زلزلے نے حقیر سمجھ کر بجھائے جانے و الے چراغوں کو ایک بار پھر سے روشن کر دیاہے اور آج زلزلہ نگر کے گھپ اندھیرے میں، اگر خاطر خواہ روشنی موجود ہے تو وہ انہیں کے دم سے ہے اگرچہ کہیں کہیں کوئی اور دیا بھی ٹمٹما رہاہے ۔لیکن یہ اور، دیے اکثرکیمرے اورمیڈیا کی موجودگی میں توخوب جگمگاتے ہیں لیکن ان کی عدم موجود گی میں ان کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ استثنا بہر حال ہرجگہ ہوتے ہیں۔ادھرمیڈیا کی نظریں بھی عجیب ہیں جس طرح بعض لوگ کلر بلائنڈ ہوتے ہیں میڈیا بھی شاید مولوی بلائنڈ ہے ۔ سیالکوٹ کی سڑکو ں پہ گھومتے چند پرکشش چہرے توانہیں خوب نظر آتے ہیں لیکن زلزلے کے بعدایک گھنٹے کے اندر اندر وہاں کے ہر علاقے میں اپنے بھائیوں کی مد د کے لیے موجود مولوی ان کی نگاہوں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔زلزلہ زدگان کے لیے جس طبقے نے سب سے بڑھ کر اورسب سے پہلے لبیک کہا وہ یہی طبقہ مولویان تھا۔نام اگرچہ ان کے مختلف تھے کسی کا الرشید کسی کاالخدمت ، کسی کاالدعوۃ اورکسی کاکچھاور مگر خلوص سب کا ایک اورمشن بھی سب کاایک تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں نہ صلے کی تمنا تھی اور نہ پروجیکشن کی ۔ یہ رب کی رضا کے طالب تھے اور اسی کی تلاش میں یہ بغیر کسی بلاوے کے یہاں آن پہنچے تھے ۔ اس سے پہلے بھی یہ ان دشوار گزار پہاڑیوں میں اسی جذبے سے جان ہتھیلی پر لیے پھرتے تھے ،اگرچہ ان کے تصورِ جہاد کے صحیح یا غلط ہونے پر بات ہوسکتی ہے لیکن ان کااخلاص بہر حال شک و شبہ سے اسوقت بھی بالا تھااورآج بھی ہے۔یہ طبقہ ہماری قوم کی متاعِ بے بہا ہے ۔ انہیں نظر انداز کرنا یا انہیں اضافی سی چیز سمجھنا صریحاًنادانی ہے ۔ عظیم تر صلاحیتوں کے حامل کسی بھی طبقے کو دیوار سے لگانے کی کوشش کسی بھی قوم کے لیے خطرناک ہوتی ہے اور ہم بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں۔اس لیے ہماری درخواست یہ ہے کہ ایک طرف تو اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ ملک بھر میں امداد جمع کرنے کے سب سے منظم اوراہم مراکز یقینا مساجد، مذہبی تنظیمیں ، اورد ینی جماعتیں ہی تھیں اور دوسری طرف اس کوبھی یاد رکھا جائے کہ ان چراغوں میں تیل بہت ہے انہیں حقیرسمجھ کر بجھانے کی کوشش ایک سعی لا حاصل ہوگی البتہ ان پر دلائل سے درست سمت واضح کرنا اور رب کی رضا کے اور بہت سے راستے ان کے سامنے کھولنا یقینا ایک تاریخی کاوش ہو گی۔
ہم غیر مسلم بھائیوں سے لے کر اداکاروں تک ، گویوں سے لے کرکھلاڑیوں تک ، فوجیوں سے لے کر تاجروں تک اور عوام سے لے کر خواص تک سب کی خدمات کے معترف ہیں اور ان کے جذبوں کے نہ صرف قدرد ان ہیں بلکہ ان کے لیے دعا گو بھی ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ طبقہ جسے مولوی کہا جاتا ہے ان کی خدمات کابھی اعتراف کیا جائے ، انہیں خرقہ پوش سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے کیونکہ وہ خرقہ پوش بھی یقینا انہیں میں شامل ہیں جو اپنی آستینوں میں ید بیضا لیے پھرتے ہیں اوروہ بھی جن کی دعاؤں کاآسماں بھی منتظر رہتا ہے تو ہم ان سے مستغنی کیوں ہوتے ہیں؟ اس میں کسی کا نہیں، بلکہ ہمارا ہی نقصان اور ہمار ا ہی خسارا ہے ۔