پانڈہ اور انسان

مصنف : محمود فیاض

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2021

مادہ پانڈہ جب بلوغت کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے بدن سے ایک خاص قسم کا پسینہ نکلنے لگتا ہے جس کی مہک شدید ہوتی ہے۔ اس مہک کو لے کر جب مادہ پانڈہ جنگل سے گزرتی ہے تو درختوں سے اپنا بدن رگڑتے ہوئے گزرتی ہے جس سے یہ پسینے کی مہک ان درختوں سے لگ جاتی ہے۔ نر پانڈہ اس مہک کو سونگھ کر متوجہ ہوتا ہے، اور پیچھا کرتا ہے، بالأخر مادہ و نر پانڈہ مل جاتے ہیں اور یوں انکی نسل آگے بڑھتی رہتی ہے۔ 
قدرت کے پانڈہ کی نسل کو بڑھانے کایہ انتظام فطرت کی ایک مثال ہے۔ ایسا ہی انتظام قدرت نے تمام مخلوقات کے لیے کر رکھا ہے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے، اپنی جسمانی ساخت میں جانوروں ہی کا حصہ ہے۔ اسکے فطری افعال بھی انہی سے ملتے جلتے ہیں اس لیے مشاہدہ کرنے والے بھی آسانی سے مشترک خصوصیات نکال سکتے ہیں۔ انسانی مادہ جب بلوغت کی عمر کو پہنچتی ہے تو اسکے جسم میں بھی ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جو انسانی نر کے لیے توجہ کا باعث بنتی ہیں۔ قدرتی انتظام کے نتیجے میں مادہ میں توجہ کی شدید خواہش بھی جنم لیتی ہے۔ جیسے مادہ پانڈہ اپنابدن جھاڑیوں سے رگڑتے ہوئے گزرتی ہے، ایسے ہی انسانی مادہ بلوغت کے پہلے سالوں میں یعنی ٹین ایج میں توجہ کی شدید خواہش کے تحت ایسی حرکات کرتی ہے جو جنس مخالف کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ بننا سنورنا، سنگھار کرنا، لباس میں جسم کی دلکشی نمایاں کرنا وغیرہ انہی میں سے چند ایک ہیں۔ دوسری جانب نر پانڈہ کی طرح انسانی نر بھی بلوغت کے ہارمونز سے بے چین پھرتا ہے کہ اسکو مادہ کی مہک کہیں سے ملے اور وہ اپنے پنکھ پھیلائے۔ 
انسان جب تک جنگل میں رہا ہوگا فطری ضروریات کا یہ طریقہ چلتا رہا ہوگا۔ مگر مہذب سماج کے بننے کے بعد یا الہامی ہدایات کے زیر اثر آنے کے بعد انسان پر کچھ اخلاقی ذمہ داریاں عائد کر دی گئیں۔ آخری الہامی مذہب نے توازن اور فطری مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے ''مادہ پانڈہ'' کو اپنی زیب و زینت چھپانے کے لیے کہا اور ''نر پانڈہ'' کو اپنی نظر جھکا کر چلنے کا حکم دیا۔ 
انسانی فطرت اور جبلی تقاضوں کے شناور، سائنسدان اور فلسفہ سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ایسا ہی بہتر نظام قرین انصاف ہے۔ مگر آپ موجودہ دور کی برین واشڈ فیمنزم کا کرشمہ دیکھیے۔ مادہ پانڈہ کو جسم اور مرضی کی پوری آزادی دینے کے نعرے لگاتے ہوئے وہ نر پانڈہ پر مزید پابندیوں کی ڈیمانڈ کرتی ہیں۔ آپ مذہب کو بھی نہیں مانتی نہ مانیں، مگر فطرت اور جبلت کے تقاضوں کو تو سمجھیں۔ قدرت نے نسل انسانی کے چلنے کا جو نظام رکھا ہے اس سے چھیڑ چھاڑ معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے۔ 
فطرت نے عورت کے جسم میں کشش اور مرد کی نفسیات میں اس کشش کی طرف توجہ کا انتظام نسل انسانی کی بقا کے لیے رکھا ہے۔ اس پر آپکی ذاتی خواہشات سے بھرا نظام لاگو نہیں ہو سکتا۔ آپ کو معاشرے میں رہنا ہے تو اس نظام کو سمجھ کے چلنا ہوگا۔ 
جن معاشروں نے عورت کو مادہ پانڈہ والی آزادی دی ہے، وہاں نر پانڈہ بھی آزاد ہیں، اور نتیجہ جنگل والا ہے۔ نر مزید مادائیں تلاش کر رہے ہیں، اور مادائیں پریگننٹ سنگل مدرز بنی گھوم رہی ہیں۔ 
٭٭٭