پچاس کے لگ بھگ عمر کا ایک شخص سوزوکی سٹینڈ پر کھڑا تھا، سفید بالوں کا حامل۔ سوزوکی میں سواریاں پوری ہوچکی تھیں، اس لیے یہ شخص پائدان پر کھڑا ہوگیا۔اندر ایک نوجوان بیٹھا تھا، وہ فوری طور پر کھڑا ہوا، اپنی سیٹ خالی کی، اُنہیں بیٹھنے کا کہا اور خود باہر سوزوکی پائیدان پر کھڑا ہوگیا۔یہ سوزوکی کا پہلا سٹاپ تھا اور اُس نے امکانی طور پر کافی زیادہ سفر کھڑے ہوکر کیا ہوگا کیونکہ سوزوکی میں زیادہ تر سواریاں آخری سٹاپ کی تھیں۔یہ نوجوان پہلے آیا تھا، آرام سے خالی سیٹ مل گئی، سوزوکی بھرنے کا انتظار کیا اور جب سوزوکی روانہ ہونے کا وقت آیا تو ایک سفید بالوں کے حامل شخص کو دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور اپنی سیٹ قربان کردی، خود کھڑے ہو کر سفر کرنے کی زحمت بھی گوارہ کرلی۔کیا یہ اُس نوجوان کا فرض تھا؟
جس شخص کے لیے اُس نے سیٹ خالی کی، وہ اُس کے لیے اجنبی تھا۔کافی حد تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
ایسے شخص کے لیے جس سے جان پہچان بھی نہ تھی، اُس نے بلا چون و چرا، بغیر توقف کیے اپنی سیٹ قربان کردی۔آپ کیا کہیں گے؟نوجوان میں ادب ہے۔نوجوان کی تربیت اچھی ہوئی ہے۔کسی اچھے ماں باپ کی اولاد ہے۔کتنی ستھری شخصیت کا مالک ہے۔جس شخص کو سیٹ دی، اُس نے یقیناً دعا دی ہوگی۔
اب سوچیے:جب بیوی کہتی ہے کہ میں نے شوہر کے ماں باپ کا نہیں کرنا، وہ میرے ذمہ نہیں تو وہاں کون سا رشتہ ہے؟سسر کو رب تعالیٰ نے محرم بنایا۔اور یہ کس کے ماں باپ ہیں؟اُس شخص کے جس کا عورت پر سب سے زیادہ حق ہے۔اوپر نوجوان کی مثال دیکھی کہ اُس کا اجنبی شخص کے لیے کیسا جذبہ تھا؟ اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ فرض بھی نہ تھا۔ اور ساتھ تعریف بھی ہے اور دعائیں بھی نکلتی ہیں۔
سخت اصولوں کے ترزاو میں تولے ہوئے رویے کبھی گھروں میں محبتوں کے پھول نہیں کھلا سکتے۔بھلا سخت، پتھریلی زمین پر کب پھول اُگا کرتے ہیں؟
اس چخ چخ نے ہمارے معاشرتی توازن کو برباد کردیا ہے اور یہ ہے کہ بڑھے جارہا ہے۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقات اور دینی علم کے حامل لوگ اس تخریب کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
جوانی کی قوت میں تو یہ لطف دے سکتا ہے لیکن بڑھاپے کی کمزوری اور تنہائی میں لگ پتہ جاتا ہے جب اپنی اولاد اور بہو یہی اصول لاگو کرتی ہے۔اُس نوجوان نے جو اِس عمل سے حلاوت اور سکون محسوس کی، وہ بہتر جانتا ہے اور ہم بھی چہرے مہرے پر وہ سکون محسوس کرلیا کرتے ہیں۔کاش! ہماری خواتین اور اُن کے والدین یہ نکتہ سمجھ سکیں۔
اندر کاسکون
گزرتے گزرتے ایک سائیکل والے پر نظر پڑی۔سفید ریش لیکن کچھ کچھ سیاہی جھلکتی ہوئی یعنی درمیانی عمر کا، سائیکل سڑک کنارے کھڑی کی ہوئی، کچھ سامان لدا ہوا، ایسے لگا جیسے میٹھی مکئی ہو۔بدن بولی بہت پرسکون۔لیکن اُس سے پہلے ایک اُدھیڑ عمر خاتون (قدرے معزز اور سفید پوش) پر نظر پڑ چکی تھی جو ہر گاڑی والے کو ہاتھ سے رُکنے کا اشارہ کررہی تھیں۔یوٹرن لے کر واپس آیا، اہلیہ خاتون سے پوچھنے لگیں اور میں سائیکل والے کے پاس چلا گیا۔واقعی میٹھی مکئی تھی، ساتھ مُرنڈے(نہ جانے آپ لوگ کیا کہتے ہونگے)۔ایک لفافہ سامنے کرکے پتیسا بھی دکھانے لگا، یہ اسلام آباد میں زیادہ بکنے والی اشیاء نہیں۔بولنے کا انداز، چہرے کے تاثرات بہت پرسکون۔
کچھ چیزیں خرید لیں۔اِتنی دیر میں اُن خاتون کا مُدعا پتہ چل گیا کہ کسی جاننے والی فیملی سے ماہانہ دو ہزار ملا کرتے تھے لیکن اِس ماہ سے اُنہوں نے یہ وظیفہ موقوف کر دیا ، خاتون کو ویگن میں جگہ نہ مل پارہی تھی اور پاس صرف ویگن کا کرایہ موجود تھا، اس لیے گاڑیوں کو اشارے سے روک رہی تھیں کہ کوئی اللہ کا بندہ ٹیکسی کروا دے۔میں نے سائیکل والے سے اُن کے علاقے جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ کا پوچھا۔باتوں کے درمیان ایسے ہی نکلا کہ آپ کیسے جاتے ہیں؟ اور پھر ساتھ ہی سائیکل پر نظر پڑی تو مسکراتے ہوئے بے ساختہ نکلا: آپ کی تو اپنی سواری موجود ہے۔جواب میں ایک عجیب تشکر آمیز مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملا کہ اپنی سواری ہوتے ہوئے کبھی ضرورت نہیں پڑی۔ایک پرانی سائیکل کے بارے میں ایسا سکون اور قناعت موجود تھی گویا بڑا خزانہ موجود ہو۔ادائیگی کے بعد مُڑا لیکن پھر واپس آکر ایک ضرورت کے تحت پانچ سو کے چینج کا پوچھا تو کہنے لگا کہ جو آپ نے پہلے ادائیگی کی، وہ آج کی پہلی کمائی ہے اور وہی فقط جیب میں ہے۔جب میں اُس کے پاس سے چلا گیا تو فوری طور پر میرے پاس آیا اور بتانے لگا کہ فلاں جگہ اگر یہ خاتون چلی جائیں تو وہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں شاید جگہ مل جائے اور ساتھ نجی کیری ڈبے بھی چلتے ہیں جن میں جگہ فی سواری کے حساب سے مل سکتی ہے۔
گزرتے ہوئے جو سکون اُس کے چہرے مہرے اور بدن بولی میں عیاں تھا، وہی اُس سے معاملہ کرتے ہوئے ثابت ہوا۔یہ وہ سب کچھ ہے جس سے ہم محروم ہوچکے۔ چہروں پر درشتی، الفاظ میں کاٹ، اعصاب تنے ہوئے، بدن بولی منتشر۔کیا کمی ہوئی؟
مادی کمی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ شکرگزاری، قناعت اور استغنا کی کمی ہے۔وہ سائیکل والا جو مل رہا ہے، اُس پر خوش ہے بلکہ بہت خوش ہے۔اور ہمیں جو مل رہا ہے، اُس پر راضی نہیں۔وہ بعد میں اُن اجنبی خاتون کی رہنمائی کا جذبہ لیے میرے پاس آگئے۔
جبکہ ہمارے اندر دوسروں کی خیرخواہی کے جذبات مفقود ہونے لگے۔ہمیں تو سگے رشتے بھی ڈسنے لگتے ہیں، اُن کے چہرے دیکھ کر ہمارے منہ بن جایا کرتے ہیں، ہمیں سسرالی رشتے کوفت کا شکار کیا کرتے ہیں، ہمیں محلہ داری مشکل لگا کرتی ہے، ہمیں مہمان نوازی جو انبیاء کی سنت ہے، بھاری معلوم ہونے لگی ہے۔باقی خیر خواہی کا کیا کہنا۔
اندر پرسکون ہو تو باہر بھی پرسکون نظر آیا کرتا ہے۔اگر ہمیں کوئی شخص ایسا حقیقی پرسکون نظر آرہا ہے تو پھر سوچیے، وہ بندہ کیسے سکون سے بھرا ہوا ہوگا۔یہی وہ سکون ہے جس کے بارے میں ایک بزرگ نے کہا تھا کہ اگر بادشاہوں کو ہمارے دل کی کیفیات معلوم ہوجائیں تو تلواریں سونت کر لڑنے آجائیں۔کاش! ہم سمجھ سکیں، اندھی مادی دوڑ سے نکل سکیں۔