کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے۔وہی خدا ہے
وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب سفر کریں سب اس کی جانب
ہر آئنے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ۔ وہی خدا ہے
تلاش اس کو نہ کر بتوں میں وہ ہے بدلتی ہوئی رتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ۔ وہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ۔ وہی خدا ہے
نظر بھی رکھتے سماعتیں بھی وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہ شعور میں جگمگا رہا ہے ۔ وہی خدا ہے
کسی کو تاجِ وقار بخشے کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھوں پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے۔وہی خدا ہے
سفید اس کا سیاہ اس کا نفس نفس ہے گواہ اس کا
جو شعلہ جاں جلا رہا ہے بجھا رہا ہے ۔ وہی خدا ہے