اصلاح و دعوت
میرا قبول اسلام
محمد رضوا ن خالد چودھری
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں لادین رہا۔ خدا اور مذہب میں میرا یقین کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ شاید میرا مذہب اور خداسے متعلق معلومات اور علم کابنیادی ذریعہ جمعہ کاخطبہ رہا تھا۔ہمار ے مولانا جب خطبے سے پہلے تقریرکرتے، تواُنکے سنائے ہوئے مذہبی قصے کہانیاں میرے دل میں بہت سوال پیداکیا کرتے ۔لیکن سوال پوچھنے کی ہمارے معاشر ے میں روایت ہی نہیں تھی ۔لہذامیرے دل ودماغ نے ایک عجیب الخلقت خدا کا خاکہ تشکیل دیاجوایک دم غصے میں آسکتاہے اور اچانک مہربان ہوکرگھربیٹھے رزق دے سکتاہے۔ جومجھے پیدا کرنے سے پہلے یہ طے کیے بیٹھا ہے کہ میں جہنمی ہوں یا جنتی اور اگراُس نے جہنمی لکھ دیا ہے تومجھے مرنے سے پہلے گناہوں کی دلدل میں دھکیل دے گا، بصورتِ دیگر مجھ سے کوئی ایساکام کرائے گاکہ میں بخشاجاؤں۔میں نے نتیجہ اخذکیا کہ خدا بہت جذباتی ہے، ہر جمعے سوچتاکہ اس بار مولانا سے اپنے خدشات سے متعلق سوال کرونگا، لیکن ہمت نہ پڑی۔پھر ایک باراسی سے ملتاجلتا سوال ہمارے علاقے کے ایک معزز بزرگ جن کا نام محمود تھا اٹھابیٹھے بس پھر کیا تھامولانانے ان پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا۔حالانکہ وہ تہجداوراشراق کی نمازیں بھی مسجد میں ادا کرتے تھے۔سارا علاقہ محمود صاحب کے خلاف ہوگیا، نہ جانے کیسے وہ جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔اس واقعے نے مجھے مذہب سے اور دور کردیا اورخداسے بھی شکوہ بڑھا کہ کیسے وِچولے اپنے راستے میں بٹھا دئیے ہیں جو انکے بتائے ہوئے خداکی طرح چھوٹی سی بات پر ناراض ہوجائیں تو کہیں پناہ نہیں ملتی۔ خداسے ناواقف رہنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ خدا کے وِچولے قرآن کو عربی میں تو پڑھاتے ہیں لیکن اس کا مفہوم اردومیں سمجھنے کی ترغیب نہیں دلاتے بلکہ دانستہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔تعلیم کے سلسلے میں لندن اور دیگر ممالک جانا ہوا تو مُختلف مذہبی معاشروں کو قریب سے دیکھا۔ جیسے اسلامی مُعاشرے میں مولانا ایک اسلامی دائرہ لیے بیٹھا ہے اور مُختلف لوگوں کوپرکھ کر یا تو دائرے کے اندر قرار دیتا ہے یا باہر ایسا ہی ہر مذہب میں کوئی نا کوئی وِچولا دیکھا۔عیسائیت میں خدا کے راستے میں پوپ اور بشپ بیٹھے نظر آتے ہیں یہود میں ربی، ہندوازم میں پنڈت غرض یہ کہ ہر مذہب میں ایک ملتی جُلتی وضع قطع کا گیٹ کیپر دیکھا۔ اس پس منظر میں مارکس کوپڑھ کردل و دماغ بالکل ہی مذہب کے خلاف ہوگیا۔ پھرکوئی ایک دہائی بعد میرے ادارے نے مجھے ایک کانفرنس کے لیے مسلمانوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعۃ الاظہر جانے کے بارے میں کہا۔ میں نے یہ سوچتے ہُوئے دعوت قبُول کر لی کہ چلیے اسی بہانے اہرامِ مصر بھی دیکھ لُوں گا اور مصر کے مشہُورِ زمانہ قہوے خانوں میں کچھ شامیں گُزارنے کا موقع بھی ملے گا۔ خانہ پُوری کے لیے بہرحال کانفرنس میں سکالرز کے لیکچرز بھی سُننے تھے۔ کانفرنس میں لیکچرز کے بعد عمُوماََ پیپرز پڑھنے والے سکالرز سے سوال جواب کا سیشن ہوتا ہے اور میرا سابقہ تجربہ بتاتا تھا کہ اسلام میں تنقیدی سوالات کی کوئی گُنجائش نہیں۔لیکن مجھے حیرت ہُوئی جب دیکھا کہ ہر لیکچر کے آخرمیں کانفرنس کے شرکاعلما سے اس سے بھی زیادہ سخت سوال کر رہے تھے جو بچپن سے میرے دل میں تھے اور عالم جو دراصل جامعۃ الاظہر کے پروفیسرز تھے ہر سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دے رہے تھے۔ ایک صاحب نے وہی سوال پوچھ لیاجس کی بنیادپر میرے علاقے کے مولانانے محمود صاحب کو گستاخ قرار دے دیا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب پروفیسر نے کہا میری خواہش تھی کوئی یہ سوال کرے اور پھر قرآن کی آیات سے سوال کاجواب دیا۔ اب میری بھی ہمت بڑھی میں نے پوچھا جناب جب خدا جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے ،جسے چاہے ہدایت دے ،جسے چاہے گمراہی میں مبتلا کر دے ،تومیں اسے مانوں نہ مانوں کیا فرق پڑتا ہے۔پروفیسر صاحب تھوڑے سے مسکرائے اور بولے قُرآن میں احکامات دو طرح کے ہیں ایک مُحکمات اور دوسرے مُتشابہات۔ ضروری ہے کہ مُتشابہات کومُحکمات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے۔ جن آیات میں من یشا ء اور تشاء آتا ہے ان کا اردو میں ترجمہ دراصل مُتشابہات ومُحکمات کے عام اُصول کے تحت نہیں کیا جاتا اس لئے انڈیا اور پاکستان کے مسلمان خدا کے تصور کو غلط سمجھتے ہیں۔ اس کا عربی مفہوم یہ ہے کہ جو چاہتا ہے اللہ اسے عزت دیتا ہے اور جو چاہتا ہے اللہ اسے ذلت دیتا ہے۔جو چاہتا ہے اللہ اسے ہدایت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا اس آیت کو آپ ایک اور آیت کے مطابق دیکھیں جو مُحکمات میں سے ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرے۔ میں نے پھر سوال کیا کہ میں نے تو ہمیشہ عُلماء سے یہی سُنا ہے کہ اللہ توفیق دے تو ہی مُجھ سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے۔کانفرنس روم میں قہقہہ گُونجا پھر پروفیسر صاحب نے سورہ رعد کی آیت پڑھی کہ اللہ لوگوں میں کُچھ نہیں بدلتا جب تک وہ خود میں تبدیلی نہ لائیں۔ میں پروفیسر صاحب کا جُملہ مُکمل ہونے سے پہلے بول پڑا کہ یہ سب جو میں اس کانفرنس میں دو دن سے سُن رہا ہوں اُس اسلام سے بالکُل مُختلف ہے جو میں آج تک عُلماء سے سُنتا آیا ہوں۔ اس پر پروفیسر صاحب نے سورہ بقرہ کی آیت پڑھی اور جب اُن سے کہا جائے اللہ کے اُتارے پر چلو تو کہیں گے ہم تو اُس پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔ اگرچہ اُن کے باپ دادا نہ کُچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت۔کہنے لگے قرآن اللہ نے میرے اور تُمہارے لیے ہی اُتارا ہے اسے خود پڑھتے اور سمجھتے کیوں نہیں،میرے یا کسی بھی مولوی کے محتاج کیوں ہوتے ہو۔ قرآن عین انسانی عقل کے مُطابق بات کرتا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا کہ مُجھے تو آج تک علماء نے یہی بتایا ہے کہ ایمان اور استدلال یعنی ریزن الگ الگ چیزیں ہیں اور ریزننگ بھٹکا دیتی ہے۔ اس بار پروفیسر صاحب نے انڈین اور پاکستانی عُلماء کی کم علمی اور تنگ نظری کی وجوہات پر بات کی اور سورہ انفال کی ایک آیت پڑھی کہ اللہ کی نظر میں وہ جانوروں سے بھی بد تر ہیں جو گُونگے بہرے بنے رہتے ہیں اور استدلال نہیں کرتے۔ بس پھر میں جیسے گُونگا ہو گیا۔ کانفرنس کے اختتام پر پروفیسر صاحب نے قرآن کی انگلش ترجُمے والی کاپی گفٹ کی۔ مجھے یاد ہے میں نے اگلے چار دِن میں میں قُرآن کا ترجمہ مکمل پڑھ لیا تھا۔ ہر آیت مُجھے خود سے مُکالمہ کرتی سنائی دیتی۔ میرے من سے جیسے اندھیرے چھٹ گئے۔ قُرآن کا ترجمہ پڑھنے کے دوران مِصر میں ہی کسی وقت میں نے بڑے خلوصِ دل سے کلمہ پڑھا کہ واقعی میراخدا تو بالکل ویسا ہے جیسا ایک خالق کو ہونا چاہیے۔کچھ عرصہ بعد ایک نومسلم گورے سے کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔ وہ اسلام کی پہلی دو صدیوں کے حوالے سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ اُس کے ساتھ مل کر کُچھ اسلام کی ابتدائی اُٹھان اور پھر اس میں فرقے بنتے ٹُکرے ہوتے تاریخ کی نظر سے دیکھا۔ یہ بھی دیکھا کہ کیسے لوگ قُرآن جیسا خزانہ چھوڑ کر روایات کی تلاش میں دہائیوں تک بھٹکتے پھرے۔ آج شیعہ کروڑوں میں ہیں اور کروڑوں ہی سنّی کہیں مالکی ہیں کہیں حنبلی اور کہیں شافعی۔ ہر فرقے میں مزید تقسیم اور فرقے در فرقے ہیں۔ افسوس کہ ایسے لوگ کہیں مُشکل سے نظر آتے ہیں جو نہ وہابی ہوں نہ دیو بندی نہ بریلوی ہوں نہ اہل حدیث جن کا دین صرف اسلام ہو۔ جو قرآن و سُنّت میں استدلال کریں۔ سورہ یونس کی سویں آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا استعمال اور استدلال ایمان کی بُنیادی شرط ہے۔ اب میں فرقوں میں بٹے اپنی اپنی انا میں مدہوش مُسلمانوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ کیا یہ دُنیا بھر میں ہوتی اپنی ذلّت کو نہیں دیکھتے،کیا یہ اب بھی نہیں جان پائے کہ اللہ کی رسی چھوڑ کر یہ ٹُکڑیوں میں بٹ چُکے ہیں۔ شاید دل مُردہ ہونے سے اپنی ذلّت کا احساس ہی نہ ہوتا ہو۔ سورہ حج میں اللہ کہتے ہیں پس کیا وہ زمین میں نہیں پھرے تاکہ انہیں وہ دل ملتے جن سے وہ عقل سے کام لیتے یا ایسے کان نصیب ہوتے جن سے وہ سن سکتے۔ پس آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ (سورہء حج آیت نمبر سنتالیس).اس آیت کے عین مُطابق اللہ کی زمین میں پھرنے اور مُشاھدے نے دل کی آنکھیں کھول کر دوبارہ مُسلمان تو کر دیا لیکن اب میں بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں کہ میرے اردگرد کوئی سُنّی ہے کوئی شیعہ کوئی دیوبندی ہے کوئی بریلوی کوئی اہل حدیث ہے کوئی مُقلّد اور کوئی غیر مقلّد۔ مُجھے مُسلمان کی تلاش ہے۔ ایسا مُسلمان جو صرف مُسلمان ہوجس کا کوئی مسلک کوئی فرقہ نہ ہو۔ اگر آپکو کوئی مُسلمان ملے تو مُجھے مُطلع کیجیے۔***