پچھلے سے پچھلے برس ۳۱۔ دسمبر کی شام جب میں یہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ پچھلے سال، اسی لمحے، دو سالوں کے ایسے ہی ایک سنگم پر، کیسے کیسے لوگ شریف محفل تھے ان میں سے کتنے ہیں، جو آج یہاں موجود نہیں اور اگلے سال کے اسی لمحے دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر نہ جانے کتنے ہوں گے جو یہاں موجود نہ ہوں گے ، تو میرے چھوٹے بیٹے علی نے یہ ضد کی کہ آپ تو روز ہی کل پہ ٹال دیتے ہیں لیکن آج کل کی بات نہ کیجیے گا، مجھے تو بس آج ہی کھلونا چاہیے۔
یہ کہا اور مجھے کھینچ کر بازار کی طرف چل دیا۔ ہم باپ بیٹا کھلونوں کی ایک دکان پہ جا پہنچے جہاں رنگ برنگے، مختلف قسموں اور قیمتوں کے کھلونے الگ الگ سجے تھے۔ علی نے ایک کھلونے پہ انگلی رکھی کہ یہ لینا ہے۔ قیمت پوچھی تو دس روپے تھی۔ میں نے دوسری طرف جائزہ لیا تو اس سے بہتر اور پائیدار کھلونے نظر پڑے۔ ان کی قیمت دریافت کی تو معلوم ہوا کہ سب پچاس پچاس روپے کے ہیں۔ میں نے علی سے کہا کہ آپ یہ کھلونا لے لیں ۔ اس نے کہا کہ نہیں مجھے تو یہ دس روپے والا ہی لینا ہے۔ اصل میں ا س کا رنگ و روپ دل لبھا دینے والا تھا۔ علی کی نظر رنگ پہ تھی جبکہ میری نظر پائیداری پر تھی۔ میں نے اگرچہ اپنی بات کے حق میں دلائل و فضائل بیان کرنے کی کوشش کی مگر کچھ بھی کار گر نہ ہوا۔ بالآخر مجھے اس کی پسند کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ کھلونا اس کا ہو کے رہا۔ عین اس لمحے جبکہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی علی کی بات مان رہا تھا۔ میرے دل و دماغ میں ایک بجلی سی کوندی۔ خیال آیا کہ بچہ آخر بچہ ہی ثابت ہوا۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارا ہے۔ ہم بھی نادانی سے اللہ کے حضور بعض اوقات ضد کر بیٹھتے ہیں کہ ہمیں تو بس یہی کچھ لینا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہوتا ہو کہ ہماری ضد ہمیں اس بہتر چیز سے محروم کروا دیتی ہو جو اللہ اپنی حکمت اور کرم سے ہمیں دینا چاہتا ہو۔ جب ایک باپ کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ اپنے بچے کے لیے چیزوں میں سے کم تر چیز کا انتخاب کرے بشرطیکہ بچہ خود کو باپ کی مرضی پہ چھوڑ چکا ہو، تو اللہ کریم کی غیرت کہاں گوارا کرتی ہو گی کہ اپنے بندے کو کم تر چیز دے کر خوش ہو جائے۔ وہ بھی اپنی حکمت و فضل کے تحت بندوں کو بہتر سے بہتر ہی دینا چاہتا ہو گا مگر کہیں بندوں کی کم عقلی، کہیں نادانی، کہیں ضد اور کہیں عجلت رکاوٹ بن جاتی ہو گی۔ میں نے سوچا کہ بچہ اگر خود کو باپ کے سپرد کر کے اپنی رضا کو باپ کی رضا کے تابع کر دیتا تو کتنا فائدے میں رہتا۔ ایسے ہی وہ بندہ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کتنے فائدے اور مزے میں رہے گا جس نے اپنی زندگی خود کو مالک کے سپرد کرکے اور اپنی مرضیات کو اس کی رضا کے تابع کرکے گزاری ہو گی۔
اس ایک لمحے نے نہ صرف یہ کہ میری پوری کیفیت اورحیثیت کو بدل کے رکھ دیا بلکہ اللہ کے حضور میری دعاؤں اور التجاؤں کا رنگ ڈھنگ بھی بدل ڈالا۔ اس سے پہلے بھی میں اللہ کریم سے مانگا کرتا تھا مگر ضد کرکے، کہ یا اللہ مجھے تو بس یہی لینا ہے، تو عطا فرما دے اور اگر یہ میرے لیے بہتر نہیں بھی ہے تو تو قادرِ مطلق ہے اسے میرے لیے بہتر بنا دے۔ شعور کے کتنے ہی برس یوں ہی مانگتے گزر گئے مگر یہ لمحہ عقل و شعور کے کچھ ایسے دریچے وا کر گیا کہ جن سے پہلے سے کہیں زیادہ ٹھنڈی اور سکون پرور فضائیں آنے لگیں۔ اگرچہ وہ پہلے والا انداز بھی ایک محبت اور ‘‘مان’’ کا انداز ہی تھا مگر اس لمحے نے انکشاف کیا کہ اس انداز میں ‘‘مان’’ اور محبت تو بے شک تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اس میں اپنی انانیت اور ‘‘میں’’ بھی برقرار رہتی تھی کہ چونکہ میں اسے اچھا اور ٹھیک سمجھتا ہوں اس لیے یہی عطا فرما۔ لیکن جب بندہ اس سطح پر آجاتا ہے کہ مولا میری عقل اور سمجھ کے مطابق تو یہ اچھا ہی لگتا ہے لیکن میرے اللہ میری عقل اور سمجھ کی حیثیت ہی کیا ہے۔ میری عقل تو بعض اوقات دو اور دوچار کو پانچ بنا ڈالتی ہے۔ مجھے تدبیر کے لحاظ سے بھی اللہ یہ مناسب ہی لگتا ہے لیکن اللہ کریم ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ تدبیروں کے جنازے دوش بر تقدیر اٹھ جایا کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ میں افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد کہتے ہوئے اسے تیرے ہی سپرد کرتا ہوں۔ کوئی انسان خود کو دنیا کے بے حیثیت اور چھوٹے چھوٹے مالکوں کے سپرد کر ڈالے تو وہ بھی شرم کرتے ہیں تو جو خود کو مالک الملک کے سپرد کر دے تو وہ پھر کیوں لاج نہ رکھے گا۔ لیکن اصل مسئلہ تو وہی تسلیم و رضا اور تفویض کا ہے۔یہ مرحلہ اگرچہ پہلے مرحلے سے قدرے مشکل اور ہمت طلب ہے مگر یہ نہ صرف بہت سی پیچیدہ گرھیں کھول دیتا ہے بلکہ بہت سی الجھنیں بھی سلجھا دیتا ہے اور بہت سے مسائل بھی حل کر دیتا ہے شرط بس وہی ہے کہ بندہ اپنی سوچ سمجھ، عقل و شعور، سعی و کوشش اور تدبیر و محنت سب کچھ کرتے ہوئے بھی اس کے حضور ہتھیار ڈال کے نہ صرف ہاتھ اٹھا دے بلکہ یہ بھی اقرار کرے کہ اللھم ھذا لجھد وعلیک التکلان وھذا الدعا وعلیک الاجابۃ۔ خود سپردگی کے اس انداز سے پھر وہ کچھ ملتا ہے جو شاید مانگے سے بھی نہ ملتا ہو۔