آگ کو عزت دو

مصنف : آصف محمود

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : نومبر 2018

حالات حاضرہ
آگ کو عزت دو
آصف محمود

                                                                                                                        ’ووٹ کو عزت دو‘ تو اب قصّہ ماضی ہوا، کیوں نہ اب آگ کو عزّت دی جائے جو ہر مشکل میں کام آتی ہے۔ایسی فرماں بردار اور سمجھ دار آگ آج تک دیکھی، نہ سنی۔ کسی عُمر رسیدہ ڈاکیے کی طرح یہ سیدھے اپنے پتے پر پہنچتی ہے اور ثابت کر دیتی ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس آگ کی عقل و دانش کو داد دیجیے، یہ کثیر المنزلہ عمارت میں بھی راستہ نہیں بھولتی۔ یہ سیدھا اس کمرے میں پہنچتی ہے جہاں نیب یا کسی اور تحقیقاتی ادارے کو مطلوب ریکارڈ پڑا ہوتا ہے۔ یہ خاموشی سے اندر گُھستی ہے اور بیلے ڈانس شروع کر دیتی ہے۔ اس آگ کی کون کون سی جمہوری خدمت کا انکار کیا جائے؟ اس نے تو وہ وہ کمالات کر دکھائے کہ آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔ جمہوریت کے لیے جتنی خدمات اس آگ نے انجام دی ہیں، لازم تھا کہ ممنون حسین جاتے جاتے اسے تمغہ جمہوریت سے نواز کر جاتے۔
ابھی شہباز شریف کے داماد عمران علی یوسف کا قصہ ہی دیکھ لیجیے۔ پینے کے صاف پانی کے سیکنڈل میں وہ نیب کو مطلوب ہیں اور ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ قانونی طور پر وہ اس وقت اشتہاری مجرم ہیں۔ نیب ان کے معاملات کو دیکھ رہا ہے۔ ایک روز ہم یہ خبر پڑھتے ہیں کہ ان کے فرنٹ مین کی جائیداد نیب نے ضبط کر لی ہے۔ خبر میں معلوم ہوتا ہے علی ٹاور میں بھی ان کی سرمایہ کاری ہے۔ شکنجہ ان کے گرد سخت ہو رہا ہے۔ اس مشکل وقت میں آگ علی ٹاور کا رخ کرتی ہے اور اسی منزل پر جا پہنچتی ہے جو ان کی ملکیت ہے۔ شنید یہ ہے کہ نیب کو جو ریکارڈ مطلوب تھا، آگ نے اسے جلا کر خاکستر کر دیا۔ اب وزیرِ اطّلاعات پنجاب فیّاض چوہان کہتے ہیں تحقیقات ہوں گی۔ تحقیقات ہوں گی تو آگ پھر آ جائے گی۔ آگ کون سی ٹھنڈی ہوئی ہے۔
آگ کا ایک پورا ریکارڈ موجود ہے۔آپ کو یاد ہو گا سابق دورِ حکومت میں جب یہ بات چل نکلی کہ کیا وجہ ہے وزیرِ اعظم کی ایئر بلیو ترقی کر رہی ہے لیکن پی آئی اے تباہی سے دوچار ہے۔ قریب تھا کہ اونے پونے داموں پی آئی اے کو بیچ دیا جاتا۔ وزیرِ محترم مفتاح اسماعیل تو پیش کش فرما چکے تھے کہ جو پی آئی اے لے گا، اسے سٹیل مل مفت میں دے دیں گے۔ یہ واردات اس لیے نہ ہو سکی کہ چیف جسٹس نے معاملے کا نوٹس لے لیا اور نجی فَضائی کمپنیوں کے مالکان کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے ان کمپنیوں کا سارا ریکارڈ طلب کر لیا۔ اس دوران جناب چیف جسٹس ملک سے باہر گئے تو پیچھے آگ نے کمال دکھا دیا۔ اس کا کمال دیکھیے یہ ذرا سا بھی راستہ بھی نہیں بھٹکی۔ یہ اسلام آباد کے نئے ایئر پورٹ پر سیدھا اس کمرے میں پہنچی جہاں نجی کمپنیوں کا ریکارڈ رکھا تھا اور اس نے کمرے میں موجود ہر چیز جلا کر راکھ کر دی۔
گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کی بہت سی شکایات تھیں، جن پر عمران خان سراپا احتجاج بنے رہے۔ لاہور کے سنٹرل ماڈل سکول میں الیکشن کمیشن نے ریکارڈ رکھا ہوا تھا۔ قریب تھا کہ بات وہاں تک پہنچتی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ ایک رات آگ چُپکے سے نکلی اور سیدھا اس سکول پہنچ گئی۔ یہ آگ اتنی تجربہ کار تھی کہ یہ سیدھی اسی کمرے میں پہنچ کر بھڑکی جہاں یہ ریکارڈ موجود تھا۔
نندی پور پراجیکٹ بھی آپ کو یاد ہو گا۔اس میں 58 بلین جھونک دیے گئے۔ اور جو بجلی پیدا ہوئی وہ تاریخ کی مہنگی ترین بجلی تھی۔ 42 روپے فی یونٹ۔ اس پراجیکٹ پر شہباز شریف پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ کرپشن اور بد انتظامی کی حیرت انگیز داستان سامنے آئی۔ معلوم ہوا اس پراجیکٹ کے لیے ایم ڈی کی کوئی پوسٹ ہی نہ تھی۔ پہلے یہ پوسٹ تخلیق کی گئی، پھر مرضی کے ایک افسر کو یہاں تعینات کر دیا گیا۔ یہ افسر گریڈ اُنیس کا تھا اور پارکس اینڈ ہارٹیکلچر میں کام کر رہا تھا۔ اسے اس کام کا کوئی تجربہ نہ تھا لیکن نواز دیا گیا۔ ایم ڈی کو 1600 فیصد اضافی الاؤنس بھی عطا کر دیا گیا۔ امریکہ کا دورہ بھی صاحب نے مُفت میں فرما لیا۔ تباہی ہی ہونا تھی، وہ ہو گئی۔ ناقص فرنس آئل اور ناقص فیصلوں نے کمالات دکھائے اور منصوبہ چالو ہونے کے پانچویں روز ہی بند ہو گیا۔ اس پر شور مچا تو کہا ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔تحقیقات شروع ہو گئیں۔ سب کچھ ایک ایک کر کے سامنے آنے لگا۔ اب بچنے کی ایک ہی صورت تھی۔ آگ۔ ایک رات کچھ لوگ گئے اور انہوں نے کرپشن اور غبن کے سارے ریکارڈ کو آگ لگا دی۔ یہ ریکارڈ جہاں پڑا تھا وہاں عام آدمی تو رہا ایک طرف، اعلیٰ اہلکاروں کو بھی اجازت کے بغیر جانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن کچھ نا معلوم لوگ وہاں گئے اور انہوں نے اس کو آگ لگا دی۔ نہ صرف آگ لگی بلکہ خریدو فروخت کا تمام کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ بھی ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ گارڈ نے تسلیم کیا کہ سی ای او کے حکم پر آگ لگی ہے۔ خواجہ آصف نے قوم سے وعدہ فرمایا کہ ساری کہانی سامنے لائیں گے۔ یہ کہانی آج تک ایک راز ہے۔لاہور میٹرو میں کرپشن پر شور اٹھا۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے احتجاج کیا۔ ساتھ ہی آڈیٹر جنرل نے 2 بلین کی ناجائز اور غیر قانونی ادائیگیوں کا معاملہ اٹھا دیا۔ اسمبلی میں مطالبہ ہوا نیب تحقیقات کرے۔ نیب نے نوٹس لے لیا۔اور ریکارڈ طلب کر لیا۔ یہ ریکارڈ ایل ڈی اے کے پاس تھا۔ نیب نے ایل ڈی سے کہا ریکارڈ پیش کیا جائے۔اب بچنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ اب صرف آگ ہی بچا سکتی تھی۔ آگ سیدھی ایل ڈی اے کی عمارت میں پہنچی اور سارا ریکارڈ جلا دیا۔ اس آگ کی تجربہ کاری دیکھیے اس نے ساتھ ہی ساتھ دانش سکول میں ہونے والی مبیّنہ 750 ملین کی کرپشن کا ریکارڈ بھی جلا دیا۔ یہی نہیں اس نے لیپ ٹاپ سکیم اور سستے تنور میں ہونے والی واردات کا ریکارڈ بھی جلا ڈالا۔ اپوزیشن سر پیٹتی رہی لیکن آگ اپنے کمالات دکھا چکی تھی۔
اسلام آباد عوامی مرکز میں وفاقی ٹیکس محتسب کا دفتر تھا۔ شنید تھی یہاں بہت ساری کمپنیوں اور لوگوں کا نامہ اعمال موجود تھا اور کارروائی ہونے والی تھی۔ ستمبر 2017 میں آگ یہاں پہنچی اور کئی منزلہ عمارت میں سیدھی اس کمرے میں جا کر بھڑک اٹھی جو ٹیکس محتسب کا دفتر تھا۔ سارا ریکارڈ جل گیا مگر جُمہوریت مضبوط ہو گئی۔ یاد رہے کہ اسی عمارت میں سی پیک کا دفتر بھی تھا اور اہم ریکارڈ بھی موجود تھا۔ تھانہ فیصل ٹاؤن میں آگ لگی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ریکارڈ جل گیا۔محکمہ اَوقاف میں آگ لگی اور کہاں کس کا قبضہ ہے سب ریکارڈ خاکستر ہو گیا۔رجسٹرار کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے دفتر میں آگ لگی سارا ریکارڈ جل گیا۔
ڈپٹی کمشر لاہور دفتر کے مال خانے میں آگ لگی سب کچھ جل گیا۔
ایسی سمجھدار اور سیانی آگ اب کہاں ملتی ہے۔ اس آگ کو عزّت دو۔ جمہوریت کے لیے اس کی بڑی خدمات ہیں۔

***