عرب دنیا کے بارے میں چند غلط فہمیاں
وطن عزیز کے وہ لوگ جو عرب دنیا میں کبھی نہ آئے ہوںیا آئے ہوں تو صرف حج یاعمر ہ کے لیے، وہ اس کے بارے میں چند غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ اور اس میں پڑھے لکھے او ر ان پڑھ سب برابرہیں حتی کہ میڈیا کے وہ جگادری بھی جو صرف بند کمروں میں کیمرے کے سامنے دانش بکھیرنے کے ماہر ہیں۔ آج ہم انہی میں سے چند غلط فہمیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
پہلی غلط فہمی ،،دبئی ، ابو ظبی ، شارقہ الگ ملک ہیں
ہمارے ہاں ابھی تک لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ دبئی ، ابوظبی اور شارقہ وغیر ہ الگ الگ ملک ہیں حالانکہ یہ ایک ملک کے مختلف شہر ہیں۔ ملک کانام متحدہ عرب امارات ہے جسے انگلش میں مخفف کر کے یو۔اے ۔ای کہا جاتا ہے اس ملک کا دارالحکومت ابو ظبی ہے ۔ ہمارے ہاں عام طو رسے لوگ دبئی کے نام سے واقف ہیں یا کرکٹ کی وجہ سے شارقہ سے ۔مجھے اس وقت از حد حیرانی ہوئی جب ۲۰۰۷ میں مجھ سے پاکستان کے ایک معروف عالم دین نے، جنہیں میرے بارے میں علم تھا کہ میں ابو ظبی میں ہوتا ہوں ، پوچھا کہ کیا آپ دبئی ویزے کے بغیر جا سکتے ہیں۔ جب میں نے بتایا کہ ویزہ تو پورے ملک کا ہوتاہے اور ملک متحدہ عرب امارات ہے تو کہنے لگے کہ میں تو سمجھتا تھاکہ دبئی الگ سٹیٹ ہے ۔
دوسری غلط فہمی، ،نام کے غلط ہجے
شارجہ کا اصل نام شارقہ ہے اور ابو ظہبی کا اصل نام ابو ظبی ہے ۔ ہمارے ہاں لوگوں نے شارقہ کے ’ق ‘کو ’ج ‘سے بدل دیا اور ابو ظبی کے نام کے اند ر ’ ہ‘ کا اضافہ کر دیا۔ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ لگتاہے کہ ہم نے یہ الفاظ براہ راست ماخذ سے لینے کے بجائے انگریزی سے لیے ہیں۔ چونکہ انگریزی میں
ابو ظبی کو Abu Dhabi لکھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب ’ظ ‘ کے تلفظ کو انگریزی میں dh سے ادا کرتے ہیں اس لیے انگریز ی میں اس نام کے تلفظ کو مخرج سے قریب تر کرنے کے لیے انہوں نے dh لکھنا شروع کردیا اور ہم نے انگریز ی کی پیروی کرتے ہوئے بغیر وجہ سمجھے h کو ’ہ‘ سے بدل کر ایک حرف کا اضافہ کر دیا اسی طر ح’ ق‘ کا تلفظ انگریزی میں’ J‘ سے ادا کیا گیا تو ہم نے اسی کو’ ج‘ بنا دیا حالانکہ یہاں عربی میں ہر جگہ شارقہ ہی لکھا جاتا ہے اور ابو ظہبی کو ابو ظبی۔
تیسری غلط فہمی،، عرب بہت سخی ہیں
لاہور میں ایک اہل علم جو ساری عمر تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہے اور پروفیسر کے منصب سے ریٹائر ہوئے اور جن کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابو ں کا خزانہ ہے ۔ وہ آخری عمر میں اس بات کے لیے فکر مند ہیں کہ کہیں ان کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد یہ علم خزانہ ردی کی نذر نہ ہوجائے ۔ ایک دن علی الصبح ان کا فون آیا ۔ فرمانے لگے کہ میں ایک لائبریری بنانا چاہتاہوں جس میں یہ کتابیں وقف کر دی جائیں اور وہاں ریسرچ کا کام کیا جا سکے۔ اس کے لیے بس دو کروڑ روپے کی ضرورت ہے آپ یہاں کسی عرب سے بات کریں وہ دوکروڑ ڈونیشن دے دے تا کہ علم کا یہ خزانہ ضائع ہونے سے بچ جائے ۔ میں ان کی سادگی پہ بہت حیرا ن ہوا لیکن ان کے احترام میں سوائے ’اچھا جی‘ کے کچھ نہ کہہ سکا۔ان کے فون کے بعد بہت دن سوچتا رہا کہ میرے تو اپنے اس طرح کے بہت سے پلان ہیں لیکن میں اپنی طبیعت کی وجہ سے آج تک پاکستان میں بھی کسی مخیر حضرت کے سامنے اس کا تذکر ہ تک نہیں کر سکا تو یہاں کیسے کر سکو ں گا اوردوسرا یہ کہ میرے کون سے عرب حضرات دوست یا ر ہیں کہ ان سے باتو ں باتوں میں تذکرہ کر دیا جائے ۔ ان کے ہاں توعمومی طور پر ان سب حضرات سے ایک خاص فاصلہ رکھا جاتاہے جو بیرون ممالک سے رزق کی تلاش میں یہاں آئے ہوئے ہیں۔ایک ہفتہ گزرا تھا کہ پھر انہی کا فون آ گیا، فرمانے لگے شاہ صاحب ، کیا بنا،دو کروڑ کا بندوبست ہو گیا؟ مجبوراً کہنا پڑا کہ حضرت یہاں پیسے نہ تو درختوں پہ لگتے ہیں اور نہ ہی سڑکوں پہ جا بجا بکھرے ملتے ہیں باقی رہا کسی سے مانگنے کا ، تو جس طرح آپ لاہور میں ایک وسیع حلقہ احباب اور شاگردوں کی ایک معتد بہ تعداد رکھنے کے باوجود کسی کوکچھ نہ کہہ سکے تو میں خود اجنبی، کسی اجنبی ملک میں کسی کو کیا کہہ سکتا ہوں ۔ان کی نظر میں تو ہم پہلے ہی بھکاری ہیں۔ بس اس کے بعد ان کا فون آنا بند ہو گیا۔ عرب حضرات میں بھی سخی ہوں گے لیکن ان کی تعداداتنی ہی ہے جتنی ہمارے ہاں ہے ۔ جس طرح ہمارے ہاں سخی حضرات کو ڈھونڈنا پڑتا ہے اس طرح یہاں بھی وہ جابجا نہیں ملتے بلکہ اسی طرح معاشرے میں چھپے ہوئے ہیں جس طرح ہیرا کوئلے میں چھپاہوتا ہے ۔ پاکستان میں جو حضرات عرب ممالک سے اپنے اداروں کے لیے چندہ اکٹھا کر کے لے جاتے ہیں وہ اصل میں کسی نہ کسی جماعت یا گروہ سے متعلق ہوتے ہیں ۔اور ان کے یہاں پہلے ہی سے مسلکی یا جماعتی تعلقات ہوتے ہیں او روہ انہی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ڈونیشن لیتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ اس فن کے ماہر بھی ہوتے ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ مارکیٹنگ بھی کرتے ہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ اس کی پہچان صرف مسلمان ہو اور صرف مسلمان ہونے کی بنا پر وہ اپنے کسی ویلفیئر پروجیکٹ کے لیے یہاں سے ڈونیشن لے لے تو ناممکن ہی لگتا ہے۔ عمومی طور پر اس وقت اسلامی دنیا سے مسلمان ختم ہو چکے ہیں۔ صرف دیو بندی ، بریلوی ، اہل حدیث باقی ہیں یا حنفی شافعی ، مالکی اور حنبلی ۔ فی زمانہ عرب دنیا میں ایک نئی تقسیم بھی وجود میں آ گئی ہے اور وہ ہے سلفی ، تبلیغی اور صوفی ۔
چوتھی غلط فہمی، ، عرب قرآ ن سمجھتے ہیں
ہمارے ہاں یہ غلط فہمی بھی عام ہے کہ چونکہ عربوں کی مادری زبان عربی ہے اس لیے وہ قرآن کوخوب سمجھتے ہو ں گے اور اس غلط فہمی میں بھی پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب شامل ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں آنے سے قبل ہم بھی یہی سمجھتے تھے لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ ان کا حال بھی ہمارے جیسا ہی ہے ۔ انہیں بھی قرآن سمجھنے کے لیے باقاعدہ محنت کرنا پڑتی ہے ۔بول چال کی عربی، قرآنی عربی سے یکسر مختلف ہے ۔ کم و بیش بیس عرب ممالک کے طلبا کو پڑھانے کے بعد احساس ہو اکہ ہمار ا تاثر غلط تھا۔ جس طرح ہمیں دیوان غالب یا بالِ جبریل سمجھنے کے لیے باقاعد ہ استاد کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح عربوں کا بھی یہی حال ہے قرآن ان کے لیے ایسے ہی اجنبی ہے جس طرح ہمارے لیے ۔مادری زبان ہونے کی بنا پر کوئی اعلی ادبی کتب سمجھنے کے قابل ہو جاتا تو آج ہر پنجابی ہیر وارث شاہ سمجھ رہا ہوتا اور ہر اردو بولنے والا دیوان غالب۔لیکن جس طرح ہمارے ہاں ہیر اور دیوان کو سمجھنے والے خال خال ہیں اسی طرح عربوں میں بھی قرآن سمجھنے والے کم ہی ہیں۔
پانچویں غلط فہمی ،، عرب بہت اچھے قاری ہوتے ہیں
تجوید و قرأت باقاعد ہ ایک فن ہے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اسے باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے اس لیے یہ سمجھنا کہ محض عرب ہونے کی بنا پر کوئی شخص قرآن اچھا پڑھ لے گا، ایک خام خیالی ہے ۔ پندرہ برس عرب دنیا میں گزارنے کے بعد بلا تعلی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اچھے قاری عرب دنیا سے کہیں زیادہ ہیں ۔مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے عرب ،لہجے بھی مختلف رکھتے ہیں اور ان کی قرأت میں ان کے مادری لہجے کا اثر بھی نمایاں ہوتا ہے ۔ مثلاًمصر ی حضرات ج کو گ بولتے ہیں وہ جمل کو گمل اور جمعہ کو گمعہ کہتے ہیں اس لیے انہیں بھی قرآن سیکھنے کے لیے اساتذہ کے پاس ویسے ہی جانا پڑتا ہے جیسے ہمیں۔اور ان میں سے جو بھی محنت کرلیتا ہے وہ اچھا قاری بن جاتا ہے لیکن جو محنت نہیں کرتا وہ محض عرب ہونے کی بنا پر اچھا قرآن پڑھنے کے قابل نہیں بنتا ۔ بعض مساجد کے آئمہ حضرات کے پیچھے جہری نما ز پڑھ کر تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس وقت میں پاکستان کی فلاں مسجد میں ہوتا۔
چھٹی غلط فہمی ، ، عرب رویت ہلا ل کا اہتمام نہیں کرتے
اسلامی تہوار جیسے کہ رمضان اور عیدین رویت ہلا ل کے ساتھ وابستہ ہیں۔اور اس کے لیے ہمارے ہاں رویت ہلال کمیٹی کام کرتی ہے ۔ عرب دنیا میں عام طور پر ہجری کیلنڈر نافذہے یعنی محرم صفر وغیر ہ ۔ یہاں جو ہجری کیلنڈر بنایا جاتا ہے اس میں درج تواریخ عام طو ر سے صحیح ہوتی ہیں۔لیکن یہ کہنا کہ ان کے ہاں رویت ہلال کا اہتما م نہیں کیا جاتا بالکل بے اصل بات ہے ۔ ان کے ہاں بھی رویت ہلال کا باقاعدہ انتظام ہے اور اسلامی تہوارو ں پر اس کا اعلان بھی کیا جاتا ہے ۔پاکستان کے فوجی صدر ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کسی زمانہ میں وزیر مذہبی امور بھی رہے ۔ ایک ٹی وی مذاکرے میں ان سے رویت ہلال کا پوچھاگیا تو وہ کہنے لگے کہ عرب دنیا میں بھی رویت ہلال کی کمیٹیاں قائم ہیں تو اس پروگرام کے جگادری اینکر کہنے لگے نہیں صاحب وہ تو بس ایک کیلنڈ ر بنا لیتے ہیں پھر اس پر عمل کرتے ہیں۔چاند وغیر ہ نہیں دیکھتے ۔ اعجاز الحق کہنے لگے کہ میں بطور وزیر ذمہ داری سے کہہ رہا ہو ں کہ میں نے خود سعودیہ میں رویت ہلا ل کمیٹی دیکھی ہے اور ان سے ملا بھی ہوں ۔ اس کے باوجود ہمارے اینکر صاحب ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے ۔ اپنی جہالت اور لا علمی پر ڈٹ جانا یہ ہمارے ٹی وی اینکروں کا خاصا ہے ۔ ۱۹۹۵ میں جب میں حج پر گیا تو آٹھ ذی الحج کو منی جانا تھا تو اس سے ایک روز پہلے اعلان ہواکہ رویت ہلال میں غلطی ہو گئی تھی حکومت اس غلطی کے لیے معذرت خواہ ہے اس لیے ذی الحج کی تاریخیں تبدیل ہو رہی ہیں اب حج ایک دن بعد ہو گا اس لیے ہم لوگ پھر ایک دن بعد منی کے لیے روانہ ہوئے ۔ یہاں پچھلے پندرہ سال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ رمضان اور عیدین پر ان کی کمیٹی باقاعدہ رویت کا اہتما م کرتی ہے اور اس کے بعد ٹی وی پر اعلان بھی کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں میں نہ مانوں کی روایت قائم ہے اوریہی کہا جارہا ہے کہ عرب دنیا میں رویت نہیں صرف کیلنڈر سے کام چلایا جاتا ہے ۔
ساتویں غلط فہمی ،، عربوں کے ہاں اسلام کی اصل شکل باقی ہے
ہمارے ہاں ایک طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ اسلام کی اصل شکل آج بھی وہی ہے جس پر عرب عمل پیراہیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے جو عربوں کی روزمر ہ زندگی کو قریب سے دیکھنے ہی سے دور ہو سکتی ہے ۔دیگر علوم و نظریات اور دیگر اقوام کے میل ملاپ نے جس طرح ان کی معاشرت کو متاثر کیا ہے ، اسی طرح ان کی مذہبی زندگی بھی اس اثرات سے خالی نہیں رہی۔ مزید برآں یہ کہ ان کے ہاں بھی مقامی ، قومی ، علاقائی اور جغرافیائی توہمات اور رسومات پور ی طر ح موجود ہیں۔اسلام نے قومی و نسلی احساسِ تفاخر کی جڑ کاٹ کے رکھ دی تھی لیکن ان کے ہاں یہ آج بھی پوری شدت سے قائم ہے اور اس کے مظاہر جگہ جگہ نظربھی آجاتے ہیں۔ اس لیے یہی کہنا اور سمجھنا حق ہے کہ اسلام کی اصل شکل کا ماخذ آج بھی صرف کتاب و سنت ہے نہ کہ عربوں کی زندگی۔
ہماری ان تمام معروضات سے آپ نے یقینایہ نتیجہ اخذ کیا ہو گا کہ غلط فہمی کوئی بھی ہو، اصل میں لا علمی ، جہالت اور دُوری سے پیدا ہوتی ہے اس لیے آخری گزارش یہی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے کی بات غورسے سنیے اور اسے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ غلط فہمی کا شکار ہوں ۔اور جو ں ہی اور جہاں بھی آپ کو غلطی کا احساس ہو جائے تو فوراً صحیح علم کی طرف رجوع کیجیے ، جہالت کا خاتمہ کیجیے اور دوری کو قربت میں بدل دیجیے ۔ دوری چاہے انسانو ں سے ہو ، قوموں ، ملکو ں یا نظریا ت سے، غلط فہمی ہی پیداکیا کرتی ہے بالآخر غلط فہمی نفرت اور تعصب کی طرف لے جاتی ہے اور نفرت وتعصب یقیناًمنفی جذبے ہیں جن پر قابو پا کے ہی ہم خوش و خرم اور صحت مند زندگی کے حامل ہو سکتے ہیں۔