ‘‘اس کے دودھ نہیں بنتا بابا!’’ اس نے اپنے ساتھ والی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ‘‘یہ کون ہے تمہاری وشن؟’’ہماری بیٹی ہے بابا! دوبچے پہلے ہوئے ہیں، دونوں مر گئے۔ یہ تیسرا بچہ ہے اور دودھ بالکل نہیں آتا۔ بھوکا مرا جا رہا ہے۔ یہ بکری کا دودھ بالکل ہضم نہیں کرتا الٹی کر دیتا ہے اور سو گھومڑا (دست) کرتا ہے، سویرے سے شام تک، پر کل سے گھومڑا نہیں کیا۔ ہم نے ڈبہ کا دودھ پلا، بہت مہنگا ملا۔ آگے کو نہیں پلا سکتا یہ دودھ۔ ’’ میں نے عورت کو دیکھا وہ بالکل صحت مند تھی۔ میں نے مختلف سوالات کئے۔ اس وقت وہ بالکل اچھی تھی۔ کوئی ایسی بیماری نہ تھی جسے دودھ کی کمی، بلکہ فقدان کا سبب کہا جا سکتا۔ میں نے دودھ بڑھانے کا ایک نسخہ لکھ دیا اور وشن سے کہا: ‘‘اپنی بیٹی کو خوب دودھ پلا ؤ اور ردوائی مکھن کے ساتھ کھا نے کو دو ، پھل بھی دو اور دوائی بھی ، دودھ اترنے لگے گا۔ ’’ ‘‘دودھ مکھن ،پھل ، ہم سب کچھ دے چکا بابا!’’ ‘‘اب اور دو، اس دوا کے ساتھ!’’وشن کو اطمینان نہیں ہوا، وہ پرچہ لے کر چلا گیا۔ پانچویں دن رات کو آٹھ بجے وہ پھر روتا ہوا میرے پاس آیا اور گھر چل کر مریضہ کو دیکھنے کی خواہش کی۔ میں چند اندھیرے اور پیچید ار زینوں سے گزر کر مریضہ تک پہنچا۔ وہ زمین پر بچھے ہوئے ایک گدے پر پڑی تھی، مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔ بچہ اس کے پہلو میں لیٹا چیخیں مار رہا تھا۔ آج بہت ہی بری طرح رو رہا تھا۔ ایک طرف ایلومینیم کی میلی کٹوری میں ڈبے کا ذرا سا دودھ رکھا تھا۔ ‘‘کچھ بھی فرق نہیں پڑا ، وشن بولا اور اب ڈبے کا دودھ بھی ہضم نہیں کرتا ہے۔ اس کا پیٹ پھول گیا ہے دوپہر سے’’ میں نے مریضہ کو ایک بار اور غور سے دیکھا، وہ کچھ پڑھی لکھی تھی۔ اس نے کہا‘‘بابا ہمارے دو بچے گزر چکے ہیں۔ دونوں کو ملا(خارش ،فساد خون) کی بیماری پھیلی تھی۔ پہلے پہل ہمیں دودھ اترا تھا مگر بچے کو پلاتے ہوئے ہمیں ڈر لگا، کہیں ہمارا دودھ پی کر یہ بھی۔۔۔۔ اور پھر دودھ سوکھ گیا۔ ’’ وشن بولا ‘‘اسے وہم ہو گیا تھا کہ اس بچے کو بھی ویسی ہی بیماری ہو جائے گی جیسے کہ دو بچوں کو ہوچکی تھی۔ یہ دودھ پلانے سے رک گئی۔ وشن بولا وہم مت کرو، پر دودھ تو اترے۔ ’’اب بیماری میری سمجھ میں آچکی تھی۔ میں نے علاج کو بالکل بدل دینے کا ارادہ کر لیا اورپہلے وشن کی لڑکی کو پوری کوشش سے یقین دلایا کہ وہ بالکل بیمار نہیں ہے اور اس کا دودھ پینے سے بچے کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہو گا۔ البتہ دودھ نہ پلانے سے اس کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ اسے صرف ماں کے دودھ کی ضرورت ہے۔ وہ ڈبے یا گائے، بکری کا دودھ بالکل ہضم نہ کر سکے گا۔ یہ صرف تمہارے دودھ ہی سے زندہ رہ سکتا ہے۔ ’’ اس نے میری بات سنتے ہی بچے کو گدے سے اٹھا کر اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیا، اوردوبارہ دودھ پلا نے کی کو شش کی۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد ایک چیخ مار کر منہ کھول دیا۔ دودھ کی ایک بوند بھی اس کے منہ میں نہ گئی تو اس نے رونا شروع کر دیا۔ اس نے دوبارہ کو شش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ میں نے کہا اگر تم کامیا ب نہ ہو سکی تو بچے کی جان نہیں بچ سکتی۔ تم اپنے دل سے سارے وہم نکال ڈالو اور اسے اپنے ساتھ لگا ئے رکھو’’ وہ آنچل منہ میں لے جھٹ چھوڑ دیتا ہے۔ دودھ نہیں پی سکتا ہے تو بچہ چڑ جاتا ہے۔ ‘‘اس کی بالکل پرواہ مت کرو۔ ’’ ‘‘کوئی دوا بھی دو بابا!’’ میں نے دل کی طاقت کیلئے ایک دوا دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘ایک خوراک ابھی دو ایک رات کو دینا۔ ’’ اس کے بعد وشن کی لڑکی کو دوبارہ سمجھا کر میں واپس آگیا۔ صبح سویرے ہی وشن آیا۔ بہت خوش تھا۔ اس نے کہا: ‘‘بابالڑکی کو رات خواب ہوا۔ بھگوان بولا تم بالکل اچھا ہے اور اسی لمحہ اس کو محسو س ہو ا کہ وہ اپنے بچے کی بھوک مٹا سکتی ہے۔ ابھی اس نے بچہ کو خوب پیٹ بھر کر دودھ پلا دیا اور وہ آنند ہو کر سو گیا۔ بہت اچھا دوا دیا تم نے۔ ایک وزن(خوراک) وہی دوا اور دے گا۔ ’’ اب دوا کی ضرورت نہیں وشن۔ اس کا علاج میں نے نہیں اللہ ہی نے کیا ہے، جب تک تمہاری لڑکی کو یہ ڈر رہا کہ اس کا دودھ پینے سے بچہ مر جائے گا۔ اس کی نفسیاتی طاقت دودھ کے راستوں میں دیوار بن کر کھڑی ہو گئی اور جب اسے یقین ہو گیا کہ بچہ اس کا دودھ پی کر مرے گا نہیں بلکہ دودھ نہ پینے سے مرنے کا خوف ہے تواللہ نے اس نفسیاتی دیوار کو دودھ کے راستوں سے ہٹا لیا اور دودھ کی دونوں سوکھی نہریں بہنے لگیں۔ ‘‘کیا بات بولتا ہے بابا’’ وشن زور سے ہنس دیا۔ اس کے بڑے بڑے دانت کھل گئے۔ ‘‘ہم نہیں مانتا بابا۔ تمہاری ہی دوا سے دودھ آ رہا ہے۔ ایک وزن دوا اور دے گا!’’