بادشاہ اپنی حسین و جواں سال ملکہ کو دیوانہ وار چاہتا تھا ملکہ دل ہی دل میں اسکی الفت پر ناز کرتی مگر فطرتاً وہ عورتوں کے اس غیور و خودسر طبقہ میں سے تھی جو دنیا میں کسی کا احسان مند ہو کر رہنا کسی کو اپنی کمزوری سے باخبر کرنا اور اپنے تئیں اسکے رحم و کرم پر چھوڑ دینا عورت کے وقار کے منافی سمجھتا ہے۔ وہ انسان تھی اور انسانوں کیطرح اس کے سینے میں بھی درد و محبت کا طوفان بارہا اٹھتا مگر اسکا جذبہ خودداری اسے دبا لینے میں کامیاب ہو جاتا۔ جب وہ بادشاہ کو آتے دیکھتی تو اسکی نظریں فوراً ادب سے جھک جاتیں، کان فرمانِ شاہی کے منتظر ہو جاتے، وہ تسلیم و اطاعت کا ایک زندہ پیکر بن جاتی تھی۔ بادشاہ اسی چیز سے اکتا چکا تھا۔جب وہ سلطنت کے کاروبار سے فارغ ہو کر تھکا ہارا محل میں آتا تو چاہتا کہ کوئی ایسا رفیق ہو جو محبت کے میٹھے اور جاں نواز کلمات سے میرے دل کو تسکین دے، جو بجائے مجھ کو مخاطب کرنے کے میرے دل سے ہمکلام ہو، اسکے برعکس ملکہ کے پرتکلف، رسمی اور محبت سے عاری الفاظ اسکے دل میں تیشہ بن کر چبھ جاتے تھے۔
ایک مدت گزر گئی مگر ملکہ کے برتائو میں ذرا فرق نہ آیا، اسکی نگاہوں میں بادشاہ کا احترام جیسے پہلے تھا ویسا ہی اب بھی تھا، وہ اسکی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھتی تھی مگر وہ کلمہ محبت جسے سننے کیلئے بادشاہ کے کان بے تاب رہتے تھے اسکے منہ سے کبھی نہ نکلتا۔ اتفاق سے اس عرصہ میں بادشاہ کے ہاں کوئی اولاد بھی نہ ہوئی جو اپنی ماں کی سردمہری کا نعم البدل بن جاتی جسے پروان چڑھتے دیکھ کر بادشاہ کے دل میں امیدیں اور امنگیں پیداہوتیں اور پھلتی پھولتیں۔بادشاہ روز بروز لطف زیست سے مایوس ہوتا جاتا تھا۔سلطنت کے کسی کام میں اسکا دل نہ لگتا، روز بروز رعایا کے سودوزیاں سے بے پروا ہوتا جاتا۔ عمائد سلطنت اسکی یہ حالت دیکھ کر کڑھتے مگر دم نہ ما رسکتے۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ کوئی غم بادشاہ کو اندر ہی اندر کھائے جاتا ہے مگر اس غم کا سبب پوچھنے کی انہیں جرأت نہیں ہوتی تھی۔ وہ اسکا دل بہلانے کیلیے سیروشکار کو لے جاتے، شمشیرزنی اور نبرد آمائی کے اکھاڑے منعقد کراتے، دور دور کے باکمال سے باکمال مغنی بلائے جاتے۔ سبک رو سے سبک رو رقاصہ لڑکیاں اسکے دربار میں پیش کی جاتیں لیکن اس قسم کے مشاغل چونکہ جذبات کو اکساتے اور دل میں ولولے پیدا کرتے اس لیے بادشاہ بجائے لطف اندوز ہونے کے اور افسردہ ہو جاتا تھا۔ ہاں ایک شغل تھا جس سے اسے کسی قدر تسکین حاصل ہوتی تھی، وہ تھافن مصوری۔ بادشاہ کے پاس قلمی تصاویر کا ایک نادر و نایاب ذخیرہ تھا جس میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ بادشاہ کی صنعت پرستی اور قدر دانی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے چنانچہ جوان تو جوان، بڈھے اور نحیف صناع بھی قدردانی کے بھروسے پر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آتے اور اپنی محنت کی داد امیدوں سے بڑھ کر پاتے۔ایک روز بوڑھا سنگتراش ایک مرمریں مجسمہ لیے ہوئے بادشاہ کے حضور میں پیش ہوا۔ یہ ایک حسین عورت کی شبیہ اور صنعت کا نادرترین نمونہ معلوم ہوتا تھا کسی وارفتہ مزاج ساحر نے پتھر کے ایک بے جان ٹکڑے میں عشق کا گرم سانس پھونک کر اسے حیات دوام بخش دی ہے۔ یہ شبیہ اس دنیا کی کسی عورت کی نقل نہ تھی بلکہ وہ صناع کے تخیل کی ان عورتوں میں سے ایک تھی جن کی ہمسری عالم بالا کی عورتیں اور بیبیاں بھی نہیں کر سکتیں۔ بادشاہ صنعت کے اس عجیب و غریب نمونے کو دیکھ کر بے حد محفوظ ہوا۔ بوڑھے صناع کو نہال کر دیا اور مجسمہ اپنی خوابگاہ میں ایک ایسی جگہ رکھوا لیا کہ نظر ہر وقت اس پر پڑتی رہے۔یہ مجسمہ ڈیڑھ دو فٹ سے زیادہ نہ تھا مگر سنگتراش نے اس میں ایسی زندگی بھر دی تھی کہ اسے دیکھ کر اسکے قدوقامت کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ یہی معلوم ہوتا کہ بادلوں کی رنگین دنیا کا ایک رنگین پیکر حسن و شباب ہے جسے سحردانوں سے ساکت کر دیا گیا ہے۔ جس کے ساکت اعضاء میں مچلنے کی آرزوئیں بیتاب ہیں جس کے نم آلود ہونٹوں میں ہمکلامی کی تمنا آنکھیں کھول رہی ہے۔
اٹھتے بیٹھتے بادشاہ کی نگاہ اس مجسمے پڑتی اور وہیں جم جاتی۔ اسکی خواب گاہ میں صنعت و حرفت کی بیسیوں چیزیں تھیں مگر نہ جانے مجسمہ میں کیا بات تھی کہ وہ اسے دوسری چیزوں کیطرف متوجہ نہ ہونے دیتی تھی۔ بعض اوقات وہ پہروں محویت کے عالم میں کھڑا اسے تکتا رہتا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسکے اور اس مجسمہ کے درمیان نامعلوم طور پر ایک رشتہ ایک تعلق پیدا ہو گیا ہے جو بتدریج بڑھتا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بادشاہ کی حالت میں بھی ایک تغیر ہوتا جاتا تھا۔ ملکہ کی سنگدلی اور بے مہری کا غم تو کسی وقت بھی دل سے دور نہ ہوتا تھا مگر اب اس غم کو مٹانے کا ایک ذریعہ اسکے ہاتھ میں آ گیا تھا۔ عورت سے یا یوں کہو ملکہ سے وہ جس چیز کا خواہاں تھا وہ ایک حد تک اسے اس مجسمہ سے حاصل ہو رہی تھی۔ملکہ کو اس حسین مجسمہ کا علم تھا اور وہ جانتی تھی کہ بادشاہ اسے تحسین کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس نے کئی بار بادشاہ کو محویت کے عالم میں اس مجسمہ کیطرف تکتے بھی دیکھا تھا۔ اسے یہ احساس تھا کہ میرے ساتھ بادشاہ کے برتاؤ میں فرق آ گیا ہے اور وہ مجھ سے دور دور رہنے لگا ہے۔ وہ یہ سب کچھ جانتی تھی مگر معترض نہ ہوتی تھی۔ بہار کا موسم آیا، آنکھوں میں آپ سے آپ ایک خمار، دل میں ایک درد اور روح میں ایک تشنگی پیدا ہو جانے کا موسم آیا، جب ہر جاندار اپنے لیے ایک مونث دمساز کی جستجو کرتا ہے۔ایک دن صبح کو بادشاہ بستر سے اٹھا تو بہت بے چین تھا۔ رات اسے اپنی کم نصیبی کا احساس شدت سے ہوا تھا، کروٹیں بدلتے بدلتے صبح کر دی تھی۔ ملکہ سے اسے جتنی شکایتیں اور رنجشیں تھیں وہ سب تازہ ہو گئی تھیں۔ ان خیالات کا اثر اب تک زائل نہ ہوا تھا وہ آہستہ سے اٹھ کر دریچے کے پاس جا کھڑا ہوا۔ نیچے بائیں باغ میں خوش گلو پرندوں کے چہچہے بہار کو رنگین تر بنا رہے تھے۔ بادشاہ اور بھی افسردہ ہو کر دریچے کے پاس سے چلا آیا۔ اب اسکی نظر مجسمہ پر پڑی، آج یہ مجسمہ اسے جس قدر حسین معلوم ہوا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ بوڑھے سنگتراش کے تخیل کی یہ نامعلوم عورت آج اس قدر زندہ نظر آتی تھی گویا اگر بادشاہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا تو ناز کیساتھ اپنے ننھے ننھے پاؤں اٹھاتی ہوئی بے حجابانہ اسکے پاس چلی آئیگی۔
بادشاہ بہت دیر تک اسکے سامنے کھڑا اسے تکتا رہا ملکہ کئی بار خوابگاہ میں آئی مگر بادشاہ کو اس محویت کے عالم میں دیکھ کر الٹے پاؤں لوٹ گئی۔ دوپہر ہونے کو آئی مگر بادشاہ اس مجسمہ کے پاس سے نہ ہٹا، اچانک کسی نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھا، بادشاہ چوک اٹھا پلٹ کر دیکھا تو ملکہ تھی وہ بولی آج کیا بات ہے۔ آپ ایسے افسردہ نظر آتے ہیں، صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا؟بادشاہ نے جواب دیا، ہاں صبح میری طبیعت کچھ اچھی نہ تھی، یہ کہہ کر وہ پھر مجسمہ کی دیکھنے میں محو ہو گیا۔ ملکہ آگے بڑھ کر مجسمہ کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اسے بادشاہ کے نظروں سے اوجھل کر دیا، بولی، بس بہت دیکھ چکے چلئے ناشتہ کریں۔ آج صبح میری طبیعت بھی گری گری تھی اس لیے میں نے بھی ابتک ناشتہ نہیں کیا۔ملکہ کی زبان سے یہ فقرہ سن کر بادشاہ چونک اٹھا اسکے بعد وہ ملکہ کیساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا، گو چند لقموں سے زیادہ نہ کھا سکا مگر آج اسے ایک ایسی لذت کا احساس ہوا جس سے وہ ناآشنا تھا۔
اس دن سے بادشاہ کی زندگی میں ایک نیا تغیر رونما ہوا پہلے کی طرح وہ اب مجسمہ کو افسردگی سے نہ دیکھتا اور نہ اسے دیکھ کر اس پر محویت طاری ہوتی بلکہ جسطرح کوئی بچہ اپنے محبوب کھلونے سے کھیل کر خوش ہوتا ہے اسی طرح وہ مجسمہ سے کھیل کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ وہ اسکے چھوٹے سے خوبصورت سر پر ہاتھ پھیرتا، انگلیوں سے اسکی تھوڑی پکڑ کر پیار سے جھجھوڑتا، اپنے ہاتھ سے پھولوں کا تاج بنا کر محبت سے اسکے سر پر رکھتا اور خوش ہوتا۔ ملکہ نے بادشاہ کی ان حرکات کو بارہا دیکھا اور اسے اسکی عقل اور سمجھ پر شبہ ہوا مگر جب وہ اس سے ہمکلام ہوتی تو اسے پہلے سے بھی بڑھ کر عاقل اور ہوشمند پاتی۔اب ملکہ کے رویہ میں بھی فرق آنے لگا تھا۔ صبح کو جب وہ بادشاہ کو جگانے آتی تو یہ دیکھ کر وہ پہلے ہی سے بیدار ہے اور حسب معمول مجسمہ سے کھیلنے میں مشغول ہے پہلے کیطرح الٹے پاؤں نہ لوٹ جاتی تھی بلکہ اب وہ بادشاہ کو کبھی سیر کی غرض سے اور کبھی ناشتے کی غرض سے کسی نہ کسی بہانے خواب گاہ سے باہر لے جاتی تھی۔ بادشاہ ملکہ کے اس تغیر سے بے خبر نہ تھا اور اس سے ایک خاص حظ اٹھاتا تھا۔
ایک دن محل میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ صبح کو جب بادشاہ بستر سے اٹھا اور حسب معمول اس حسینہ کے مجسمے کے قریب آیا تو دیکھا کہ اس کے داہنے گال پر سیاہی کا بڑا سا بدنما دھبہ لگا ہے۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ پیشانی پر بل پڑ گئے، غیظ و غضب کے عالم میں مٹھیاں بند ہو گئیں۔ چاہتا تھا کہ دنیا اور اسکی ہر چیز کو تہ و بالا کر دے کہ اچانک کسی خیال نے اسکا ہاتھ روک دیا۔ وہ چہرہ جو غصے سے تاریک ہو گیا تھا، آہستہ آہستہ روشن ہونے لگا اور اسکے ہونٹوں پر ایک خفیف سا تبسم نمودار ہو گیا۔ اسکے بعد بادشاہ نے محل کے تمام لونڈی غلاموں کو بلایا اور غیظ و غضب کے دیوتا کیطرح گرجا برسا۔ دو غلاموں پر شبہ ظاہر کیا اور انکے کوڑے لگوائے پھر پانی، برش اور جھاگ منگوایا اور خود ہی اس مجسمہ کے گال پر سیاہی کا دھبہ دور کرنے میں مصروف ہو گیا ملکہ سہمی ہوئی اور دھڑکتے دل کیساتھ یہ سب ماجرا دیکھتی رہی۔ آداب شاہی نے اسکی زبان سے ایک حرف بھی نہ نکلنے دیا جب تک بادشاہ مجسمہ کے گال سے دھبہ دور کرنے میں مصروف رہا وہ اسکے پاس کھڑی رہی مگر اس اثناء میں اس نے ایک بار بھی آنکھ اٹھا کر اس کیطرف نہ دیکھا جب بادشاہ اس کام سے فارغ ہو گیا تو اس نے بڑی محبت سے مجسمہ کیطرف دیکھا، ملکہ چپ چاپ وہاں سے چلی آئی۔
اس واقعہ کو دو ہفتے گزر گئے۔ ایک دن ایک اس سے بھی بڑھ کر ناگوار واقعہ پیش آیا۔ بادشاہ صبح اٹھ کر مجسمہ کے پاس آیا تو دیکھا کہ اسکی دونوں آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔ مجسمہ کی آنکھیں بادشاہ کو بہت محبوب تھیں اور وہ انہیں جل پریوں کی زمرد آنکھوں سے تشبیہ دیتا تھا مگر یہ دیکھ کر بادشاہ بجائے غضبناک ہونے کے کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ محل کے سب لونڈی غلام طلب کئے گئے اور انکی پیٹھ پر کوڑے لگوائے گئے۔ اس دن بادشاہ کو ایسی خوشی ہوئی کہ شاید کسی بڑے غنیم پر فتح پانے سے بھی نہ ہوتی۔مجسمہ کے عیب دار ہو جانے پر بھی بادشاہ کی نظروں میں اسکی وقعت ویسی ہی رہی جیسی پہلے تھی اور وہ ہر روز اسی فریفتگی سے اس سے کھیلا کرتا۔
اسکے بعد ایک دن بادشاہ نے دیکھا کہ مجسمہ کے دونوں کان کٹے ہوئے ہیں۔ یہ وہی کان تھے جنہیں بادشاہ ’’صدف سیمیں ‘‘کہا کرتا تھا۔ پھر ایکدن دیکھا کہ اسکی ناک کٹی ہوئی ہے۔ اسکے بعد ایک دن دیکھا کہ اسکے سینے پر کسی نے تیز ہتھیار سے ضربیں لگائی ہوئی ہیں۔ ہر دفعہ بیچاری لونڈی غلاموں کی شامت آ جاتی تھی لیکن پھر بھی بادشاہ اس مجسمہ کا ویسا ہی گرویدہ رہا۔ اب بھی گھنٹوں اس سے کھیلنے میں مشغول رہتا۔ ایک دن صبح کو بادشاہ ذرا دیر سے اٹھا۔ رات اسے بڑے سکھ کی نیند آئی، عمر بھر ایسی میٹھی نیند کبھی نہ سویا تھا، انگڑائی لیتے ہوئے اٹھ بیٹا۔ جوں ہی مجسمہ کیطرف نظر گئی تو منہ سے بے اختیار چیخ چکل گئی۔ کیا دیکھتا ہے کہ فرش پر سنگ مرمر کے ہزاروں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پڑے ہیں۔۔۔ دوسرے لمحہ ملکہ اسکے قدموں میں تھی۔
٭٭٭