حصولِ رزق کے لیے عام طور پر انسان اپنی دوڑ دھوپ اور وسائل واسباب کی جمع و تفریق پر اعتماد کرتا ہے ۔لیکن کائنات کے باقی نظام کی طرح رزق کے نظام کی کنجی بھی اصل میں انسان کی سعی و کوشش کے ہاتھ میں نہیں بلکہ رزّاق کے دست قدرت میں ہے۔ اگر چہ انسانوں کی دنیا کے اکثر نظام مالک نے انسانوں ہی کی محنت اور تدبیر سے جوڑ رکھے ہیں لیکن رزق کے معاملے کی نوعیت کچھ الگ سی دکھائی دیتی ہے ۔ اس کے حصول کے لیے محنت ، کوشش اور تدبیر و سعی اگرچہ لازم ہے لیکن رزق کی مقدارصلاحیت، لیاقت ، قابلیت سے زیادہ ،مالک کی قبولیت سے وابستہ ہے۔ وہ انسانوں کی آزمایش کے لیے جسے ،جتنا چاہتا ہے، عطاکرتاہے ۔تھوڑ ی محنت پہ زیادہ عطا کرے یا زیادہ محنت پہ تھوڑا، یہ اس کی مشیت اور حکمت پہ موقوف ہے ۔ اس لیے ہمارے خیال میں غربت سے نجات اور فراخی رزق کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان مادی وسائل کے ساتھ ساتھ روحانی وسائل سے بھی بھر پور کام لے تا کہ اس کا تعلق قانونِ قدرت سے بالا ترہو کررزاق کی قدرت سے ہوجائے ۔ روحانی وسائل سے کام لینا اس شحص کے لیے تو اور بھی لازم اور ضرور ی ہے کہ جو خود کو اسی ایک مالک کا بندہ سمجھتا ہو اور عمر بھر اُسی ایک کا بن کر رہنا چاہتا ہو۔
وہ جنہوں نے مالک کو بھلا رکھا ہے وہ اُن کو اسباب و وسائل کے حوالے ہی کیے رکھتا ہے اور یا پھر انہی دروازوں اور آستانوں کے حوالے کہ جہاںجہاں انہوں نے اپنے یقین وابستہ کئے ہوتے ہیں لیکن وہ جنہیں یہ دعوی ہو کہ وہ اُسی کے ہیں، انہیں وہ اسباب کے حوالے نہیں ہونے دیتا اور اگر کبھی وہ یہ طریقہ اختیار کرنے لگیں تو ان کو آزمایشوں ،بیماریوں، رکاوٹوں اور تکلیفوں سے جھنجوڑتا ہے تا کہ وہ اُس راستے پہ واپس آجائیں، جو ا ن کے مالک کا پسندیدہ ہے ۔ ہمار ی اس تحریر کے مخاطب بھی اصلاً وہی مسلمان ہیں کہ جن کا یہ دعوی ہے کہ وہ اسی ایک کے ہیں اور انہیں اسی کے درسے لینا ہے ۔اُن سے ہماری گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کے مطالعے سے درج ذیل روحانی اسبا ب کی نشاندہی ہوتی ہے اگر وہ چاہتے ہیں کہ انہیں حلال رزق آسانی ، فراخی او رعز ت سے ملتا رہے تو انہیں اپنی محنت کے ساتھ ساتھ ان وسائل سے بھی بھر پور کام لینا چاہیے ۔ہمارے خیال میں وہ وسائل درج ذیل ہیں:۔
۱۔تقویٰ اختیار کرنا
وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاہلا ۲ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا(سورہ طلاق ۲۔۳)جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اْس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اْسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اْس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے اْس کیلیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰھُمْ بِمَاکَانُوْایَکْسِبُوْنَ ہ۹۶ (سورہ اعراف ۹۶)
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوٰی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اْنہوں نے تو جْھٹلایا، لہٰذا ہم نے اْس بْری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔
۲۔دعا ، توبہ ، استغفار
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ج اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ہلا ۱۰ یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا ہلا ۱۱ وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا ( سورہ نوح ۱۰۔۱۲)میں نے کہا اپنے ربّ سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا۔
وَ ٰیقُوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ (سورہ ہود ۵۲)
اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے ربّ سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔
وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ ط وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ (سورہ ہود ۳)
اور یہ کہ تم اپنے ربّ سے معافی چاہو اور اْس کی طرف پلٹ آئو تو وہ ایک مدّت ِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
۳۔توکل
وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاہلا ۲ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا(سورہ طلاق ۲۔۳)جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اْس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اْسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اْس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے اْس کیلیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔
عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کر و کہ جیسا کہ اس کا حق ہے تو تمہیں پرندوں کی طرح روزی عطا کی جائے گی کہ وہ صبح اپنے گھونسلوں سے روزی کی تلاش میں خالی پیٹ نکلتے ہیںاو رشام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں۔(شیخ البانی سللۃ الصحیحہ ۳۱۰)
۴۔اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد’‘
(سورہ ابراہیم ۷)اور یاد رکھو، تمہارے ربّ نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کْفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
۵۔اللہ کے راستے میں دل کھول کر خرچ کرنا
قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُلَہٗ ط وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج وَھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْن (سورہ سبا ۳۹)
ان سے کہو میرا ربّ بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کْھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تْلا دیتا ہے۔ جو کچھ تم خرچ کردیتے ہو اْس کی جگہ وہی تم کو اَور دیتا ہے ، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے۔
ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ اللہ کہتے ہیںاے ابن آدم تم خر چ کرو میں تم پر خرچ کروں گا۔(مسلم)
حضورﷺ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نے کہاایک شخص نے بادلوں سے یہ آواز سنی کہ اے بادلو، جائو اور فلاں شخص کے کھیت کو پانی دو۔تو بادل فوراً ایک پہاڑی پر برسنا شروع ہوئے اور پہاڑی سے پانی ایک نالے میں جمع ہوا اور ایک کھیت کی طرف چل پڑا۔ یہ آدمی بھی پانی کا پیچھا کرتے ہوئے اس کھیت تک جا پہنچا۔وہاں دیکھا کہ ایک آدمی اپنی فصل کو بارش کا یہ پانی لگا رہا ہے ۔اس آدمی نے کھیت والے سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے اس آدمی نے وہی نام بتایا جو اس نے بادلوں سے سنا تھا۔ تب کھیت والے نے پوچھا کہ تم میرا نام کیوں پوچھتے ہو تو اس نے بادل کا قصہ بیان کیا۔کھیت والے نے کہا کہ اس کی وجہ اور کوئی نہیں، سوائے اس کے کہ جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو میں اس کے تین حصے کرتا ہوںایک حصہ اللہ کے راستے میں صدقہ کردیتا ہوں ایک خود رکھتا ہوں اور ایک دوبارہ اسی کھیت پر لگا دیتا ہوں۔(مسلم)
۶۔حج و عمرہ کی کثرت
عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس کا مفہو م یہ ہے کہ حج و عمر ہ کثرت سے ادا کیاکرو یہ دونوںغربت اور گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی کو میل سے صاف کر دیتی ہے اور مقبول حج کا اجر تو صرف جنت ہے ۔(سنن ترمذی)
۷۔صلہ رحمی اختیار کرنا
ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کامفہوم یہ ہے کہ جس کو اس بات کی خواہش ہو کہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ کیا جائے تو وہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی اختیار کرے ۔(بخاری) بخاری میں حضرت انس بن مالک سے ایسی ہی ایک اور روایت بھی مروی ہے ۔
۸۔کمزوروں اور غریبوں کی مدد کرنا
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ تمہارے کمزوروں کی وجہ سےتمہیں رزق دیا جاتا ہے اور دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد کی جاتی ہے ۔( بخاری)
۹۔ہاتھ پائوں توڑ کر نہ بیٹھنا بلکہ حصول رزق کے لیے حتی المقدور حلا ل کوشش کرتے رہنا
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ۱۰ وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْر’‘ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہ خَیْرُ الرّٰزِقِیْن (سورہ جمعۃ ۱۰۔۱۱)
پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔ اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
وَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّھَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَآ اٰیَۃَ الَّیْلِ وَجَعَلْنَآ اٰیَۃَ النَّھَارِ مُبْصِرَۃً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ ط وَکُلَّ شَیْئٍ فَصَّلْنٰہُ تَفْصِیْلًا ( سورہ الاسرا ،۱۲)دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نْور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے ربّ کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو۔ اِسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیَّز کر کے رکھا ہے۔
۱۰۔آخرت کو اپنا اصل مسئلہ بنا لینا
عبدالرحمان بن عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا جس کامفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ جو دنیا کو اپنا نصب العین بنا لیتا ہے اللہ اس کو دنیا ہی کے حوالے کر دیتا ہے حالانکہ اسے دنیا سے ملے گا اتنا ہی جتنا اس کے مقدر میں ہے لیکن جو آخرت کو اپنا نصب العین بنا لیتا ہے تو اللہ اس کے کاموں کا کفیل ہو جاتا ہے اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور دنیا اس کے قدموں میں ذلیل ہو کے چلی آتی ہے ۔(البانی السلسلۃ الصحیحہ۹۵۰)
٭ قرآن وسنت کا گہرا مطالعہ رکھنے والے اہل علم آپ کے لیے مزید اسباب کی نشاہدہی بھی کر سکتے ہیں اس لیے انکی طرف رجوع کرنا بھی اہم ہے ۔٭