اس نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں خواتین اور بچیوں کے لیے پردے کا وہ نظام رائج تھا جسے بعض لوگ شرعی پردہ کہتے ہیں۔ سوائے باپ ، بھائی یا حقیقی چچا اور ماموں کے، کسی کے سامنے آنے کی اجازت نہ تھی ۔ اس نے اپنے خالہ زاد ، ماموں یا چچا زاد کی شکل تو کجا ، ان کی آواز تک نہ سنی تھی۔اسی پردے کے نام پر انہیں کسی رشتہ دار کے گھر آنے جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ سکول جانے کے لیے بھی یہ شرط تھی کہ بچی چھٹی جماعت سے ہی برقعے کا دامن تھام لے اور پھر اسے موت تک نبھائے۔اسی ماحول میں وہ جوانی کی دہلیز تک آن پہنچی اور اس کی شادی کی تیار یاں ہونے لگی۔وہ جو کہتے ہیں ناکہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں تو اس کا رشتہ بھی ایسے لوگوں کے ہاں طے ہو گیا جن سے اس کے خاندان کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔اس کا مجوزہ خاوند اگرچہ پابندِ صوم و صلوۃ تھا لیکن پردے کے بارے میں اتنا متشدد نہ تھا جتنا کہ اس کا خاندان۔ شادی کے بعد جب وہ پیا گھر سدھاری تو برقعے کی سختی سے پابندی کیا کرتی تھی۔ اس کے شوہر کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا البتہ ایک تبدیلی ضرور آئی کہ اب وہ شوہر کے رشتہ داروں سے پردہ نہ کیا کرتی کیونکہ اس کے شوہر کا خاندان اس اعتبار سے زیادہ فراخ ماحول کا حامل تھابلکہ اس کے شوہرنے اسے یہ بھی اجازت دے دی تھی کہ اگر ہ چاہے تو اپنے کزن وغیرہ سے بھی پردے کی روایت ترک کر سکتی ہے ۔بہر حال زندگی اپنی رفتار سے چلتی رہی ۔کچھ عرصے کے بعد اس کے شوہر کے دینی خیالات و نظریات کسی قدر تبدیل ہو گئے ۔اصل میں اس کا شوہر ماحول اور معاشرے کے علی الرغم اس بات کا قائل تھا کہ تبدیلی زندگی کی علامت ہے کیونکہ تبدیل نہ ہونا تو گویا خود کو پتھر ثابت کر نا ہے۔سوچ سمجھ اور عقل رکھنے والا انسان تو بہتر اور ٹھوس دلیل سامنے آنے پر کسی وقت بھی تبدیل ہو سکتا ہے اور اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔اب اس کا شوہر دلیل کی بنیاد پر اس بات کا قائل ہو گیا تھا کہ چہرے کا پردہ اسلامی احکامات کا جزو نہیں بلکہ بر صغیر کی معاشرتی اور تاریخی روایت کا حصہ ہے ۔ چنانچہ اس نے اپنی زوجہ کو بھی ان دلائل سے آگا ہ کر دیا اور اسے کہا کہ اب ویسے بھی وہ عمر کے اس حصہ میں پہنچ گئی ہے کہ جہاں روایتی پردے کے قائلین بھی کچھ رعایت دینے کے قائل ہیں اس لیے اگر وہ چہرے کا پردہ ترک کر دے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ باتیں سن کر اس کی زوجہ نے برقعہ کے بجائے بڑی چادر کو اختیار کر لیا جس سے سارا جسم تو چھپا رہتا البتہ چہرہ کھلا رہتا۔اس بات کو بھی کئی برس بیت گئے ۔ ایک دن باتوں باتوں میں اس نے اپنے بیٹے کو بڑے تاسف سے کہا کہ‘‘ تمہارے ابو نے میرا پردہ اتروا دیا۔ہائے وہ بھی کیا وقت تھا کہ ہم برقعہ پہنا کرتے تھے ’’۔ اس کے خاوند نے اس بات کو سنا تو وہ بالکل گم سم رہ گیا۔ اتنے برسوں ،وہ یہی سمجھتا رہا کہ شاید اس کی زوجہ نے دلیل کی بنیاد پر قائل ہوتے ہوئے خود سوچ سمجھ کرچہرے کا پردہ ترک کیا ہے لیکن ‘‘پردہ اتروا دیا’’ کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ ُاس نے تو اصل میں یہ تبدیلی بس مروت میں کی تھی اور یاپھر شایداظہار فرمانبرداری کے لیے۔ بہر حال یہ بات بھی ہر بات کی طرح ہواؤں میں تحلیل ہو کے رہ گئی لیکن اس بات نے البتہ اس کے شوہر کو یہ سوچنے پہ ضرور مجبور کر دیا کہ بچپن کی تعلیم و تربیت اور ماحول کا اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ مضبوط علمی دلائل ہونے کے باوجود بھی یہ اثرات جاتے جاتے بالوں کو سفید اورکمر کو خم کر جاتے ہیں اور بعض اوقات تو قبر تک بھی ساتھ چلے جاتے ہیں۔
وہ اسی سوچ میں گم تھا کہ اس کے ایک دانشور دوست کی آمد ہوئی ۔ اس نے یہ بات اس سے شیئر کی تو وہ ہنس پڑا او راس نے کہا کہ بچپن کے اثرات کو تو ہم روک نہیں سکتے ۔جو چیز ہو کر رہنی ہو تو اس کا حل یہ نہیں ہوتا کہ اس کے روکنے کی سبیل کی جائے بلکہ اس کا حل یہ ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ اس ‘‘ہونی ’’سے بہتر بلکہ بہت بہتر نتائج کا ظہور ہوجائے ۔ اس نے کہا کہ اگر ہم اپنے گھروں میں ایساماحول بنا لیں کہ جس میں بچوں کے سوالات کی حوصلہ افزائی کی جائے، ان کے تجسس کی تحسین اور تحقیق کی تعریف کی جائے تو شاید کل ایسے نسل پیدا ہو جائے کہ جس میں نہ تو کسی زوجہ کوتاسف سے اپنے بیٹے کو کچھ کہنا پڑے اور نہ ہی کسی شوہر کو گم سم ہوجانے کی نوبت آئے ۔