حمد رب جلیل
بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نے
دکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تونے
تری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستی
سمویا اپنے ہاتھوں سے مزاجِ جسم و جاں تو نے
نہیں موقوف خلاقی تری اس ایک دنیا پر
کیے ہیں ایسے ایسے سینکڑوں پیدا جہاں تو نے
بہارِ عارضِ گل سے لگا کر آگ گلشن میں
طیورِ صبح خواں کو کر دیا آتش بجاں تو نے
جوانی میں جسے بخشی دل آرائی و رعنائی
بڑھاپے میں اسی عارض پہ ڈالیں جھریاں تو نے
دلوں کو معرفت کے نور سے تو نے کیا روشن
دکھایا بے نشاں ہو کر ہمیں اپنا نشاں تو نے
ہم اب سمجھے کہ شاہنشاہِ ملک لامکاں ہے تو
بنایا اک بشر کو سرورِ کون ومکاں تو نے
محمد مصطفی کی رحمتہ للعالمینی سے
بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نے
حرم اور دیر میں بازار تیرا گرم رہتا ہے
ہر اک بستی میں کر رکھی ہے قائم اک دکاں تو نے
ترے دربار سے مجھ کو یہی انعام کیا کم ہے
کیا اپنی ستائش میں مجھے رطب اللساں تو نے
مے،لاتقنطوا کے نشہ میں سرشار رہتا ہوں
سیہ مستوں کو بخشی ہے حیاتِ جادواں تو نے
مولانا ظفر علی خان