ماں کی تربیت

مصنف : حافظ طارق محمود

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2021

ساہیوال کے پاکپتن چوک کے پاس ایک آٹھ دس سال کا بچہ گھر کے سلے ہوئے کپڑے کے ماسک بیچ رہا تھا۔ میں نے یوں ہی اس سے پوچھا۔''کتنے کا دو گے بھائی؟''کہنے لگا۔آپ کے لیے تیس روپے کا۔میں نے پوچھامیرے لیے تیس کا کیوں ؟ میرے پاس تو اتنے پیسے ہی نہیں ہیں اُس نے جواب دیا آپ بیس روپے دے دیں اس سے کم نہیں۔میں نے بچے کو ایسے ہی مزاح کے طور پہ کہہ دیا کہ بھائی میرے پاس تو بیس روپے بھی نہیں ہیں اب میں کیا کروں؟جانتے ہیں کہ اُس نے کیا کہا؟ 
اُس نے کہا کہ آپ مفت لے جائیں جب کبھی پیسے ہوں تب دے دینا۔میں اس کے جواب سے بہت حیران ہوا اور استفسار کیا کہ ماں تم سے لڑے گی کہ مفت کیوں دے آئے؟بچے کے جواب نے مجھے سر سے پاؤں تک لرزا کر رکھ دیا ۔اُس نے کہا کہ ماں مجھے کچھ نہیں کہے گی کیونکہ ماں نے ہی مجھے کہا تھا کہ اگر کسی کے پاس پیسے نہ ہوں تو اسے ویسے ہی دے دینا کیونکہ اتنی وبا پھیلی ہوئی ہے ۔اللہ اکبر۔
قوم کی ایک ایسی ماں جس نے فاقوں سے مجبور ہو کر کپڑوں کے ماسک سی کر اپنے معصوم سے بچے کو چوراہے پر مزدوری کے لیے بھیجا لیکن اُس ماں نے یہ سوچ کر کہ وبا کے دنوں میں کوئی ضرورت مند ایسا بھی ہو سکتا ہے جس کے پاس ماسک خریدنے کے پیسے نہ ہوں تو اسے بغیر قیمت دینے کا سبق سکھا کر بھیجا۔ سلام ہے ایسی ماؤں کو اور تُف ہے اس ملک کی اشرافیہ پر کہ جن کے اکاؤنٹس بھرے ہوئے ہیں جبکہ دل کھوکھلے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ داری سے جنگ مضبوط ایمان والی گود کے بنا ممکن ہی نہیں۔
ہمارے روز مرہ کے رویے
عامر تنویر
میں واک کرنے کی غرض سے سڑک کنارے سائڈ واک پر چل رہا تھا۔ اسی دوران مخالف سمت سے ایک بزرگ جوڑا بھی اپنی سمت آتا دیکھ کر احتراماً میں نے انھیں جگہ دیتے ہوئے گھاس پر چلنا شروع کر دیا۔عین اسی دوران وہ جوڑا بھی اپنی جگہ چھوڑ کر سائڈ واک کی دوسری طرف گھاس پر چلنا شروع ہو گیا۔میں نے انھیں مسکراتے ہوئے ازراہِ مذاق جملہ کہا کہ اب درمیان میں خالی جگہ پر سے کون گزرے گا ۔خیر وہ بھی تبادلے کی مسکراہٹ سے آگے بڑھ گئے لیکن مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر گئے۔
میری یادداشت میں ایسی صورت حال بھی گزر گئی کہ صرف بغور دیکھنے سے پاکستان میں جھگڑا عام سی بات ہے۔ترقی یافتہ اقوام میں اس طرح بغور دیکھنے پر دوسرا ہائے کہہ کر مثبت اثرات چھوڑتا آگے بڑھ جاتا ہے 
ہمارے روز مرہ کے معمولات میں ہمارے رویے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی طبیعت پر خوشگوار اثر چھوڑتا ہے۔اور آپ کو ذہنی الجھنوں سے نجات دلا کر دن بھر کے معمولات میں مثبت تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ۔
اس سے میرے ذہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ عام زندگی میں بھی ہمیں 3 قسم کی سچوئیشن،حالات یا لوگوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے (تینوں قسموں کا تعلق ذہنی تربیت سے ہے)مثلا ً
ا۔پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بعض اوقات ہم اس فٹ پاتھ پر پیدا ہوتی ہوئی سچوئیشن کے مطابق فیصلہ نہیں کر پاتے کہ پہل کس کو کرنی چاہیے، ہم دراصل کسی ایسی منفی سوچ کے زیر اثر نہیں ہوتے لیکن بروقت فیصلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے دوسروں سے الجھنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔اور مسائل جنم لے سکتے ہیں 
2۔دوسری صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ ہم جھوٹی انا کے زیر اثر محض ضد میں دوسروں کو جگہ نہ دیں اور ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو جائے 
3۔اور تیسری سچوئیشن جو میں نے اوپر پیش کی جو آپ کی مثبت انرجی کا باعث بنتی ہے۔ذہنی دباؤ سے نکالتی ہے۔یہ تیسری حالت ہی سنت انبیاء کرام ہے۔
 فَاصْفَحِ لصَّفْحَ لْجَمِیلَ
جو ترقی یافتہ قوم بننے کی پہلی سیڑھی بھی ہے۔یعنی روز مرہ کے معمولات میں توازن پیدا کرنا اور خوشگوار ماحول کی طرف بہترین پیش قدمی ہے۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بیشک اللہ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے،
وَاقْصِدْ فِی مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَٰتِ لَصَوْتُ الْحَمِیرِ
اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر، اور اپنی آواز کو کچھ پست رکھا کر، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے،
رائی کے دانے کے برابر عمل کا بھی حساب دینا ہے۔لہذا عام زندگی میں بظاہر یہ معمولات معمولی نوعیت کے نظر آتے ہیں۔لیکن اس کے نتائج دور تلک جاتے ہیں۔وما علینا الا البلاغ المبین
ابو لہب اور اس کی بیوی
محمد سلیم
جو لوگ قران مجید کو سمجھ کر اور تدبر سے پڑھتے ہیں وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کیئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ قرآن پاک میں ایک پوری سورت (چہ جائیکہ کہ چھوٹی ہے) صرف اور صرف ابو لہب اور اس کی بیوی کو جواب دینے کیلیئے نازل ہو گئی ہے۔ ان کی حیرت اس بات پر اور بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ سورت میں باقاعدہ ابو لہب کا نام لیکر اسے جواب دیا گیا ہے۔ جبکہ ایسے کفار جنہوں نے سرکار علیہ السلام پر زیادتیاں کیں ان کی تعداد بیشمار ہے لیکن قرآن پاک نے ان لوگوں کو اشارتاً تو کچھ کہا ہے مگر کسی کو باقاعدہ اس کا نام لے کرکچھ نہیں کہا۔ ان لوگوں کا تعجب اس بات پر تو اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ کلام پاک نے ابو لہب کی بیوی کو بھی اچھا خاصا اہتمام دیا ہے۔ کیونکہ اس سورت کی کل پانچ آیتوں میں دو آیات (40 فیصد سورت) اسی کے بارے میں ہیں۔ سورت کا نام المسد ''مونج کی رسی'' رکھا گیا ہے جو ابو لہب کی بیوی سے متعلق ہے۔ 
ابو لہب اور اس کی بیوی کی تاریخ، اسلام، مسلمین اور خود آقا کریم کے ساتھ کوئی نیزوں بھالوں یا تشدد و تعذیب اور مارکٹائی والی ہرگز نہیں ہے۔ نہ انہوں نے کسی پر تلوار سونتی، نہ کسی کو بھالا دے مارا۔ نہ کسی کو قتل کیا اور نہ ہی انہوں نے کسی کو اغواء کیا یا زخمی کیا۔ تو پھر ایسا کیا ہے کہ اس شخص پر اور اس کی بیوی پر لعن طعن اور عذاب اور بربادی کی وعیدیں؟
میں تمہید کو مختصر کر کے اصل بات کی طرف آتا ہوں۔ در اصل یہ شخص اور اس کی بیوی بھی: اپنے زمانے کے ذرائع ابلاغ کے مصادر (Media Giants)، زہریلے تبصرے کرنے والے اور بھڑکانے والی خبریں پھیلانے والے تھے۔
توبہ کے لیے تلافی ضروری ہے 
طفیل ہاشمی 
ایک بات واضح ہے کہ انسانوں پر کئے گئے ظلم کی صرف اللہ سے معافی مانگنا نتیجہ خیز نہیں ہوتی ۔ایسی صورت میں دوگونہ معافی مانگنی ضروری ہے کہ پہلے بندے سے معافی مانگی جائے، اس کا حق ادا کیا جائے پھر اللہ سے جس کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے معافی مانگی جائے تب معافی مکمل ہوتی ہے۔یہ سمجھنا کہ فلاں وظیفہ یا عمل یا حج عمرہ یا کسی برگزیدہ ہستی کی سفارش خلق خدا پر کئے گئے مظالم کی معافی کا باعث ہو سکتے ہیں، اسلامی تعلیمات کی غلط تعبیر ہے۔
اللہ کے جن حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ان کے لیے توبہ ہی معافی کا ایک موثر ذریعہ ہے البتہ اشکال یہ ہے کہ ، جب تک مجھ میں کوئی گناہ کرنے کی طاقت اور استعداد تھی، میں نے توبہ نہیں کی اور جب میں گناہ کرنے کے قابل نہیں رہا تو کیا اس وقت کی توبہ قابل قبول ہو گی۔دوسرے یہ کہ ایک صاحب نے جو، صاحب اختیار و اقتدار تھے کسی ماتحت پر ظلم کیا جس کا اثر مظلوم کی ساری زندگی تک جاری رہتا ہے لیکن صاحب اختیار اپنا اقتدار ختم ہونے کے بعد یہ اعتراف کرتا ہے کہ میں نے تم پر زیادتی کی تھی، مجھے معاف کر دو،تو کیا ان حالات میں جب کہ وہ کسی قسم کی تلافی نہیں کر سکتا، معافی کا مستحق ہوتا ہے۔بلاشبہ وعظ و تلقین آسان کام ہے، ان حالات میں معاف کرنا قریباً نا ممکن ہے۔
اسلام میں عورت کی قدر
ایک انگریز نے مسلمان عالم دین سے پوچھا کہ تمہارے اسلام میں اتنی شدت کیوں ہے کہ ایک عورت اجنبی مرد سے مصافحہ تک نہیں کرسکتی ہے؟ عالم دین نے بہت تحمل سے جواب دیتے ہوئے پوچھا کہ کیا تمہارے ہاں ہر شخص ملکہ برطانیہ سے ہاتھ ملا سکتا ہے؟ مصافحہ کرسکتا ہے؟انگریز نے جواب دیا ہرگز نہیں ملکہ برطانیہ کے پروٹوکول میں قانون صرف سات قسم کے افراد کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ملکہ سے ہاتھ ملا سکتے ہیں.۔عالم دین نے جواب دیا بعینہ ہماری شریعت میں 12 قسم کے افراد ہیں جنہیں شریعت ہاتھ ملانے کی اجازت دیتی ہے۔
باپ،دادا،شوہر،سسر،بیٹا،بھائی،چچا، ماموں ،بھتیجا،بھانجا،پوتا،نواسہ 
عالم دین نے فرمایا تمہارے نزدیک ملکہ کا یہ مقام اور احترام ہے کہ ہر کوئی ان سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ تم نے یہ عزت صرف ملکہ کے لئے خاص کیا جب کہ ہمارے نزدیک تو ہر عورت ملکہ ہے۔
عربی سے ترجمہ


ملحد اور خدا
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
ان دنوں سوشل میڈیا پر ملحد حضرات کا بہت چرچا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو ''خدا'' کو نہیں مانتے۔ خدا کا اولین تعارف اور تصور اس کے خالق کائنات ہونے کے حوالے سے ہے۔ کم از کم اس پیمانے پر دنیا میں شاید ہی کوئی ملحد ہو۔ کسی کا خدا ''اتفاق'' یا ''حادثہ'' ہے جس سے تخلیق کا تمام مرحلہ طے ہؤا۔ اور کوئی کسی ارتقائی پراسیس کو تخلیق کار مانتا ہے۔ یہی نہیں وہ اپنے اس ''خدا'' کے متعلق اتنے ہی حساس ہیں جیسی حساسیت کا طعنہ وہ ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ایک ان دیکھے خدا کو مانتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ خدا ان کے بھی ان دیکھے ہی ہیں۔ اپنے ان خداؤں کے ایک حقیقت ہونے کے لیے بھی ان کے پاس زبانی جمع خرچ اور چند تخمینوں اور اندازوں کے سوا کچھ نہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنے مطلب کے علمی سلسلوں کو تو خوب ثقہ جانتے ہیں لیکن خدا سے متعلق انسانیت کی ابتدا سے آج تک پائے جانے والے سب سے بڑے اتفاق رائے کو پرِ کاہ جتنی وقعت نہیں دیتے 
ہمارے یہ دوست حادثہ اور پراسیس کو تو اس قدر اہمیت دیتے ہیں لیکن ایک حادث اور منصوبہ ساز کے امکان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس پر شروع سے لے کر آج تک کے یہ سب دوست فوراً خدا کو دیکھ کرVerify کرنے سے کم پر ٹھہرتے ہی نہیں۔ حالانکہ خدا نے یہ تو کہیں کہا ہی نہیں کہ میں دیکھنے میں ایسا ہوں تو مجھے خدا مانو۔ اس نے تو کہا ہے کہ اپنی ذات میں اور اپنے ارد گرد دیکھو ۔ ان کی ساخت، ان کا لائف سائیکل، ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ تال میل دیکھو اور صرف یہ غور کرو کہ اس قدر علم، ذہانت اور قدرت کے کام جس نے بھی کیے وہ واقعی لائق تحسین ہے، اور وہ جو کوئی بھی ہے انسان سے بہت زیادہ ارفع اوصاف کا حامل ہے۔ خدا نے ہر جگہ کہا کہ مجھے میری نشانیوں سے پہچانو۔یہ بھی انسان اور اس کی عقل کی تکریم کی ہے خدا نے کہ اسے لطیف پیرائے میں اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ حیوانوں والا معاملہ نہیں کیا اس کے ساتھ کہ ڈنڈا بردار نظر آئے تو ہی مانیں کہ مالک سر پر ہے۔ 
 ماضی کا انسان خدا کو دیکھنے پر اصرار کرتا تھا تو اس بیچارے کا تو علم بھی محدود اور پہنچ بھی۔ آج کے باعلم اور باوسائل دور میں تو آپ اس بات کو دیکھیے کہ خدا کہتا ہے کہ زمین و آسمان میں نظر دوڑاؤ۔ کوئی شے درست جگہ نہیں یا درست کام نہیں کر رہی تو بتاؤ۔ تم تھک جاؤ گے لیکن خامی نہیں ڈھونڈ پاؤ گے۔ آپ خدا کا چیلنج اس فیلڈ میں تو پورا کیجیے جہاں وہ آپ کو کہہ رہا ہے ۔ اس کے بعد اپنے تحفظات رکھیے۔ یہاں جھٹ یہ بات کہی جاتی ہے کہ انسان کس قدر مشکل میں ہے تو خدا کہاں ہے۔ اس بات پر خدا نے بتا دیا کہ موجودات میں انسان ایک استثنائی صورتحال ہے کیونکہ وہ ایک عرصہ امتحان سے گزر رہا ہے۔ انسان یہاں حالت سفر میں ہے۔ انسان کے علاوہ کسی سسٹم، کسی phenomenonمیں کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں۔ اسی بات کی وضاحت وہ یوں بھی کرتا ہے کہ زمین و آسمان (کائنات) کو بنانا اورsustain کرنا انسان کو بنانے اور sustain کرنے کی نسبت کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ جو وہ سب کر سکتا ہے کیا وہ یہ معمولی کام نہیں کر سکتا کہ انسانوں کے معاملات درست کر دے ۔ ؟ لیکن یہ بات by design ہے ۔ یہ کسی کمی یا کوتاہی کا شاخسانہ نہیں۔ 
مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو خدا انسان خود بناتا ہے وہ اس کے تابع ہوتے ہیں اور اگر وہ حقیقی خدا کو مان لے تو پھر اس کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ فطری بات ہے کہ جو برتر ہے اس کی برتری کو تسلیم کرنا ہو گا۔ برتری مانیں گے تو اس کے احکام پر بھی چلنا ہو گا۔یہ بات انسان کے لیے سب سے مشکل ہے۔ انسان کی انا اتنی قوی ہے کہ اس کے لیے اپنی مرضی پر کسی اور کی مرضی کو فوقیت دینا محال ہو جاتا ہے۔ وہ اس ڈسپلن سے فرار حاصل کرنا چاہتاہے۔ پھر اس کی منہ زور جبلت اس انا کے ساتھ مل کر اسے ایک دوسرے ہی راستے پر لے نکلتی ہے جہاں اپنی ذات کے آگے سب ہیچ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے وہ خدا کا انکار کرتا ہے یا پھر خدا کو انکار کرتا ہے۔ مارا باندھا مان بھی لے کہ خدا ہے تب بھی ہر وقت اپنی من مرضی کے راستے نکالنے کے چکر میں رہتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی انسان من مرضی کے لیے وہ ڈسپلن، وہ جوکھم بھی خود پر لازم کرتا ہے جس کا عشر عشیر بھی خدا نے کبھی طلب نہیں کیا۔ خدا نے انسان کو بنایا، وہ اس کے پوٹینشل اور کمزوریوں دونوں سے واقف ہے۔ اسی لیے اسے وقفہ حیات دیا کہ خوب سوچ سمجھ لے، زور لگا لے۔ سوال کر لے۔ ایک مشفق خیرخواہ کی طرح خدا نے ہر دور میں انسان کی ہدایت کا سامان کیا کہ وہ زندگی میں بھٹکنے سے بچ جائے ۔ لیکن اسے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ جو کوئی لمبا روٹ لینا چاہے وہ بصد شوق ایسا کر لے۔اگر وہ اپنی تلاش میں سچا ہے تو گھوم پھر کر وہ وہیں پہنچ جائے گا جہاں اسے روز اول ہونا چاہیے تھا اگر اس نے ہدایت پر توجہ دی ہوتی۔ لیکن ذاتی تجربوں کی بھٹی سے گزر کر جو خدا کی طرف پلٹتا ہے وہ اسے عزیز تر ہے کہ اس نے اپنی حد بھی جان لی اور خدا کا لامحدود ہونا بھی۔ اگر وہ نہیں پلٹتا تو یہ اس کا فیصلہ ہے اور اس کا جو بھی نتیجہ نکلے انسان اس کے لیے پوری طرح ذمہ دار۔ میری ناقص رائے میں الحاد وغیرہ سے متعلق زیادہ ٹینشن یا افراتفری کی ضرورت نہیں۔ خدا کی بات لوگوں تک اچھے پیرائے میں پہنچا دینا اور اس معاملے میں ہر لمحہ خندہ پیشانی سے کام لینا ہمارا فرض ہے اور بس۔باقی اپنی اپنی قسمت ۔ پھر یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا دروازہ ہر کسی کے لیے ہر وقت کھلا ہے۔ دیر سے پہنچنے والوں کو بھی یہاں کھلے دل سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔
٭٭٭


اہانت رسول اور اہانت ِمسلم
مولاناوحید الدین خان
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا عام حال یہ ہے کہ انہیں اہانت رسول کا مسئلہ معلوم ہے مگر انہیں ایک مسلم کی اہانت اور اس کے خلاف بہتان تراشی کا مسئلہ معلوم نہیں- اہانت رسول پر ان کا مشتعل ہونا اگر ان کی اسلامیت کی بنا پر ہوتا تو یہی اسلامیت انہیں مجبور کرتی کہ وہ کسی مسلمان کی اہانت اور بہتان تراشی کو گوارا نہ کریں- مگر اول الذکر کے بارہ میں ان کی حساسیت اور ثانی الذکر کے بارہ میں بے حسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا سر چشمہ اسلامیت نہیں-
حقیقت یہ ہے کہ اہانت رسول پر ان کے موجودہ اشتعال کا سبب ان کی ہیروپرستی ہے- رسول کو انہوں نے اپنا ہیرو بنا رکھا ہے نہ کہ اسوہ- اس کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے رسول کی اہانت پر تو فورا مشتعل ہو جاتے ہیں- مگر دوسرے پیغمبروں کی اہانت پر انہیں کبھی غصہ نہیں آتا-حالانکہ فقہ میں اہانت رسول کا جو حکم ہے وہ تمام پیغمبروں کے لئے ہے نہ کہ صرف پیغمبر اسلام کے لئے-