جنوری ۲۰۲۰ سے ہی ایسی خبروں کا آغاز ہو گیا تھا کہ جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ چین کے شہر ووہان کو ایک ایسی وبائی مرض نے آن لیا ہے جو بہت مہلک اور خطر نا ک ہے ۔پھر یہ بتایا گیا کہ یہ مرض بنیادی طور پر انسان کے نظام تنفس پر حملہ آور ہو کر انسان کو کھانسی نزلے اوربخارمیں مبتلا کر تی ہے اور بالأخر پھیپھڑوں کو ناکار ہ بنا دیتی ہے۔ اس کا وائرس ،جسے کووڈ ۱۹ کا نام دیا گیا ،ناک ، کان اور آنکھ کے راستے جسمِ انسانی میں داخل ہوتا ہے لہذا حفظ ماتقدم کے طور پر چہرے پر ماسک پہننا چاہیے۔ سکول میں بھی دیکھا گیا کہ بعض طلبا کو ان کے والدین ماسک پہنا کر بھیجنے لگے اور گلیوں بازاروں میں بھی ماسک پہنے لوگ نظر آنے لگے۔یہ گویا اس وبا کی آمد کا اعلان تھا ۔ میں نے بھی فروری کے آخر میں بعض میڈیکل سٹورز سے ماسک حاصل کرنے کی کوشش کی مگر بتایا گیا کہ یہ ناپید ہو چکے ہیں کیونکہ ڈیمانڈ اچانک بڑھ گئی ہے اس لیے ان کی شارٹیج ہو گئی ہے ۔ دوست احباب کی محفلوں میں اس پر گفتگو ہونے لگی ۔ کہا گیا کہ یہ وائرس چمگادڑ سے پھیلتا ہے اورچین والے چونکہ چمگادڑ کھاتے ہیں اس لیے وہ اس کا شکارہوئے ہیں لیکن ہر گفتگو اور بحث کا اختتام اسی بات پر ہوتا تھا کہ امید ہے کہ یہ وبا چین تک ہی محدود رہے گی اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔مگر فروری کے آخر تک تشویش ناک خبروں کا آغاز ہو گیا کہ یہ وائرس دوسرے ممالک میں بھی پہنچ گیا ہے اور بعض ممالک نے تو فلائٹس پر پابندیا ں بھی عائد کر دی ہیں۔ان خبروں سے تشویش میں اور اضافہ ہو گیالیکن پھر بھی بعض لوگ مطمئن تھے کہ جب تک ڈبلیو ایچ او اسے pandemic قرار نہیں دیتی فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
سکول انتظامیہ نے ہدایت کی کہ اگر کسی بچے کو نزلہ زکام یا کھانسی ہو تو اسے فوراً واپس بھیجا جائے۔ اسی طرح یہ بھی سنا کہ سکولوں میں ٹمپریچر جانچنے کے لیے سکینر لگائے جا رہے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے ممالک سے آنے والے بعض مسافر اس وائرس کو یو اے ای میں بھی لے آئے ہیں۔ غرض روزانہ نئی افواہ اور نئی خبر۔اسی کشمکش میں تھے کہ مارچ کے دوسرے ہفتے میں خبر آئی کہ حکومت متحد ہ عرب امارات نے تمام مساجد کو بند کر دیا ہے ۔اور پھر ہر اذان کے ساتھ یہ کہا جانے لگا‘‘ صلوا فی بیوتکم’’ یعنی نماز گھروں میں پڑھ لو۔مساجد کی بندش کے ساتھ ہی ماحول افسردہ سا ہو کر رہ گیا۔اسی اثنا میں ملک بھر میں بچوں کے لیے نرسریاں بند کر دی گئیں۔ ایک ہفتے بعد باقی سکول اور تعلیمی ادارے بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے گئے اور کہا گیا کہ آن لائن ٹیچنگ ہو گی۔بچوں کی سکول آمد کا سلسلہ تو موقوف ہو گیا مگر ہمارے سکول کی انتظامیہ نے اساتذہ سے کہا کہ وہ سکول آکر بچوں کو آن لائن پڑھائیں ۔ آن لائن ٹیچنگ کے لیے اساتذہ کی تربیت اور مطلوبہ انفرا سٹرکچر نہ ہونے کے باعث مارچ کا مہینہ تو اسی طرح گزر گیا کہ کبھی کوئی کلا س ہوتی اور کبھی نہ۔ہاتھ ملانے یا قریب بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ بار بار ہاتھ دھونے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی تاکید ہر سطح پر شروع ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن کی افواہیں گرم ہو نے لگیں۔ یورپ میں تو اس پر عمل درآمد ہونے بھی لگا تھامگر ہمارے ہاں ابھی انتظار تھا۔ بہرحال مارچ کے آخر میں پہلے تین دن کا لاک ڈاؤن کیا گیا اورپھر اپریل میں دو ہفتے کا، جو بڑھتا ہی گیا۔مجبوراً سکول کو بھی اساتذہ کو کہنا پڑا کہ وہ بھی گھر ہی سے پڑھالیا کریں۔ چنانچہ گھر کی قید شروع ہو گئی جوکہ بہت ہی منفرد اورعجیب تجربہ تھا۔ لاک ڈاؤن کے دوران دن میں تومحدودآمد ورفت کی اجازت تھی مگر رات ۹ بعض اوقات رات دس سے صبح چھ بجے تک مکمل کرفیو رہتا جس میں بغیر پرمٹ باہر جانے کی اجازت نہ تھی۔یہ لاک ڈاؤن خدا خدا کر کے عید الفطر کے بعد جاکر ختم ہوا اور کچھ آزادی حاصل ہوئی ۔اس لاک ڈاؤن نے یا ددلایا کہ آزادانہ چلت پھرت اور میل جول کتنی بڑی نعمت تھی جس سے ہم محروم ہو کر رہ گئے ۔ اس نعمت کے ہوتے ہوئے کبھی اس طرف دھیان بھی نہ گیا تھا۔وہ لوگ جو مکمل لاک ڈاؤن کے تجربے سے نہیں گزرے وہ یقینا اس کی شدت اور انسانی طبیعت اور مزاج پر اس کے اثرات کا صحیح ادراک نہیں کر سکتے ۔ تمام مالز ، شاپنگ سنٹرز ، سینما ، جم ،ساحل سمندر ، تفریحی ادارے ، پارک اور ہر قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی ۔ پرائیویٹ آمدو رفت بھی انتظامیہ کی پیشگی منظوری سے مشروط کر دی گئی اور وہ بھی صرف لازمی سروسز کے افرادکے لیے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے گلیاں اور بازار ویران ہوکر رہ گئے ۔گروسری کے لیے شاپنگ سنٹرز پر صرف تیس فیصد کیپسٹی کے ساتھ اجازت دی گئی وہ بھی ماسک اور دستانوں کے ساتھ۔ ہمارے قریب ہی جو الفلاح پلازا ہے اس پر شام کو باہر لمبی لمبی لائنیں نظر آنے لگیں۔ تھوڑے لوگ اند ر جاتے باقی باہر انتظار کر تے پھر ان کی باری آتی ۔کسی بھی شاپنگ سنٹر میں داخل ہونے سے پہلے ماسک اور ٹمپریچر لازمی چیک کیاجاتا۔شام چھ کے بعد سب دکانیں بند اور ہو کا عالم طاری ہو جاتا۔ جہاں رونقوں کی حکمرانی تھی وہاں اب ویرانی راج کرنے لگی۔ ہماری بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھنے والی بلی بھی اب بہت اداس نظر آنے لگی تھی کیونکہ اس کو کھانا دینے والی فلپینی خاتو ن اب نظر نہ آتی تھی اس لیے اب وہ ہر آنے والے کو غور سے دیکھتی اور پھر مایوسی سے سر جھکا لیتی۔سامنے والے ولا میں تین چار لوگ سر شام ایک میز کے گرد بیٹھ جاتے ، چائے پیتے اور گپ شپ لگاتے اورہم اپنی بالکونی سے انہیں دیکھ کر سمجھتے کہ کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہیں مل بیٹھنے کی آزادی حاصل ہے ۔مسجد چونکہ ہمارے گھر کے قریب ہے اور صاف نظر آتی ہے اس لیے اسے ہر وقت ویران دیکھ کر دل دکھتا مگر کیاکر سکتے تھے ۔ اس کا ایک خادم تھا بیچارا ، بس وہ سرشام کرسی بچھا کے باہر بیٹھ جاتا اور پھر کچھ دیر بعد اندر چلا جاتا اسی طرح میں دیکھتاکہ وہ تہجد کے وقت مسجد کی روشنیاں آن کر دیتا اور پھر فجر کی اذان کے بعد بند کر دیتا۔کم و بیش ساڑھے تین ماہ یہی صورت حال رہی اور یکم جولائی کو مسجدوں کو نمازیوں کے لیے کھولا گیاپورے ایک سو سات دن بعد اور وہ بھی اس طرح کہ چھ چھ فٹ کے فاصلے پر لوگ کھڑے ہو ں گے ۔ وضواور استنجا خانے بند رہیں گے ۔نمازی گھروں سے وضو کر کے آئیں گے ،اپنا اپنا جائے نماز ساتھ لے کر آئیں گے اور فرضوں کی ادائیگی کے فوراً بعد مسجد سے چلے جائیں گے۔جمعہ کی نماز پر پھر بھی پابند ی برقرار رہی اور یہ پابندی بالأخر تین دسمبر ۲۰۲۰ کویعنی ۳۷ ہفتوں بعد ختم ہو ئی ۔ اس طرح زندگی میں پہلا موقع ہے کہ مسلسل ۳۷ جمعہ نہیں ادا کیے جا سکے ۔
سارادن گھربند رہنا اور وہ بھی چھوٹے سے گھر میں ، انتہائی اذیت ناک تجربہ بن کے رہ گیا۔رات ۹ کے بعد سٹرلائزیشن اور سینٹائزیشن کی مہم شروع ہو گئی اور گاڑیاں شہر بھر میں سپرے کرنے لگیں اور اس کے لیے ہر ایک کے موبائل پر میسج آناشروع ہو جاتے ۔باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ ایک چھوٹی سی بالکونی تک محدود ہو کر رہ گیا۔ وہاں کھڑے ہوتے تو بعض اوقات گھنٹہ گھنٹہ گزر جاتا،کوئی گاڑی تک نہ گزرتی اور نہ ہی کوئی بندہ بشر۔ شام کو البتہ لوگ گروسری کے لیے جاتے اور وہ بھی پولیس کی گاڑیوں سے ڈرتے ڈرتے ۔ پولیس کا گشت ایک معمول بن گیا۔ کسی کو بھی روک کے پوچھ لیتے کہ کہاں جا رہے ہو۔ دبئی کے بعض علاقوں میں تو باقاعدہ کرفیو نافذ کر دیا گیا۔پولیس کی گاڑیوں سے پانچ زبانوں میں اعلان کئے جاتے کہ لوگ گھروں میں رہیں۔ عربی ، انگلش ، اردو، ملیالم اور فلپیننی زبان میں۔گاڑیوں کا گشت چونکہ بڑی گلیوں اور سٹرکو ں پر ہی ممکن تھا اس لیے چھوٹی جگہوں پر لوگوں کی نگرانی کے لیے سائیکل سوار اور گھڑ سوار پولیس کا گشت شروع ہو گیا۔دن کو اجازت تھی کہ گروسری وغیرہ کے لیے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے بھی آپ سے پوچھا جا سکتا تھا۔ میں بھی شام کوواک کے لیے ڈرتے ڈرتے نکلتا اورمین روڈ سے ہٹ کر گلیوں وغیر ہ میں گھوم پھر کر آجاتا ۔ لیکن پھر بھی ایک دن پولیس وین کی نظر میں آ گیا اور پولیس وین میرے پاس آ کھڑی ہوئی اور مجھے کہا کہ اپنا فون نمبر لکھواؤ ، میں نے لکھوا دیا اور گھر چلا آیا اور بعد میں کئی دن خوفزدہ رہا کہ کہیں مخالفہ (جرمانہ) نہ آجائے لیکن اللہ کا شکر ہوا کہ انہوں نے جرمانہ نہیں بھیجا۔ انہی حالات میں اپریل کے آخر میں رمضان المبارک کا آغاز ہو گیا ۔ یہ زندگی کا پہلا رمضان تھا کہ جس میں مسجد نہ جا سکے ۔ نہ جماعت کی نماز ، نہ تراویح ، نہ جمعہ حتی کی عید کی نمازبھی نہیں۔پورا رمضان ہم تین لوگ گھر میں جماعت کرواتے رہے خاص طور پر فجر ، مغرب اور عشا اور تراویح کی آٹھ رکعت میں امام ، بیوی اور بیٹی مقتدی۔ اسی طرح عید کی نمازبھی ہم تینوں نے ادا کی ۔خیال تھا کہ عید دبئی جا کر منا لیں گے جہاں رضی( میرا بھانجا )اور اس کی فیملی تھی لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو سکا کہ عید پر حکومت نے ہر قسم کی فیملی تقریبات پر پابندی لگا دی۔پھر ہم نے خود کو یہ کہہ کے تسلی دی کہ ان شاء اللہ عیدالاضحی تک یہ پابند ی ختم ہو جائے گی اور ہم یہ عید دبئی جا کر منا لیں گے لیکن عید الاضحی پر بھی یہ پابندی برقرار رہی اور یہ عید بھی گھر پر ہی ادا کرنا پڑی۔
ادھر فلائٹس پر پابندی نے عجیب خوفناک صورت حالات پیدا کر دی تھی۔ بہت سے لوگ ایئر پورٹس پر اور بہت سے اپنے اپنے ملک میں پھنس کر رہ گئے ۔فلائٹس کی بندش نے لوگوں کو بہت کرب اور دکھ میں مبتلا کیا اور اس پابندی نے کئی الم ناک کہانیوں کو بھی جنم دیا۔میر ا بیٹا عثمان یہاں سے مارچ میں پاکستان سالانہ چھٹی پر گیا تھا اس وقت حالات اتنے خراب نہ تھے لیکن امکان بہر حال تھا کہ کہیں فلائٹس بند نہ ہو جائیں لیکن اسے منع بھی نہ کیا جا سکتا تھا کہ اسے پہلے ہی دوسال ہوگئے تھے کہ وہ پاکستان نہ جا سکاتھا چنانچہ وہ چلا گیا اور شومئی قسمت عین جس دن اس کی واپسی تھی اسی رات یو اے ای نے ہر قسم کی فلائٹس بند کر دیں نتیجتاً وہ پاکستان میں پھنس کر رہ گیااور تقریباً چھ ماہ وہاں پھنسا رہا اور اگست کے آخر میں جا کر اس کی واپسی ممکن ہوئی۔
پورے ملک میں قرنطینہ سنٹر ز بنا دیے گئے اور سفرسے واپس آنے والے ہر مسافر کے لیے پندرہ دن قرنطینہ لازم کر دیا گیا ۔ مسافروں کے علاوہ وہ لوگ جو کسی کووڈ مریض سے براہ راست کنٹیکٹ میں آئے ہوں ان کے لیے بھی لازمی کر دیا گیا کہ وہ قرنطینہ میں رہیں شروع شروع میں تو لوگو ں کوبس ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں قرنطینہ اختیار کر یں لیکن جب لوگوں سے اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے ہاتھ پہ گھڑی نما ٹریکر باندھ دیے گئے جو سو میٹر سے زیادہ کی حرکت پر الارم بجانے لگتے اور جس سنٹر سے ساتھ وہ منسلک تھے وہاں سے میسج آنا شروع ہو جاتا اوربعض حالات میں تو بھاری جرمانہ بھی عائد کر دیا جاتا۔ مجھے بھی اس اذیت ناک تجربے سے گزرنا پڑا۔ ہوا یوں کہ ہمارے ایک کولیگ کو کرونا نے آن لیا۔ انتظامیہ سے پوچھا گیا کہ اس کے کلوز کنٹیکٹ کون لوگ تھے تو انتظامیہ نے ہمارے سٹاف روم والے سب ٹیچرز کے نام دے دیے میں اور میری فیملی کم وبیش آٹھ نو ماہ کے انتظار کے بعد دبئی گئے تھے اکتوبر کے آخر میں ،کہ وہاں مجھے ہیڈ ماسٹر کافون وصول ہو ا کہ آپ محکمہ صحت سے رابطہ کریں ۔چنانچہ وہا ں سے پھر بھاگم بھاگ واپس آنا پڑا۔ یہاں آکر محکمہ صحت کے ایڈنک میں قائم کردہ سنٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ جی آپ کا نام کلوز کنٹیکٹ میں ہے اس لیے سنٹر تشریف لائیں اور ٹریکر لگوائیں۔ چنانچہ یکم اکتوبر کو وہاں جانا پڑا ۔ خالد جاوید کو ساتھ لے گیا کیونکہ ان کا نام بھی اس ‘مبارک فہرست’ میں شامل تھا وہاں پہلے انہوں نے سب کا ٹیسٹ کیا اور اس کے بعد‘مبارک گھڑی’ پہنا دی۔ جس کو بار بار چارج کرنے کی ضرورت تھی اور جس کا رابطہ ٹریکر سنٹر سے قائم تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ آپ لوگوں نے بس گھر ہی میں ر ہنا ہے ۔ گھر جا کر آپ لوگ اپنی لوکیشن ہمیں وٹس ایپ کریں گے اگر اس لوکیشن سے سو میٹر ادھر ادھر ہوئے تو جرمانہ۔سارے سوداسلف لانے کی ذمہ داری قانتہ پر آن پڑی اور ہم بالکل ہی گھر میں بند ہو کر رہ گئے ۔ یہ اللہ کا شکرہے کہ پندرہ دن کے بجائے دس دن کا حکم دیا گیا کیونکہ چاردن پہلے ہی گزر چکے تھے ۔ نو ، نومبر کو دوبارہ ٹیسٹ کروایا اور گھر سے نکلنے سے پہلے سنٹر کو فون کیا کہ ہم نے ٹیسٹ کروانے جانا ہے انہوں نے سسٹم میں فیڈ کیا تو ہم جا سکے ۔ نو کو ٹیسٹ کروا یا اگلے دن نیگیٹو رزلٹ آیا تو گیارہ تاریخ کو خداخدا کر کے اس مبار ک گھڑ ی سے جان چھوٹی ۔ انہیں نیگیٹو رزلٹ دکھایا انہوں نے سسٹم سے ہمارا نام نکالا اور ہماری جان چھوٹی۔
اس وبا کے دوران میں امارات کی حکومت نے جس قدر ٹیسٹ کیے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ تقریباً پوری آبادی کے فری ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار کیے گئے ہیں۔ پہلے پہل تویہ صورت حال تھی کہ شام ہوتے ہی ایک بڑی بس، میڈیکل سٹاف کی بھر کے آ جاتی اور ان کے ساتھ ایک پولیس کی گاڑی ہوتی ۔ میڈیکل سٹاف کی مختلف ٹیمیں بنا کرانہیں مختلف بلڈنگوں میں بھیج دیا جاتا۔ ساتھ میں ایک ایک پولیس مین بھی ہوتا اور وہ ڈور ٹو ڈور جاتے لوگوں سے پوچھتے کہ گھر میں کتنے لوگ ہیں ان کے آئی ڈی کارڈ اکٹھا کرتے اور گھنٹے بعد واپس آکر ایک ایک کو ان کے گھر کے دروازے پر کارڈ واپس کرتے جاتے اور ٹیسٹ کرتے جاتے ۔دوسرے دن رپورٹ آ جاتی۔ نیچے دکانوں اور بیچلرز کی بلڈنگزمیں وہ نیچے لائن لگوا لیتے اور ان کا ٹیسٹ کرتے جاتے اور کارڈ واپس کر تے جاتے ۔ اس طرح ہر بلڈنگ میں کئی کئی بار ہوا۔ بعد میں بلڈنگز کے بجائے وہ باہر کسی بھی فٹ پاتھ پر اپنا سازو سامان رکھ کر بیٹھ جاتے اور آتے جاتے راہگیروں کو روک کر انہیں کہتے کہ ٹیسٹ کرواتے جاؤ۔ اس طرح بلا مبالغہ کروڑوں درہم تو انہوں نے ٹیسٹوں پر خرچ کر ڈالے۔ ہمارے لیے تو محکمہ تعلیم کی طرف سے لازم کر دیا گیا کہ ہر دو ہفتے بعد ٹیسٹ کروایا جائے جسے بعد میں کم کر کے دس دن کر دیا گیا۔اس کے لیے ہر سکول کو ایک سنٹر الاٹ کر دیا جاتا کہ اس کا سٹاف وہاں سے فری ٹیسٹ کروا لے ۔شروع شروع میں تو ہم کورنش ڈرائیو تھرو میں گئے کہ جہاں دو تین گھنٹے لازماً خرچ ہو جاتے لیکن بعد میں ڈلما پارک کے پاس ایک سنٹر مل گیا جو چوبیس گھنٹے کھلا ہوتا ۔ میں صبح کی نماز پڑھ کے وہاں چلا جاتا اور دس منٹ میں وہاں سے فارغ ہو کے سکول چلا جاتا۔ایک ما ہ میں دو تین بار ٹیسٹ تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑی ٹینشن کا ذریعہ بھی تھے ۔ ہر ٹیسٹ کے بعد یہی دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں ٹیسٹ پوزیٹو نہ آ جائے ۔رپورٹ آ جاتی تو شکر کرتے۔ اتنی دیر جان سولی پہ ہی لٹکی رہتی۔اگست ۲۰۲۰ میں ، میں نے پہلا ٹیسٹ کروایا تھا اور اب اپریل ۲۰۲۱ ہے یعنی نو ماہ کے بعد بھی اس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔
کرونا میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال میں بھی یہاں کی حکومت کاکردار قابل ستایش ہے ۔ تمام موجو د ہسپتالوں کے علاوہ فیلڈ ہسپتال بھی بنائے گئے ۔ اور مریضوں کو دوا دارو کے ساتھ کھانے پینے کی بھی بہترین سہولتیں فراہم کی گئیں۔ مدثر ( میرا بھتیجا) بھی کرونا کا شکار ہو اتو وہ مفرق ہسپتال اور بعد میں ابو ظبی ایڈنک سنٹر میں رہا ۔اس کے بقول وہا ں رہنے ، کھانے پینے اور ادویات کی بہترین سہولتیں میسر تھیں۔ کرونا میں مبتلا مریضوں کے لیے لازم تھا کہ ان کے دو ٹیسٹ نیگیٹو آئیں تو پھر ان کی ہسپتال سے خلاصی ہوگی۔فاروق ( میر ا بھتیجا) پاکستان میں کرونا میں مبتلا ہوا لیکن وہاں اس کے ساتھ جو سلوک ہوا اور جو مدثر کے ساتھ ہوا دونوں میں بہت فرق ہے ۔
کرونا کے آغاز ہی سے دنیا بھر میں ویکسین کے بنانے کا آغاز ہو گیا تھا۔ یہاں تقریباً نومبر دسمبر میں اس کا آغاز ہوا۔چین کی سائنو فارم ابو ظبی میں اور فائزر کی بائنو ٹیک ویکسین دبئی میں شروع ہوئی ۔ پہلے پہل صرف ایڈنک میں موجود کرونا سنٹر میں لگائی جاتی تھی ہمارے کچھ کولیگ وہاں سے لگوا کر آئے ۔ میں نے ایک ڈاکٹر سے وہاں رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ ابھی ٹھہر جائیں کیونکہ ابھی کچھ کو ویکیسن اور بعض کو پلاسیبو لگایا جارہا ہے جب سب کے لیے عام ہو جائے گی تو پھر لگوا لیجیے گا۔ چنانچہ میں نے بھی انتظار کیا ۔ دسمبر میں عام ہو ئی اور ہر ہسپتال کو بھی اجازت ہو گئی چنانچہ میں اور اہلیہ نے میڈیور ہسپتال سے لگوالی جس کی دوسری ڈوز ۹ جنوری ۲۰۲۱ کو لگی اس طرح یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا۔ بیٹی نے ہفتے بعد یہ کورس پورا کر لیا۔
اس وبا نے چلت پھرت کی آزادی کو مقامی طور پر ہی محدود نہیں کیا بلکہ دوسرے شہروں میں آنے جانے کی آزادی بھی سلب کر لی۔ ایک تو انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بند کر دی گئی دوسرے دبئی اور ابو ظبی کے درمیان غنتوت کے مقام پر بارڈر بنا دیا گیا جہاں یہ لازم تھا کہ کرونا ٹیسٹ کا منفی رزلٹ دکھایا جائے ۔ اس بارڈر نے نقل و حرکت کوانتہائی مشقت آمیربنا دیا۔ اور پھر اس ٹیسٹ کے بارے میں بھی قواعد تبدیل کیے جاتے رہے ۔ کبھی بہتر گھنٹے کبھی اڑتالیس اور کبھی چوبیس گھنٹے پہلے تک کا ٹیسٹ تسلیم کیا جاتا اور باقی رد کر دیے جاتے ۔ ہم بھی دو بار دبئی گئے تو وہاں پہلے ٹیسٹ کرواتے پھر وہاں سے واپس آتے ۔ اسی طرح ماسک کم و بیش زندگی کا لازمی حصہ بن کے رہ گیا ہے ۔ اس کے نہ پہننے پر بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں۔ وبا کے دنوں میں پیدا ہونے والی اور بچپن گزارنے والی نسل تو یہ سمجھنے لگ گئی ہے کہ شاید باہر جانے کا یہ لازمی حصہ ہے ۔ بچوں نے خو د باہر جانا ہو تو ماسک لے کر چلتے ہیں اور یا والدین کو ماسک لا کے دیتے ہیں کہ چلو باہر چلو۔
معاشی طور پر دنیا مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔ بڑی تگ و دو کے بعد امارات نے ایکسپو ۲۰۲۰ کا اعزاز حاصل کیا تھا جسے کہ اکتوبر ۲۰۲۰میں ہوناتھا اور اس کے لیے زوروشور سے تیاری بھی جاری تھی مگر وبا کی وجہ سے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ اسی طرح دبئی کا گلوبل ولیج جو چھ ماہ جاری رہتا تھا اس کو بھی بند کرنا پڑا۔صرف میڈیکل ، فارماسیوٹیکل اور آن لائن انڈسٹری عروج پر ہے باقی سب زوال کا شکار ہیں۔ بیشتر ایر لائن کمپنیا ں دیوالیہ ہو چکیں ، ٹورازم بند اور ہوٹلنگ انڈسٹری مسافروں کی راہ تک رہی ہے اسی طرح ریستوران اور طعام گاہیں سوشل ڈسٹنسنگ کی وجہ سے بحران کا شکار ہیں۔تعلیم کی صورت حال البتہ یہاں بہتر ہے کیونکہ حکومت نے وبا کے آغاز ہی میں یہ فیصلہ کر لیاتھا کہ تعلیم آن لائن جاری رہے گی ۔ لاک ڈاؤن میں تو مکمل آن لائن سسٹم جاری رہا آج کل البتہ بچوں کو یہ آپشن دی جارہی ہے کہ اگر وہ آنا چاہیں تو ایس او پیز کا خیال کر تے ہوئے سکول آ سکتے ہیں۔ پھر بھی بہت ہی کم بچے آتے ہیں ۔ دس سے بیس فیصد ،باقی آن لائن ہی کو ترجیح دے رہے ہیں۔جو بچے سکول آنا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ ہر دو ہفتے بعد ٹیسٹ کرو ا کے آئیں اور اس کا منفی رزلٹ ہر وقت ساتھ رکھیں ۔ اسی طرح ماسک کی پابند ی کریں اور سکول میں داخلے کے وقت تھرمل سکینر سے ان کا ٹمپریچر بھی باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے جہا ں کہ میری ہر صبح ڈیوٹی ہوتی ہے ۔آن لائن تعلیم کے بارے میں بھی اس وبا نے بہت سی خوش فہمیاں دور کر دیں اور ثابت کر دیا کہ تعلیم کے شعبے میں استاد اور شاگرد کے براہ راست تعلق کا کوئی متبادل نہیں اور یہ کہ کلاسیکل طریقہ تعلیم ہی اصل اور پائیدار اثرات کا حامل ہے ۔
اس وبا نے سب سے مہلک ز د سماجی اقدار اور مذہبی عقائد پہ ڈالی ہے ۔ عرصہ دراز سے سنتے آئے تھے اور بظاہر معتبر اہل علم بھی یہی کہا کرتے تھے کہ طواف کبھی بند نہیں ہو تا لیکن اس وبا میں ہم نے اپنی آنکھوں سے طواف کو مہینوں بند دیکھا۔ حرم کے صحن میں تنہا کعبہ اور باقی اللہ اللہ۔یہی حال مسجد نبوی کا دیکھا۔جہاں دن رات ایک اژدہام رہا کرتا تھا وہاں ایک بھی نفس نظر نہ آئے تو خود ہی سوچیے کہ کیا حال ہو گا۔اسی طرح اس بات کا تصور نہ کیاجا سکتا تھا کہ دور دور کھڑے ہو کر بھی جماعت کی نمازادا ہو سکتی ہے مگر اس وبا نے یہ بھی کر دکھایا۔کہا جاتا تھا کہ آب زم زم میں شفا ہے لیکن اس وبا نے اس سے بھی دور کر دیا۔ کہا جاتاتھا کہ حرم میں دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں اس وبا نے ویسے ہی حرم سے دور کر دیا۔جن سماجی اقدار کو مستحسن سمجھا جاتا تھا وہ بھی اجنبی بن کے رہ گئیں اب تو سال ہو گیا یا د ہی نہ رہا کہ کبھی مصافحہ یا معانقہ بھی کیا کرتے تھے یا قریب قریب بیٹھ کے حال چال پوچھا کرتے ہیں۔
سال بھر سے زیادہ ہوچلا ،اگرچہ حالات پہلے کی نسبت بہت حد تک بہتر ہو چکے ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ لاک ڈاؤن اور رات کے کرفیو کی یادیں تا دیر ان لوگوں کے ساتھ چلیں گی جنہوں نے اس کو بھگتا ہے ۔ بازار، شاپنگ سنٹرز کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں ، تفریحی مقامات بھی کسی حد تک آباد ہو گئے ہیں لیکن عباد ت گاہوں پر سختی اُ سی طرح قائم ہے ۔وضو خانے اور استنجا خانے بدستور بند ہیں ۔ مسجد میں فاصلہ قائم رکھنے کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے جبکہ بازاروں گلیوں میں ایسی کوئی پابندی موجو د نہیں۔
انسانی نفسیات ، اور ذہنی کیفیت انسانی جسم اور اس کے احوال کو کس بری طرح متاثر کرتی ہے اس کا بہت اچھا تجربہ اس وبا کے دوران میں ہوا۔ آغاز میں سوشل میڈیا پر ہر بند ہ ہی کرونا کاماہر بنا ہوا تھا اور اس کے بارے میں اپنی ناقص معلوما ت شیئر کر رہا تھا اور ادھر میڈیا دن رات اموات اور مریضوں کی خوفناک صورت حال کے بارے میں بتا رہا تھا۔ پاکستانی ہسپتالوں میں مریضوں اور جنازوں کے ساتھ جو ہو رہا تھا، وہ ایک الگ خوفناک داستان ہے ۔ اس سب نے مل کر پورے ماحول کو ایک بری طرح خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ کسی کو کھانستا اور کسی کو چھینکتا دیکھ کر بھی دوسرے بندے دور بھاگنا شروع کر دیتے حالانکہ وبا سے قبل یہ ایک نارمل سی بات تھی۔مجھ پر خود کسی وقت جب زیادہ خوف کی کیفیت طاری ہوتی تو نیند آنکھوں سے دور بھاگ جاتی ،یوں معلوم ہوتا کہ دل تیزتیز دھڑک رہا ہے، سراور جسم گر م ہے اور سانس بے ترتیب ہے ۔ کئی کئی بار بخار چیک کرتا ، سانس بند کر کے پھیپھڑوں کی کیفیت چیک کرتا اور نبض کی رفتار جانچتا رہتا۔ دو تین بار تو ایسا ہوا کہ صبح فجر کے بعد جب سونے کے لیے لیٹا تو عجیب خوف نے آن گھیرا اور سب کو سوتا چھوڑ کر خاموشی سے اے ٹی ایم کارڈ اٹھا کر باہر جا نکلا اور بنک سے پیسے نکلوا کر پھر آ کے لیٹ گیا ۔ خیال یہ آیا تھا کہ اگر میری موت واقع ہو گئی تو پیسے بنک میں پڑے رہ جائیں گے اور گھر والے نکلوانے سے بھی محروم رہ جائیں گے ۔ ایک بار بیٹی کو ساتھ لے گیا اور اس کو طریقہ سمجھایا کہ اے ٹی ایم سے پیسے کس طرح نکلواتے ہیں اور گھر والوں کو تاکید کی کہ میری موت کی صورت میں یہ کارڈ استعمال کر کے بنک سے پیسے نکلوالینا ورنہ پھر نہیں ملیں گے ۔اس سے اندازہ ہوا کہ ہانمن کا کہنا بلا شبہ حق اور سچ ہے کہ بیماری کا آغاز انسانی ذہن سے ہوتا ہے اگر ہماری سوچیں مثبت اور بھلی ہوں تو بیماری کوسوں دور رہتی ہے۔ بلاشبہ انسانی سوچ اور فکر صحت کے معاملات میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔
ابھی تک میں اس بات پہ یقین نہیں کر پارہا کہ یہ وبا قدرتی عوامل کا حصہ تھی یاہے ۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ وبا ہے اور خطرنا ک بھی ہے لیکن کیا یہ واقعی قدرتی طور پر اچانک پھوٹ پڑی ہے یا اس کے پیچھے کوئی انسانی سازش یا کاوش بھی ہے ۔ اس سوال کا جواب ملنا ابھی باقی ہے ۔سازش تھیوری والوں کے بھی اپنے دلائل ہیں اور قابل غور ہیں ۔لیکن بہر حال ہم جو اس دور سے گزر رہے ہیں ان کی یہ شدید خواہش ہے کہ کاش اس بات کا ٹھوس علم حاصل ہو جائے کہ اس کا آغاز کیسے ہوا ، کن کے ہاتھوں ہوا اور کن مقاصد کے لیے ہوا ۔ ہمارے جیتے جی تو شاید یہ معلوم نہ ہو سکے لیکن بہر حال ایک دن آئے گا کہ تاریخ اس راز سے پردہ اٹھا د ے گی مگر تب تک ہم پردے کے اُس پار جا چکے ہوں گے ۔