نصیر احمد ناصر
دکھ برگد سے گھنا ہے
دھیان کی اوجھلتا میں
گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا
کہ دکھ تو عورت کی کوکھ سے پھوٹتا ہے
وہ عورت ہی تھی
جس نے اسے جنم دے کر موت کو گلے لگا لیا
اور وہ بھی
جسے وہ بستر میں سوتا چھوڑ آیا تھا
عورت تھی
اور حالتِ مرگ میں اسے
دودھ اور چاول کی بھینٹ دینے والی بھی عورت تھی
وہ کپل وستو کا شہزادہ
دو پہیوں پر چلتی بیل گاڑی
اور گاڑی بان کو دکھ سمجھتا رہا
اور بڑھاپے، بیماری اور موت پر
قابو پانے کی کوشش کرتا رہا
لیکن اتنا نہ جان سکا
کہ گیان دھیان انچاس دنوں کا نہیں
ساری عمر پر محیط ہوتا ہے
اور عرفان و آگہی کا دریا
حقیقی زندگی کے کناروں سے پھوٹتا ہے
گوتم نے غزہ نہیں دیکھا
وہ عراق افغانستان اور شام نہیں گیا
اس نے کرچی اور کوئٹہ بھی نہیں دیکھے
بوری بند لاشیں
اور خودکش دھماکوں سے اڑتے ہوئے اعضاء نہیں دیکھے
بحرِ متوسط کے ساحل پر اوندھے پڑے ہوئے ایلان کُردی
اور دریائے ناف کے کنارے
کیچڑ میں لت پت شوحیات کو نہیں دیکھا
افریقہ میں دودھ سے عاری ڈھلکی ہوئی سیاہ چھاتیاں
اور مرتے ہوئے آبنوسی ڈھانچے نہیں دیکھے
گوتم نے عظیم جنگیں
اور آبدوزوں میں مرنے والوں کی آبی قبریں نہیں دیکھیں
گوتم نے مارکسی ادب نہیں پڑھا
وہ پانچ اور سات ستارہ ہوٹلوں کا دربان
نہیں رہا
ورنہ نروان کے لیے کبھی فاقے نہ کرتا
آج گوتم اگر زندہ ہوتا
تو دکھ کا انتم سرا کھوجتے ہوئے
واڈکا پی کر
کسی غیر ملکی محبوبہ کے نیم برہنہ پہلو میں
شانتی کی نیند سو رہا ہوتا
(بحوالہ ''مونجھ سے مزاحمت تک''، رانا محبوب اختر، جھوک پبلشرز دولت گیٹ، ملتان، 2018، ص 47۔50)