جہاں تک تربیت کی بات ہے تو سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ ہماری مستردیت اور ناکامیاں ہی ہم میں کامیابی کے حصول کی سچی آگ بھڑکاتی ہیں۔ لہذا اپنے بچوں میں اعتماد کو بحال کریں، انہیں پہلے اپنے 'آپ' اور اپنی صلاحیتوں پر فخر کرنا سیکھائیں۔ اس کے بعد اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ کامیابی کی جستجو کی آگ میں بھسم نہ ہو جائیں بلکہ اعتدالیت اختیار کریں، میانہ روی اور عاجزی انتہائی اہم خصوصیات ہیں۔ انہیں یہ سکھائیں کہ بہت اونچی پرواز کو اپنا مقصد حیات مت بنائیں، مبادا وہ سورج کے انتہائی قریب جا کر آئیکارس کی مانند اپنے پر ہی جلا بیٹھیں۔ سورج سے توانائی ضرور حاصل کریں لیکن اس کی بھسم کر ڈالنے کی خاصیت سے محفوظ فاصلہ برقرار رکھیں۔انہیں بتائیں کہ ان کی پرواز کے راستے کا تعین اونچائی کی نسبت طویل اور مستقل فاصلے پر ہونا چاہئے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کتنی اونچی اڑان بھریں بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ کتنی طویل اڑان بھرتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ریاضیات کے ساتھ ساتھ جغرافیہ، تاریخ اور فلکیات کو بھی بخوبی سمجھتے ہوں۔ ان کو انگریزی کے ساتھ ساتھ ایک دوسری زبان چائنیز،مینڈرین یا ہندی بھی سکھائیں ، یہ صلاحیت انہیں 2.2 بلین کی بجائے 4 بلین افراد سے منسلک ہونے میں مدد کرے گی۔ اور اگر وہ یہ تینوں زبانیں سیکھ لیتے ہیں تو یہ انہیں دنیا کے استاد بنا دیں گی۔انہیں دنیا کا 'نقشہ' ازبر یاد کروا دیں، اس سے انہیں اپنے مسکن کو اچھی طرح جاننے میں مدد ملے گی، مزید برآں انہیں کپلنگ کی 'اگر' اور سقراط کی 'معافی' جیسی شہرہ آفاق تصانیف پڑھائیں!
فوری تیز بھاگنا اور پھر تھک کر گر جانا ٹھیک عمل نہیں ہے۔ زندگی کا سبق 'کچھوے اور خرگوش' کی کہانی سے اخذ کریں۔ یہ دونوں کردار عظیم اساتذہ ہیں۔ خرگوش کے کردار سے تیز بھاگنے کا اور کچھوے سے تمام مشکلات کے باوجود صبر سے چلتے رہنے کا سبق ملتا ہے۔ 'خرگوش' کا 'پوری قوت سے تیز بھاگنا' ہمیں بتاتا ہے کہ حد سے بڑھی خوداعتمادی آپ کو گہری نیند کی طرف لے جاتی ہے۔
ہمارا مقصد حیات 'خیالات کا تاجر اور محبت کا سماجی کاروباری' بننا ہے۔ میرا ہر گھنٹہ پیسہ کمانے کے لئے ننگے ناچ میں صرف ہوسکتا ہے لیکن میں اس تصور کو یکسر مسترد کرتا ہوں۔ اس ناگوار حرکت میں خود کو مشغول رکھنا میرے لئے انتہائی نازیبا بات ہے، میں اپنے بنیادی اہداف کے طور پر فکر اور خود تعمیری کا انتخاب کرتا ہوں۔انہیں وقت کے زیاں اور سودمند مسرت کے حصول کا گر سکھائیں۔ یہی جینے کا فن ہے، بہت سے لوگ اس پر عبور حاصل کرنے کی سعی میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ خیال زبردستی ٹھونستے ہیں کہ کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ زبردست ملازمت حاصل کرنے کے لئے اسکول میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔دیکھئے مستقل ملازمت یا تعلیمی درجہ بندی کبھی بھی مقصد تعلیم نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسکا مقصد 'علم' کا حصول ہونا چاہئے، آپکے بچے دنیا سے متعلق جتنا زیادہ جانیں گے، وہ اتنا ہی اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے نبھانے کے قابل ہوں گے۔ اس سے ان میں دنیا کے محروم طبقے کے مصائب اور 'درد و الم' کے بارے میں کچھ کرنے کی انتہائی مطلوبہ خواہش اور تعلق پیدا ہوگا۔
تعلیم کا حقیقی مقصد بچوں میں آزادانہ فکر اور علم کو بڑھاوا دینا اور کاروباری رسک اٹھانے کی صلاحیت و حوصلہ پیدا کرنا ہونا چاہئے۔ان کا متعدد بار ناکام ہو جانا ناممکنات میں سے نہیں ہے، لیکن انہیں یہ سکھائیں کہ اپنی ناکامیوں سے ڈرنے کی بجائے ان سے سبق سیکھ کر کوشش کریں کہ اگلی مرتبہ نسبتاً بہتر طور پر ناکام ہوں۔ انکی پرورش 'سرحدی بندشوں سے آزاد دنیا' کے تصور کے ساتھ عالمی شہری کے طور پر کریں، ہم ایک عظیم انقلاب نو کے دھانے پر کھڑے ہیں، لہذا انھیں پچھلی صدی کی دقیانوسی روایات یا قدیم نظریات کی تعلیم نہ دیں، بلکہ تیس سال آگے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں مستقبل کی تربیت دیں۔
آپ اس ترکیب کو کسی مکتب کے معلم کے پاس لے جائیں وہ اس کو تباہی کا نسخہ قرار دے گا، لیکن میں پھر بھی بار بار یہی کام کہوں گا۔ بیکار مہنگے نجی اسکولوں پر اپنا پیسہ ضائع نہ کریں، اپنے بچوں کے لئے ان زبانوں کے اساتذہ کی خدمات حاصل کریں جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔
اب ایسا کریں کہ آج ہی ایک بڑے سائز کا
'دنیا کا نقشہ' خرید کر اسے اپنے بچوں کے کمرے کی دیوار پر لگائیں اور انہیں ہر رات سونے سے پہلے کسی کہانی کی طرح سمندروں، بحروں، جھیلوں اور پہاڑوں کے بارے میں سکھائیں۔