میری مرضی کہاں تک ہے؟لوگ اس باریک نکتے کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔توجہ فرمائیں۔
اللہ تعالی نے بھی قرآن پاک میں اصول و ضوابط بتا دئیے ہیں۔ اور انسان کو کان آنکھ دل دماغ تمام ضروری لوازمات اور صلاحیتیں دے کر اس کی مرضی پر ہی چھوڑ دیا ہے کہ اب وہ اپنے لئے جو چاہے راہ اختیار کر لے۔قابل غور بات ہے۔ انسان کو علم اور صلاحیتیں عطا کر کے اس کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے ۔کہ وہ جو چاہے راہ اختیار کرے۔
اپنے اس جسم پر جو قانون چاہے نافذ کرے اسے جو چاہے پہنائے جو چاہے کھلائے وغیرہ وغیرہ۔
1۔۔۔أَعوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجیم
اِنَّا ہَدَینٰہُ السَّبِیلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُورًاہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا
اور پھر انسان کو اجازت دی کہ اچھائی اور برائی کو مکمل طور پر اور صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔اور کوئی بھی راہ اختیار کرنے میں کوئی جبر نہیں۔
لَا اِکرَاہَ فِی الدِّینِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَیِّ فَمَن یَّکفُر بِالطَّاغُوتِ وَیُؤمِن بِاللّٰہِ فَقَدِ استَمسَکَ بِالعُروَۃِ الوُثقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے، اس لئے جو سرکشی کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے
اپنی ذات کی حد تک اسے ہر طرح کی آزادی ہے کہ وہ اپنے ساتھ کیا کرتا ہے
مگر جہاں وہ کسی دوسرے انسان کی جان مال عزت کو نقصان پہنچاتا ہے تو پھر اس وقت ریاست کو پابند بناتا ہے کہ وہ اس کی خبر لے۔اپنی ذات میں وہ کیا پہنتا ہے کیا نظریہ رکھتا ہے کس قدر اس پر عمل کرتا ہے اس میں وہ آزاد ہے۔
اب رہی بات اسلام کی اور اس کے مختلف موضوعات پر مختلف احکامات کی تو اس کی تفسیر اور تشریح میں اختلاف تھا ہے اور رہے گا ۔یہاں پھر معاملات کنفیوژن کا شکار ہونگے کوئی کچھ کہے گا کوئی کچھ کہے گا۔
اور ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج بھی کیا جاتا رہے گا۔تو انسان کو سوچ کی اور کوئی بھی طریقہ اختیار کرنے کی اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت تو اللہ تعالی نے دی ہے۔اور اس پر اس معاملے میں جبر نہیں کیا جا سکتا۔نہ ہی اللہ تعالی نے جبر کرنے کی کسی کو اجازت دی ہے۔ یہاں تک کہ رسولوں کو بھی جبر کرنے سے منع فرمایا ہے۔صرف تعلیم اور آگاہی دی جاتی سکتی ہے۔پھر جس کی مرضی جو راہ چلے اور ہاں کسی بھی انسان کی جان مال عزت کو نقصان پہنچانے کی اجازت ہر گز ہر گز نہیں ہے ۔ اور اس کے لئے بھی ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اپنے جسم کے ساتھ کوئی کیا کرتا ہے اس کی اسے اجازت ہے۔یہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ہاں مگر اس وارننگ کے ساتھ کہ وہ جو بھی کرتا ہے اسے ایک دن اس کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔اور یہی آزادی اور اپنی مرضی کرنا ہی اس کا امتحان ہے کہ اس نے کیا سنا دیکھا اور کیا سمجھا اور کیا عمل کیا۔اور جس کے لئے کچھ معاملات میں وہ صرف خدا کے سامنے جواب دہ ہے اور کچھ معاملات میں خدا اور ریاست دونوں کے سامنے جواب دہ ہو گا۔اگر یہ آزادی نہیں یعنی فریڈم آف چوائس نہیں تو پھر اللہ تعالی کی طرف سے امتحان ہی نہیں ہو پائے گا۔
کہ انسان کہے گا مجھے تو چوائس ہی نہیں تھی مجھ پر ہر بات جبرا'' مسلط کی گئی تھی۔تو میرا کیا قصور ہے۔ اور پھر جزا اور سزا کا تصور بھی اس آزادی انتخاب و اختیار کے بنا بے کار ہو جاتا ہے۔تو واضح ہوتا ہے۔ہر انسان کچھ حد اپنی زندگی میں اپنی ذات کے لئے اپنی مرضی کی چوائس لینے میں آزاد ہے۔مگر ہم یہ باریک نکتہ نہیں سمجھتے کہ وہ حد کیا ہے؟اور دوسروں کی ذاتی چوائس میں دخل اندازی کرتے ہیں جس کی اجازت نہیں ہے۔دیگر معاملات کی طرح ہم اس معاملے میں بھی حد سے گزرنے والی قوم بن چکے ہیں۔اور ہاں انسان میں عورت مرد دونوں شامل ہیں۔