میتھیو سید (Metthew Syed) برطانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ Black Box Thinking ان کی ایک اہم اور دلچسپ کتاب ہے۔اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے ایک خاتون سے جو کہ ایک نارمل سے آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل ہوتی ہے اور اس کا علاج تجربہ کار اور ماہر ڈاکٹرز نے کرنا ہوتا ہے- نارمل نوعیت کے آپریشن کو دیکھتے ہوئے خاتون کا شوہر اس کے بچے اتنے Relax ہوتے ہیں کہ ہسپتال میں رکنا بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ شام تک خاتون خود گھر آ جائے گی۔ ادھر خاتون کو جب آپریشن تھیٹر میں لے کر جایا جاتا ہے تو ڈاکٹروں کی غلطی سے اس کی طبعیت بگڑنے لگتی ہے اور بالخصوص اس کا آکسیجن لیول گر جاتا ہے- ڈاکٹرز اور نرس جو اس آپریشن کو بہت آسان لے رہے ہوتے ہیں تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں خاتون کو multiple organ failure کا مسئلہ ہو جاتا ہے تو دوسری طرف آکسیجن کا، ڈاکٹروں کا دھیان پہلے مسئلہ کی طرف زیادہ ہوتا ہے جبکہ ایک نرس گرتے ہوئے آکسیجن لیول پر پریشان ہوتی ہے اور ڈاکٹروں کو اس پر توجہ دلاتی ہے مگر ڈاکٹر اس کو غیر اہم سمجھ کر پہلے ایشو پر فوکس کرتے ہیں- اس وقت نرس ڈاکٹر کی ہدایت پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے مریضہ کوما میں چلی جاتی ہے اور آپریشن کے تیرہ دن بعد خاتون کا انتقال ہو جاتا ہے۔ اس دوران خاتون کے شوہر کو ایمرجنسی کال جاتی ہے کہ مریضہ حالت خراب ہے آپ جلد ہسپتال پہنچیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہم نے انتہائی کوشش کی مگر anesthesia دیتے ہوئے مسائل پیدا ہوئے۔ یعنی کہ ڈاکٹرز مکمل بات نہیں بتاتے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی میتھیو سید نے دوسری مثال ایک مسافر جہاز کی دی جس کو ایک پروفیشنل پائلٹ اڑا رہا ہوتا ہے جس نے جنگ عظیم دوم میں بھی امریکی ایئر فورس کے لیے خدمات انجام دی ہوتی ہیں۔ دوران پرواز جہاز کو ڈائریکشن کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایندھن کے مسئلہ کو بھی پائلٹ سامنے لے آتا ہے مگر پائلٹ کا دھیان پہلے مسئلہ پر زیادہ ہوتا ہے مگر وقت کے ساتھ دونوں مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ایندھن کی کمی کا بار بار کو پائلٹ ذکر کرتا ہے مگر پائلٹ سمت پر متوجہ ہوتا ہے اور کو پائلٹ کے خدشہ کو یہ کہہ کر اہمیت نہیں دیتا کہ ہنگامی لینڈنگ کے لیے وافر ایندھن ہے مگر سمت کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں مزید ایندھن ضائع ہوتا ہے بالآخر پائلٹ کو بھی احساس ہوتا ہے کہ اب جہاز کا کریش یقینی ہے وہ اس کے لیے جہاز کو آبادی سے باہر لے جاتا ہے اور خالی جگہ جہاز کریش کرتا ہے مگر خوش قسمتی سے 113 میں سے 108 مسافر سمیت اس پائلٹ کے بچ جاتے ہیں جبکہ کو پائلٹ ہلاک ہو جاتا ہے۔ ایویشن کمپنی اس حادثے کی تحقیق کرتی ہے اور جہاز کے بلیک باکس کی مدد سے نتیجے پر پہنچتی ہے۔
یہ دونوں فرضی واقعات نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی مثالیں ہیں۔ دونوں واقعات میں حادثات نے جنم لیا مگر ان میں بنیادی فرق حادثے کے بعد کا طرزِ عمل ہے- ڈاکٹروں نے حادثے کی معلومات فراہم نہیں کیں اور ایک طرح سے کیس کو ختم کر دیا جبکہ ایویشن حکام نے حادثے کی وجوہات پر غور کیا اس کی رپورٹ پبلک کی اور اس کے نتائج سے سیکھا۔ بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے ہوائی حادثات کو بہت باریکی سے مانیٹر کیا جاتا ہے اور غلطیوں کو درست کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہوائی حادثات کی ریشو لگاتار گر رہی ہے اور 2013 میں اعشاریہ چار ایک فیصد تھی۔جبکہ ہسپتال میں ہونے والی اموات کا اس طرح سے جائزہ نہیں لیا جاتا، لہذا وہاں غلطیاں سامنے بھی نہیں آتیں، جس سے ان کا تدارک بھی ممکن نہیں ہوتا۔
اس کتاب کا بنیادی مقدمہ ہی یہ ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے بجائے اس کے کہ ہم ان پر نادم ہو کر کوشش کرنا چھوڑ دیں یا پھر ان کو چھپائیں۔ یہ ناکامیاں اور غلطیاں آپ کی کامیابی و جیت کے لیے بہترین معاون ثابت ہو سکتی ہیں اگر ہم ان کو مختلف نکتہ نظر سے دیکھیں۔ جیسے اوپر کے دو حادثات میں میڈیکل حکام اور ایویشن حکام کا طرزِ عمل مختلف ہے اس کے جواب میں ان کا نتیجہ بھی مختلف ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایویشن میں لگاتار بہتری آ رہی ہے ان کا غلطیوں کو دیکھنے کا انداز الگ ہے۔
غلطیوں سے سیکھ کر کامیابی کی بات پر تو شاید سب متفق ہوں مگر یہ چیز اتنی آسان نہیں ہے کیونکہ اصل مسئلہ غلطی کا اعتراف ہے۔ اس پر مصنف نے بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو غلطیاں ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جیسے کہ بیرونی عناصر جن میں آپ کا کلچر، ماحول اور لوگوں کا غلطیوں کو برداشت نہ کرنے کا رویہ شامل ہیں۔ جبکہ دوسری وجہ اندرونی ہے کہ ہم خود شکستگی کا اعتراف بھی کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور اپنی انا کی تسکین کے لیے غلطیوں کو ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں رویے سیکھنے کے عمل کے لیے نقصان دہ ہیں اس سے بہتری کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔
اب ہسپتال والی مثال سے اس بات کو زیادہ تفصیل سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹرز اگر اپنی ناکامیوں کا کھلم کھلا اعتراف کریں گے تو ان کو خوف ہوتا ہے کہ مریض کے لواحقین سے ان کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا یا پھر انتظامی سطح پر ان کی سبکی ہو گی ان کی ریٹنگ گرے گی لوگوں کا ان پر سے اعتماد ختم ہو جائے گا- ایسی متعدد وجوہات ہوتی ہیں جو آپ کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے سے روکتی ہیں۔ لیکن اگر ڈاکٹروں کو اعتماد ہو کہ ان کی غلطی کو غلط رنگ میں نہیں دیکھا جائے گا بلکہ انتظامی و قانونی سطح پر بھی ان کو اعتماد حاصل ہو تو ممکن ہے کہ نرس اور ڈاکٹر اپنی غلطیاں جو کہ اتفاقی طور پر ہو جائیں جس میں بدنیتی کا عمل دخل نہ ہو کو ریکارڈ کیا جائے اور اپنے آگے کے حکمت عملی میں ان سے سیکھا جائے تاکہ آنے والے مریضوں کو بہتر علاج میسر ہو تو ماحول مختلف ہو گا۔ اس طرح کے کلچر کی مثال ایک اور ہسپتال کی مصنف نے دی بھی ہے جہاں پر غلطیوں کو منفی انداز میں نہیں بلکہ سیکھنے کے عمل کے طور پر لیا جاتا ہے تو وہاں کے لوگوں نے ڈاکٹروں پر زیادہ اعتماد کیا، وہاں پر ڈاکٹروں اور نرسوں کا مریضوں سے رویہ بھی زیادہ دوستانہ تھا اور وہاں کے مریض ڈاکٹروں سے مطمئن بھی تھے۔
غلطیوں کو تسلیم نہ کرنے کی کچھ اندرونی وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ یہ اعتراف ہماری انا کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بنتا ہے اس لیے ہم اس کو قبول نہیں کرتے۔اس حوالے سے مصنف نے Cognitive dissonance کی دلچسپ تھیوری کی بات کی ہے جس کا عمومی طور پر تقریباً ہر فرد ہی شکار ہے۔ Cognitive dissonance کی صورتحال اس وقت سامنے آتی ہے جب رونما ہونے والے واقعات ہمارے نظریات کے برخلاف ہوتے ہیں مگر بجائے اس کے کہ ہم اپنے نظریات پر نظر ثانی کریں ہم ان کو پھر بھی صحیح ثابت کرنے کے لیے اس پر تاویلات پیش کرتے ہیں تاکہ ہمارا نظریہ غلط ثابت نہ ہو۔ Cognitive dissonance کی سب سے بہترین مثال ہمارے وہ دانشور ہیں جن کا بیانیہ گزشتہ انتخابات میں بری طرح ناکام ہوا، جو لگاتار عمران خان کی ناکامی کی نوید سنا رہے تھے مگر جب ان کا بیانیہ شکست کھا گیا، بجائے اس کے کہ وہ متانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تجزیہ کی غلطی کا اعتراف کرتے آج تک وہ ڈھٹائی سے اپنے بیانیہ کے درست ہونے کے قائل ہیں۔
ان کی Cognitive dissonance کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ یہ جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب جیل کی سختیوں سے بھاگ کر ملک چھوڑ کر گئے مگر یہ ان ہی سے امید لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ ملک میں سول بالادستی قائم کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم جیسے لوگ جنہوں نے عمران خان سے تبدیلی کی امید لگائی مگر جانتے ہیں کہ تبدیلی نہیں آ سکتی بھی Cognitive dissonance کی ایک مثال ہے۔
میتھیو سید نے عراق جنگ کی مثال دی ہے کہ جن تباہ کن ہتھیاروں کا جواز بنا کر عراق پر حملہ کیا گیا وہ ہتھیار عراق میں نہیں مل سکے مگر ٹونی بلئیر کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ درست تھا اور برطانیہ کا اس جنگ میں شریک ہونا بھی صحیح تھا۔لہذا Cognitive dissonance کی یہ تھیوری ہمیں ہماری غلطیوں اور ناکامیوں پر غور کرنے سے روکتی ہے۔ اس کی اور بھی متعدد مثالیں مصنف نے دی ہیں۔ یہ کافی دلچسپ موضوع ہے بلکہ Cognitive dissonance کی حالیہ مثال مفتی عزیز الرحمن والا واقعہ ہے جس پر مفتی اسماعیل طورو کی وضاحت Cognitive dissonance کہلاتی ہے۔اس کے ہوتے ہوئے ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ مفتی عزیز الرحمن اور مفتی اسماعیل طورو اپنی اصلاح کر سکتے ہیں جبکہ وہ غلطیوں کو غلطی تسلیم ہی نہیں کر رہے۔
اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کرنے کا ایک اور طریقہ جس کی طرف مصنف نے توجہ دلائی ہے وہ Blame Game ہے۔ جب ہم اپنی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کسی اور کو قربانی کا بکرا بناتے ہیں۔ اس سے وقتی طور پر ہم تو بچ جاتے ہیں مگر اس کا Long term میں نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم سیکھ نہیں سکتے اور مستقبل میں مزید ایسی نااہلیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں جو کہ زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
مصنف نے بتایا ہے کہ بڑی کامیابی تب تک حاصل نہیں ہوتی جب تک ہم کو ناکامیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے Unilever کی ایک مثال بھی دی ہے کہ ان کو اپنا ڈٹرجنٹ پوڈر کو درست کرنے کے لیے اس کے متعدد ٹیسٹ لگانے پڑے اور اس کے لیے 449 بار نوزل کی شکل تبدیل کرنا پڑی یعنی کہ 449 بار وہ ٹیسٹ لگانے میں فیل ہوئے اور بالآخر کامیاب ہوئے۔ یہ مستقل مزاجی اور ہمت نہ ہارنے کی بھی ایک عمدہ مثال ہے اگر Unilever کے ڈٹرجنٹ ماہرین محض دس بارہ ناکامیوں کے بعد ہی ہمت ہار جاتے تو ان کی پراڈکٹ مارکیٹ میں پٹ جاتی اور وہ کوئی اچھا ڈٹرجنٹ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے اس کے لیے Trial and Error کے مرحلے سے گزرنا پڑا اور بالآخر ایک بہترین پراڈکٹ مارکیٹ میں متعارف کرانے میں کامیاب ہوئے۔
مصنف نے بتایا ہے کہ کوئی بھی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کی اپنی محنت اور لگن ہوتی ہے جو اس کو سیکھنے اور کامیاب ہونے میں مدد دیتی ہے۔ اور سیکھنے کے عمل میں غلطیاں ناگزیر ہیں بس ان کو دیکھنے کا زاویہ نظر مختلف ہونا چاہیے ان سے پریشان ہونے کی بجائے ان سے سیکھ کر بہتر کرنے کی کوشش ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ سیکھنا کوئی جامد (Static) عمل نہیں بلکہ تسلسل سے ہونے والا عمل ہے یعنی کہ Dynamic عمل ہے اور جتنا زیادہ آپ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اتنا زیادہ آپ کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
مصنف نے ڈیوڈ بیکھم کی بھی مثال دی ہے کہ چھ سال کی عمر سے اس نے فٹ بال کھیلنا شروع کیا، وہ شروع میں ایک اوسط درجے کا کھلاڑی تھا مگر اس نے روزانہ کی بنیاد پر پریکٹس شروع کی اور گھنٹوں تک وہ اپنی ککس کو بہتر سے بہتر بناتا رہا۔ اس طرح اس کے ککس میں بہتری آتی گئی اس کی پریکٹس کا یہ عالم تھا کہ ایک دن میں اس نے 2003 بار اپنی ککس لگائی۔ یوں لگاتار محنت اور اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے وہ ایک انٹرنیشنل فٹ بالر بنا، مصنف نے 2001 میں یونان کے خلاف ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے میچ کا ذکر کیا ہے جس کو انگلینڈ کے لیے کم از کم برابر کرنا ضروری تھا -عین آخری دو منٹس میں ڈیوڈ بیکھم کی کک نے ہی یہ میچ برابر کیا اور انگلینڈ نے ورلڈ کپ کوالیفائی کیا۔دراصل مصنف نے بتایا ہے کہ بیکھم کی اس زبردست ککس کے پیچھے بے شمار ناکامیاں اور مسلسل محنت چھپی ہوئی ہے۔ اسپورٹس کی دنیا میں سے ایک اور مثال مائیکل جارڈن کی دی ہے جس نے بتایا کہ اس کو تقریباً تین سو گیمز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کتاب میں ایک اور دلچسپ چیز Marginal Gain theory ہے۔ یہ مشکلات کو حل کرنے کے لیے بھی کام آتی ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ جب آپ مشکلات میں گھر جائیں تو اس مشکل کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اس کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کن کن جگہوں سے اس کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ یوں ہی جب آپ نے کسی بڑے پروجیکٹ کی کامیابی یا ناکامی کا جائزہ لینا ہو تو زیادہ بہتر طریقہ اس کو مختلف اجزاء میں تقسیم کر کے دیکھنا ہے تب ہی آپ زیادہ درست نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
سائنس کی کامیابی کا بھی جائزہ لیا جائے تو اس کی بنیادی وجہ بھی اس کا اپنے نظریات کو بار بار چیلنج کرنا ہے یوں بہتر سے بہتر نظریات سامنے آتے ہیں۔ مگر مصنف یہ بھی مانتے ہیں کہ سماجی معاملات یا سوشل سائنسز میں فیصلہ کرنا مادی سائنس کی نسبت مختلف ہے۔
زندگی کے ہر شعبہ میں چاہے وہ آپ کی ذات سے متعلق ہو یا کاروبار سے، شخصی ہو یا تنظیم سے‘ کامیابی رسک میں ہی ہے، اس کے لیے ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر کامیابی بھی اسی میں مضمر ہے۔ کرکٹ کی مثال لے لیں جب تک بلے باز رسک لیکر
چوکے اور چھکے نہیں لگائے گا یہ رسکی سنگلز بھی نہیں لے گا تو ٹیم دباؤ میں آئے گی، وہ بلے باز تو اپنی وکٹ بچا لے گا مگر ہار یقینی ہو گی۔ اس کے مقابلے میں جب بلے باز رسک لے گا تو ممکن ہے وہ اپنی وکٹ بھی گنوا بیٹھے مگر بڑے سکور کے لیے یہ ضروری ہے۔
اچھا بزنس مین بھی وہ ہی ہوتا ہے جو دلیرانہ فیصلہ لے، مگر اس میں کلچر کا بھی بہت عمل دخل ہے مصنف نے بتایا ہے کہ جاپان میں کاروباری ناکامی کو بہت معیوب اور برا سمجھا جاتا ہے جبکہ امریکہ میں ماحول اس کے برعکس ہے اس لیے جاپان میں کاروبار کرنے والے لوگوں کی ریشو بیس فیصد بھی نہیں جبکہ امریکہ میں یہ ریشو پانچ گنا زیادہ ہے۔
مصنف نے آخر میں بتایا ہے کہ غلطیوں پر لعن طعن کی بجائے ان سے سیکھنے کا کلچر لبرل معاشرے میں ہی پروان چڑھ سکتا ہے، رجعت پسند معاشروں میں اگر آپ مقتدر حلقوں کی سوچ کے خلاف جاؤ گے تو ماضی کی مثالیں موجود ہیں کہ نئی سوچ پیش کرنے والے کو موت تک کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسا معاشرہ جہاں پر آزادی اظہار ہو اور جہاں ناکامیوں کو دیکھنے کا انداز مختلف ہو وہ ترقی کرتے ہیں اور باقی معاشروں کو لیڈ بھی کرتے ہیں۔
اگر ہم مذہبی تناظر میں دیکھیں تو تزکیہ و حصول تقوی جو رب کو مطلوب ہے اس کا لازمی جزو محاسبہ نفس ہے۔ محاسبہ نفس کا فلسفہ بھی وہ ہی ہے کہ ہم کو اپنے نظریات و افکار اور اپنے کاموں کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا چاہیے جو کہ ہماری اپنی اصلاح کے لیے ضروری ہے۔
مصنف نے ایک مثال سے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ لوگ جو بچپن سے کامیاب ہوتے آئے ہوں جب اچانک ناکامی کا سامنا کرتے ہیں تو ہمت ہار بیٹھتے ہیں، ایسے ہی وہ لوگ جنہوں نے مشکلات کا سامنا نہیں کیا مشکلات پڑنے پر پریشان ہو جاتے ہیں جبکہ وہ لوگ جنہوں نے شروع میں ہی مشکلات کاٹی ہوں ان کے لیے نئی مشکل کوئی بڑی پریشانی کا باعث نہیں بنتی۔
دینی نکتہ نظر سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے جب ہم ہجرت سے پہلے ایمان لانے والے اورہجرت کے بعد ایمان لانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درجات میں فرق کو دیکھتے ہیں۔ ایسے ہی فتح مکہ سے قبل ایمان لانے اور بعد میں ایمان لانے
والوں میں فرق ہے۔ کیونکہ قبل فتح و ہجرت جن اصحاب رضی اللہ عنہم نے مشکلات کا سامنا کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمات کو خصوصی طور پر پسند کیا تب ہی ان کے مقامات تک کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔
مشکلات کا سامنا کرنا ان کا مقابلہ کرنا اور ان کو حل کرنا انسان کی کامیابی کی ضمانت ہے خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مشکل کے بعد آسانی کا ذکر فرما کر اس پر مہر ثبت کر دی ہے۔
اپنے موضوع کے لحاظ سے Matthew Syed کی یہ بہترین کتاب ہے جس میں مصنف نے اپنے قائم کردہ مقدمات کو روز مرہ کی مثالوں سے سمجھایا اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔