مسلکی تعصب اور اتحاد کا راستہ

مصنف : سید اسرار احمد بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2021

* بریلوی مشرک نہیں ہوتے ۔بات صرف اتنی ھے کہ نبی علیہ السلام اور بزرگوں سے عقیدت و محبت کے اظہار میں اعتدال سے بڑھ جاتے ہیں۔یہ بنیادی طور پر ایک قلبی رحجان ہے فی نفسہ اس میں کوئی خرابی نہیں بلکہ درست سمت اور سلیقے سے ہو تو نہایت ہی پسندیدہ اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔ہوتا یہ ہے کہ دوسرے مسالک کے احباب شرک و بدعات کے رد میں نیک جذبوں کو بھی روندتے چلے جاتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ آپ کا منصب داعی کا ہے داروغہ کا نہیں۔
اسی طرح 
* دیوبندی اکابر پرست نہیں ہوتے معاملہ کچھ یوں ہے کہ دین کے فہم و تشریح میں باقاعدہ سند یافتہ علماء کرام اور صدیوں سے چلتی سلف و صالحین کی دینی روایات کو اہمیت دینے کی کوشش میں اکثر اعتدال کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔یہ بھی ایک قلبی و فکری رحجان ہے اور درست سمت و سلیقے سے ہو تو نہایت پسندیدہ اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔ہوتا یہ ہے کہ دوسرے مسالک کے احباب اکابر پرستی پر نقد و تبصرہ کرتے ہوئے الفاظ و محاورات کے استعمال میں اس بات کا لحاظ نہیں رکھتے کہ ہمارا منصب داعی کا ہے داروغہ کا نہیں۔
بعینہِ 
* اہلحدیث اور سلفی حضرات بزرگوں اور پیغمبروں کی عظمت کے انکاری نہیں ہوتے بات صرف اتنی ہے کہ اللہ کے سامنے ہردوسری ہستی کی تصغیر کے قائل ہیں اور توحید ہی کو اسلام کی اساس سمجھتے ہوئے شرک کے ادنی سے شائبے کو بھی ایمان کے خلاف سمجھتے ہیں۔یہ بھی ایک قلبی و فکری رحجان اور اپنی حقیقت میں نہایت پسندیدہ اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ دوسرے مسالک کے احباب ان کی اس حساسیت کو اپنے مسلک اور قلبی رحجان کیخلاف سمجھتے ہوئے ان سے متوحش ہوتے ہیں یہ بات سمجھے بغیر کہ ہمارا منصب داعی کا ہے داروغہ کا نہیں۔
* ان تینوں مکاتب فکر کے پیروکار اگر اس طرز پر سوچنا شروع کردیں تو بالیقین فاصلے سمٹ جائیں اور غیرضروری اختلاف کا بھی خاتمہ ہوجائے۔لیکن معاملہ چونکہ فرقہ پرستی کا ہے اور فرقہ پرستی اپنی حقیقت میں دینداری کے عنوان پر دکانداری چمکانے کا نام ہے اس لیے بے جا طورپر ایک دوسرے کے رحجانات کو بجائے خوش اسلوبی سے قبول کرنے اور وسعت قلبی اپنانے کے ایک دوسرے کے رد میں کتابیں اور رسالے چھاپتے رہتے ہیں۔اور بعض ظالم تو قرآن کی آیات اور احادیث نبوی کو بھی اپنے حق میں توڑ مروڑ کرپیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ احباب فروعی اختلاف کی شدت ثابت کرنے کیلیے ان تینوں مکاتب فکر کی کتابوں سے بہت کچھ خرافات جمع کرکے لاسکتے ہیں۔لیکن اپنی حقیقت میں وہ سارا مواد دریا برد کردینے کے قابل ہے۔اتفاق رائے کیلیے امت کے پاس اتنا وسیع ذخیرہ موجود ہے کہ اس قسم کا بیجا اختلاف سوائے اناپرستی کے اور کچھ نہیں۔
* محض ان تین مکاتب فکر کی بات نہیں (چند ایک کو چھوڑ کر) دیگر بہت سے مکاتب فکر کے ہاں بھی اختلاف کی نوعیت اکثر ایسی ہی ہے کہ اپنی بنیادوں میں جسے آپ رحجانات اور بعض صورتوں میں زاویہ نگاہ کا فرق کہہ سکتے ہیں۔اور جہاں اختلافات کی وجوہات گہری ہیں تب بھی قرآن جیسی محفوظ کتاب جسے اللہ نے فرقان (حق و باطل میں فرق کرنیوالی کتاب کہا) اور نبی علیہ السلام کی محفوظ سنت کی موجودگی میں رائے کا اختلاف کوئی بڑی اہمیت نہیں رکھتااور جو کچھ علمی اختلاف ہے بھی تو وہ ہرحال میں رہے گا اور قیامت تک رہے گا۔ 
لوگ جب تک سوچتے رہیں گے مکاتب فکر بنتے رہیں گے ۔اگر یہ اختلاف ایک دوسرے کی تکفیر اور نفرت و شرانگیزی کی حدوں تک نہیں پہنچتا تو یہ اختلاف بھی امت کے لیے بعض پہلوؤں سے رحمت بن سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے سوچنے والوں کو نئے نئے زاوئیے عطاکرتا ہے اور مسائل کے حل کے لیے نئی راہیں نکلتی ہیں۔لہذا اتحاد اختلاف رائے کو ختم کرنے سے نہیں بلکہ اختلاف رائے کو گوارا کرنے سے پیدا ہوگا۔اور اس کی سب سے بڑی بنیاد تقویٰ اور خدا کے حضور جوابدہی کا سچا احساس ہے۔
* ایک جگہ کچھ لوگ بحث و جدال میں مصروف تھے۔کسی نکتے پر اتفاق ہی نہیں ہورہا تھا کہ اچانک وہاں سانپ نکل آیا, گھبرا کر سارے اس سانپ کو مارنے کیلیے متحد ہوگئے۔حالت سکون میں جو لوگ کسی بھی نکتے پر متفق نہیں تھے حالت خوف میں سوفیصد متحد اور یک جان ہوگئے۔یہی معاملہ آخرت کی جوابدہی کے خوف کا بھی ہے اگر حقیقی معنوں میں اللہ کے حضور جوابدہی کا خوف امت کے تمام طبقات میں زندہ ہوجائے تو اتحاد کا قائم ہونا ویسا ہی یقینی ہوجائے جیسا سورج کے طلوع ہوتے ہی دن کے نکلنے کا...!!!''