ایران کے آتش کدوں سے یثرب کی معطر فضاؤں کا ایک نادرسفر نامہ۔ تلاش حق کی ایک لازوال داستان۔اللہ کے راستے میں نکلنے والوں کے لیے ایک منارہ نور۔سیدنا سلمان فارسیؓ کی وہ سرگزشت جسے سننے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہؓ کوفرمایا تھا کہ وہ یہ داستان ضرور سنیں۔
ایران کے مشہور شہر اصفہان کی ایک مضافاتی بستی ‘‘جی’’ میں ایک با اثر زمیندار رہتا تھا۔ اس کا نام ‘‘بوذخشان’’ تھا۔ اس کا گھر بڑا مذہبی تھا، ہر گھر کی طرح اس کے ہاں بھی ایک معبد تھا اس معبد کے آتش دان میں آگ کبھی بجھنے نہیں پاتی تھی۔ آگ کا ہر وقت جلتے رہنا ان کے نزدیک ایک افضل عبادت تھی۔
بوذخشان نے یہ کام اپنے چودہ پندرہ برس کے بیٹے کے ذمے لگایا ہوا تھا۔ اس لڑکے کا نام مابہ تھا۔ یہ لڑکا بڑا مذہبی تھا۔ اسے اپنے مذہب یعنی آتش پرستی سے بڑی محبت تھی اور اسی لیے اس کے والد بوذخشان کو مابہ سے بڑا لگاؤ تھا۔
ایک دن والد نے مابہ سے کہا کہ آج کھیتوں کی دیکھ بھال کے لیے اسے جانا ہوگا۔ دراصل گھر کی مرمت کے لیے اسے رکنا پڑرہا تھا۔ مابہ نے ایک فرمانبردار بیٹے کی طرح باپ کے آگے سر تسلیم خم کیا اور کھیتوں کی طرف روانہ ہوگیا۔
راستے میں مابہ کو ایک عمارت میں اونچی اونچی آواز سے کچھ پڑھنے کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ عمارت تو اس نے پہلے بھی دیکھی ہوئی تھی لیکن آوازوں سے اس کے کان پہلی دفعہ مانوس ہو رہے تھے۔ آوازیں اسے بہت بھلی لگی تھیں۔ وہ تجسس کے مارے مجبور ہو کر عبادت گاہ کے اندر چلا گیا وہاں ایک بڑے ہال میں اس نے بہت سارے لوگوں کو مل کر کچھ پڑھتے دیکھا، یہ منظر اسے پسند آیا اور وہ خاصی دیر تک وہاں رکا رہا۔
اگلے دن اسے پھر کھیتوں میں جانے کا حکم ملا تو وہ کھیتوں کے بجائے اس عمارت کے اندر چلا گیا۔وہاں اسے ایک پادری ملا۔مابہ نے اس سے بہت سارے سوالات کیے تو اسے معلوم ہوا کہ یہ عیسائی لوگوں کی عبادت گاہ ہے اور اسے معلوم ہوا کہ انھیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ مابہ سے پادری نے پوچھا تواس نے جھٹ سے کہہ دیا کہ اسے ان لوگوں کا مذہب بہت اچھا لگا ہے۔ مابہ نے پادری سے عیسائیت کے متعلق بہت سارے سوالات پوچھے تو اسے بتایا گیا کہ اسے ان سوالوں کے تفصیلی جواب شام جا کر معلوم ہوں گے ان دنوں شام ہی عیسائی مذہب کا مرکز تھا۔
مابہ رات گئے جب گھر لوٹ رہا تھا تو اس فیصلے پر پہنچ چکا تھا کہ اس کا مذہب عیسائیت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
گھر پہنچا تو والد نے اس قدر دیر سے آنے کی وجہ پوچھی۔ جھوٹ بولنا تو مابہ نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ فوراً سچ سچ سب کچھ بتادیا اور والد کو یہ بھی بتادیا کہ اسے عیسائیت آتش پرستی سے بہت بہتر مذہب لگا ہے۔ والد نے یہ سنا تو اپنا سر پیٹ لیا اور بیٹے کو پہلے پیار سے اور پھر ڈانٹ کر سمجھایا کہ اس کا مذہب تمام مذاہب سے اچھا ہے، مگر مابہ نے باپ سے اتفاق نہ کیا تب وہ گرج کر بولا۔ ‘‘مابہ، اچھی طرح کان کھول کر سن لو، آئندہ تم کبھی گرجا گھر نہیں جاؤ گے۔’’لیکن حق کے متلاشی مابہ پر باپ کا یہ حکم نہ چل سکا اور عبادت کے روز چوری چھپے وہ پھر گرجا گھر پہنچ گیا۔ عبادت ختم ہوئی تو اس نے پادری سے پھر کئی سوالات پوچھے ۔ ان سوالات کے نتیجے میں مابہ کو یقین ہوگیا کہ آگ کی پوجا ایک فضول اوربے معنی کام ہے۔ اس نے پادری سے اپنے اس شوق کا اظہار کیا کہ وہ شام جانا چاہتا ہے۔ پادری نے بتایا کہ چند دنوں تک اصفہان سے ایک قافلہ شام کی طرف روانہ ہوگا مابہ دل ہی دل میں منصوبے بناتا گرجا گھر سے باہر نکلا تو اس تلخ حقیقت سے بالکل بے خبر تھا کہ ایک شخص اسے گرجا گھر سے نکلتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ اس شخص کو بو ذخشاں نے بیٹے کی جاسوسی پر لگارکھا تھا۔مابہ جیسے ہی گھر پہنچا باپ کی گرج دار آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ‘‘مابہ ....کہاں گئے تھے۔’’اس ڈانٹ سے مابہ بری طرح سہم گیا تھا لیکن جھوٹ بولنے کی اسے عادت ہر گز نہ تھی سہمی آواز میں بولا ‘‘گرجا گھر’’۔‘‘کیوں... میں نے تو منع کیا تھا۔’’‘‘جی...آپ نے منع کیا تھا... لیکن میں نے آپ سے عرض کی تھی کہ وہ مذہب آتش پرستی سے کہیں اچھا ہے، بھلا جس چیز کو انسان خود جلائے اور خود بجھائے وہ اسے کیسے فائدہ پہنچا سکتی ہے۔’’
‘‘خاموش رہو گستاخ....تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ تمہیں اس گستاخی کی سزا ضرور بھگتنی پڑے گی!’’ بوذخشاں نے کہا اور گھر سے باہر نکل گیا۔
مابہ آنے والے وقت کی تلخی اور تنگی کا اندازہ کرنے لگا۔ اس نے دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ انجام چاہے جو بھی ہو ....وہ حقیقت تک ضرور پہنچے گا۔رات کو جب وہ بستر پر لیٹا تو انھی سوچوں میں غرق تھا۔ پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سوگیا۔
صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے یوں لگا جیسے اس کی ٹانگیں بھاری بھاری ہیں۔ اس نے بستر سے اٹھنا چاہا لیکن نہ اٹھ سکا۔ تبھی اسے معلوم ہوا کہ وہ بیڑیوں سے باندھ دیا گیا ہے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ ہی وہ سزا تھی جس کامزہ چکھانے کی دھمکی اس کے باپ نے اسے دی تھی ۔
اس سلوک نے مابہ کے دل کو شدید ٹھیس پہنچائی باپ کی محبت اور شفقت کا جو تصور اس کے ذہن میں تھا اسے شدید دھچکا لگا وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اس کے باپ کے لیے اصل اہمیت آگ کی ہے اور اپنی نیک نامی کی ہے۔
تھوڑی دیر بعد گھر کا ملازم مابہ کو کھانا دینے کے لیے آیا تو اس نے مابہ کو بتایا کہ اس کا باپ سخت ناراض ہے اگر وہ گرجا گھر نہ جانے کا وعدہ کرے اور آتش پرستی کو برا نہ کہنے کی قسم اٹھائے تو اس کا باپ اسے معاف کر دے گا لیکن مابہ نے دوٹوک انداز میں جواب دیا کہ وہ مرجائے گا لیکن زبردستی کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا۔یہ خادم مابہ سے بہت محبت کرتا تھا۔ جب مسلسل کئی روز تک اس نے اسی طرح باپ بیٹے کو اپنی اپنی ضد پر قائم دیکھا تو اس نے مابہ سے کہا:‘‘بیٹا مجھ سے تمھارا یوں قید میں رہنا دیکھا نہیں جاتا... تم اپنی ضد کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔’’مابہ نے کہا:‘‘بابا! اگر تمہیں مجھ سے کچھ ہمدردی ہے تو کسی نہ کسی طرح گرجا گھر کے پادری سے معلوم کر کے آؤ کہ اصفہان سے شام جانے والا قافلہ کب روانہ ہوگا۔’’خادم نے مابہ کے یہ ارادے دیکھے تو کانوں کو ہاتھ لگانے لگا، لیکن مابہ نے اس کی بہت منت سماجت کی ،اپنی محبت کا واسطہ دیا اور اپنے دل کی حالت بتائی اور کسی نہ کسی طرح اسے اس کام کے لیے آمادہ کر لیا۔
اور پھر ایک دن اس کا خادم یہ خبر لے کرآہی گیاکہ اصفہان سے شام جانے والا قافلہ صرف دو روز بعد روانہ ہونے والا ہے۔ تب مابہ نے خادم سے کہا:‘‘بابا تم نے جہاں مجھ پر اتنی عنایت کی ایک آخری عنایت اور کردو.... مجھے کسی طرح اس کوٹھڑی سے باہر نکلوانے کا بندوبست کر دو۔’’خادم نے کہا‘‘بیٹے آج تمھارا باپ تم سے ملے گا ہوسکتا ہے اسے تم پر رحم آجائے، لیکن اگر اس نے تم پر اپنا ظلم جاری رکھا تو میں تمھاری مدد ضرور کروں گا۔’’مابہ کو اگر چہ اپنے والد سے خیر کی توقع نہ تھی مگر پھر بھی اس کے دل میں امید کی کرنیں پھوٹ پڑی تھیں۔
رات کو کھانے کے بعد جب بوذخشاں مابہ سے ملنے آیا تو اس کا رویہ بڑا ہمدردانہ تھا۔ اس نے بیٹے کو سینے سے لگایا۔ خوب پیار کیا اور اس کی بیڑیاں اتارنے کا حکم دیا پھر وہ اس کے قریب آیا اور بولا:‘‘ بیٹے، کوئی باپ اپنے دل کے ٹکڑے کو اس طرح قید کرنا پسند نہیں کرتا، تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے....اور اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ میں تمہیں بد دین دیکھنا نہیں چاہتا۔’’مابہ نے کچھ نہیں کہاخاموشی سے زمین کی طرف دیکھتا رہا، باپ نے کچھ دیر خاموشی کے بعد پھر اپنی بات شروع کی۔ ‘‘بیٹے، میں نہیں چاہتا کہ تم اپنے باپ دادا کے مذہب کو چھوڑ و تمہیں معلوم ہے کہ اگر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کی سزا اس کے فوت شدہ آباؤ اجداد کو ہوتی ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ تمھیں پسند ہے کہ تمھاری وجہ سے تمھارے دادا اور پڑدادا کی روح کو عذاب دیا جائے۔’’بوذخشاں نے اپنے عقیدے کا سہارا لے کے بیٹے پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے بڑی سادگی اور سچائی سے کہا۔‘‘بابا میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ مجھے آگ جلانا اور اس کی پوجا کرنا اب بالکل اچھا نہیں لگتا۔’’بیٹے کی اس بات نے بوذخشاں کو پھر آپے سے باہر کر دیا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے غصے پر قابو پایا اور ایک مرتبہ پھر اسے سمجھانے لگا مگر اس کے لہجے میں گھلی ہوئی تلخی اور سختی مابہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ویسے بھی اسے والد کی تمام باتیں کھوکھلی اور بے دلیل محسوس ہوئی تھیں۔ اس لیے وہ محض خاموش ہو کر رہ گیااس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجوسیت سے اس کی نفرت مزید گہری ہو گئی اور اس کا باپ بھی بیٹے کی اندرونی کیفیت کو جانے بغیر نہ رہ سکا چنانچہ وہ غصے سے اٹھا اور مابہ کو مزید دھمکیاں دیتا ہوا باہر نکل گیا۔ جاتے ہوئے اس نے خادم کو حکم دیا کہ مابہ کو پھر بیڑیاں ڈال دی جائیں اور کل سے اس کا کھانا بند کر دیا جائے۔
ادھر باپ کا یوں دکھی اور ناراض ہو کر چلے جانا مابہ کے لیے بڑا تکلیف دہ تھا لیکن وہ بھلا کر بھی کیا سکتا تھا!آخر سچ کی کچھ تو قیمت اسے ادا کرنی ہی تھی۔مابہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ خادم اس کے کمرے میں داخل ہوا اس نے مابہ کو اس کے باپ کا نیاحکم سنایا تو مابہ بولا:‘‘بابا، تم نے میرے باپ کا رویہ دیکھ ہی لیا اب تمہارا کیا فیصلہ ہے۔’’خادم نے کہا:‘‘بیٹے، میں نے تمہیں اپنے بیٹوں کی طرح سمجھا ہے۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوگا کہ میں خود کھانا کھاؤں اور تمہیں کچھ نہ دوں میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہاری مدد ضرور کروں گا۔ چاہے اس کی مجھ کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے۔’’
اور خادم نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا....اس نے مابہ کو ایک سلاخ دی اور کہا کہ وہ رات کو اس سلاخ کے ذریعے بیڑیاں کھول لے اور وہ کھڑکی کھول رکھے گا بیڑیاں کھل جانے سے اس کے لیے یہاں سے نکلنا مشکل نہیں ہوگا۔’’چنانچہ آدھی رات کے قریب مابہ نے خادم کے بتائے ہوئے طریقے سے بیڑیاں کھول لیں اور باپ کے قید خانے سے فرار ہوگیا۔ جاتے ہوئے اس کے دل میں خادم کے لیے بہت سی دعائیں تھیں اور ماں باپ کے لیے عجیب جذبات جن کووہ کوئی نام نہ دے سکا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے دور ہوتاچلا گیا اور اس کی منزل گرجا گھر تھی اسے یقین تھا کہ گرجا گھر کا پادری اس کی مدد ضرور کرے گا۔مابہ نے جب آدھی رات کے قریب پادری کے کمرے پر دستک دی تو وہ آنکھیں ملتا ہوا باہر نکلا۔ پادری مابہ کو اس وقت اس حالت میں دیکھ کر سخت حیران ہوا ۔ اس نے اپنی کہانی سناکر اس کی حیرت دورکر دی مابہ نے آخر میں کہا:‘‘میں اپنا گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ آیا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہاں رہ کر میں سچے مذہب کو اختیار نہیں کر سکتا۔ کیاآپ میری مدد کریں گے۔’’پادری نے مابہ جیسا سچا اور مذہب سے محبت سے کرنے والا نوجوان پہلی مرتبہ دیکھا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا کہ صبح جب اس کے باپ کو مابہ کے فرار کی خبر ملے گی تو وہ سب سے پہلے یہیں آئے گا اور جب مابہ اس کے گھر سے بر آمد ہوگا تو اس کے لیے یہ بہت خوفناک بات ہوگی۔ بوذخشاں ایک بااثر زمیندار تھا اور اس کی رسائی بادشاہ کے دربار تک تھی مگر اس نازک لمحے پر وہ مابہ جیسے مخلص اور سچے جذبے کے مالک لڑکے کو جھوٹ اور جبر کے اندھیروں میں دھکیلنا بھی مناسب نہیں سمجھتا تھا اس نے تمام خطرات اور خدشات کے باوجود اپنی ذہنی کیفیت پر قابو پالیا اور مابہ سے کہا:‘‘ بیٹا، میں تمہاری ہر ممکن مدد کروں گا۔ آؤ اندر آجاؤ۔’’
مابہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔‘‘میرا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں، میرے والد مجھے تلاش کرنے یہاں ضرور آئیں گے۔ آپ نے چند دن قبل شام جانے والے ایک قافلے کا ذکر کیا تھا۔ کیا یہ ممکن نہیں آپ مجھے اس قافلے میں شامل کرادیں۔’’‘‘یقینا ایسا ہی ہوگا، اور اس وقت تم میرے ساتھ آؤ۔’’پادری مابہ کو اپنے بہت قریبی دوست کے گھر چھوڑ آیااور اسے تسلی دی کہ اسے قافلے کے ساتھ روانہ کر دیا جائے گا۔تاجروں کا ایک قافلہ شام جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اسے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جانا چاہیے تھا لیکن اصفہان کے ایک امیر اور بااثر شخص کے حکم پر وہ کچھ دیر کے لیے رک گئے تھے۔تھوڑی ہی دیر بعد وہ بااثر آدمی ایک دوسرے آدمی کے ہمراہ وہاں پر پہنچا یہ دوسرا آدمی بوذخشاں کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ یہ دونوں شخص اپنے ساتھ بادشاہ کی فوج کے اہم لوگ بھی لائے تھے۔ انہوں نے آتے ہی قافلے کی تلاشی لینا شروع کر دی یقینی طور پر انہیں مابہ کی تلاش تھی۔
انھوں نے قافلے کے ایک ایک شخص کو دیکھا مگر انہیں گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔مابہ واقعی اس قافلے میں موجود نہیں تھا۔ دراصل بوذخشاں پہلے پادری ہی کے گھر گیاتھا لیکن جب وہاں مابہ کا کچھ علم نہ ہوسکا تو اسے یہ شک گزرا کہ مابہ کہیں عیسائیت قبول کر کے شام کی طرف جانے والے قافلے کے ہمراہ نہ چلا گیا ہو اس نے اپنے ایک جاننے والے کے ذریعے سے تاجروں کے اس قافلے کو روکا تھا جب مابہ نہ ملا تو قافلے کو روانہ ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
اصفہان شہر کی حدود سے کچھ فاصلے پر ایک گھوڑا سرپٹ بھاگ رہا تھا اس کا رخ اسی قافلے کی طرف تھا جو ابھی ابھی اصفہان سے روانہ ہوا تھا اس گھوڑے پر ایک کے بجائے دو سوار تھے ایک کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ ہوگی اور دوسرا ابھی چودہ پندرہ برس کا نو عمر لڑکا تھا۔جب قافلے کے سردار کو بتایا گیا کہ ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا قافلے کی طرف آرہا ہے تو اس نے قافلے کو رکنے کا حکم دیا۔ سردار خود قافلے سے نکل کر چند محافظوں کے ہمراہ اس گھوڑے کی طرف چل دیا جو نہی گھوڑا ان کے قریب آکر رکا سردار بولا:‘‘پادری صاحب آپ بہت وقت پر پہنچے ہیں!’’
‘‘اللہ کا شکر ہے جس کی توفیق سے ہم دونوں یہاں محفوظ پہنچ گئے ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ ہی تو ہمارا تعاقب ہوا ہے اور نہ ہی کسی کو معلوم ہے کہ ہم آپ کے قافلے کی طرف جارہے ہیں۔’’‘‘بہت خوب۔’’ سردار نے نوجوان کی طرف دیکھا تو پادری بولا۔‘‘یہ ہے وہ نو جوان....مابہ ....جس کے متعلق میں نے آپ سے بات کی تھی۔’’
‘‘ہوں......’’ سردار نے سر سے پاؤں تک مابہ کا جائزہ لیا ۔ ٹھیک ہے جناب، آپ کے حکم کے مطابق ہم اس لڑکے کو شام تک بحفاظت پہنچا دیں گے۔ مابہ نے پادری کا شکریہ ادا کیا اور اس سے دعا کی درخواست کی۔ پادری نے بڑی محبت سے مابہ کو رخصت کیا اور قافلے کے سردار کو ایک دفعہ پھر درخواست کی کہ وہ مابہ کا خیال رکھے۔
رخصت ہوتے وقت مابہ نے اپنے محسن پادری کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اپنے لیے خصوصی دعا کی استدعا بھی کی۔ پادری نے مابہ کو بڑی محبت اور نم ناک آنکھوں سے الوداع کہا اور ایک خط دے کر کہا کہ وہ اسے شام کے بشپ کو دے دے ۔
منزلوں پر منزلیں مارتا یہ قافلہ بخیرو عافیت شام جا پہنچا۔ قافلے کے سردار نے اپنے وعدے کے مطابق مابہ کو عیسائیوں کے مرکز کا پتا بتایا اور وہ جلد ہی ایک پرشکوہ عمارت میں پہنچ گیا۔
مابہ کی رسائی ایک بڑے بارعب شخص سے کرائی گئی جسے تمام لوگ بشپ کہتے تھے۔ اس نے بشپ کو اپنی ساری داستان سنائی اور اصفہان کے اس پادری کا خط بھی اس کے حوالے کیا جو رخصت ہوتے وقت اسے دیا گیا تھا۔ خط پڑھ کر اور مابہ کی لگن اور حق سے محبت دیکھ کر بشپ نے اسے اجازت دی کہ وہ اس کے خدمت گزاروں میں داخل ہوسکتا ہے۔چند ہی دنوں بعد مابہ نے باقاعدہ طور پر عیسائیت قبول کر لی اور بشپ نے اسے بپتسمہ دیا۔ مابہ سمجھتا تھا کہ اس نے زندگی کی سب سے بڑی نعمت پالی ہے اور اب وہ دل کا چین اور روح کی آسودگی پاسکے گا۔لیکن اس کی یہ خوشی بہت عارضی ثابت ہوئی۔
اس نے ایک دن ایسا منظر دیکھا جس نے اس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ آسمان سے زمین پر گر پڑا ہو۔ہوا یوں کہ ایک دن وہ کسی کام سے بشپ کے ذاتی کمرے میں چلا گیا۔ بشپ کے ذاتی خادم ہونے کے ناطے اسے اجازت کی ضرورت نہیں تھی یا وہ اجازت لینا بھول گیا ۔ معاملہ جو کچھ بھی تھا، لیکن اس کے نتیجے میں جو کچھ اس کی آنکھوں نے دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ مابہ کمرے میں داخل ہوا تو بشپ ایک مٹکے میں کچھ ڈال رہا تھا مابہ نے غور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ بشپ مٹکے میں سونے چاندی کے زیورات ڈال رہا ہے مابہ ان ہی قدموں پر واپس آگیا سونے چاندی کے ان زیورات کو ایک مٹکے میں ڈالنا اور وہ بھی اپنے ذاتی کمرے میں یہ ماجرا اس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہ اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ بشپ لوگوں سے وصول کرنے والے نذرانے اور خیرات کے عطیات خود جمع کر رہا ہے لیکن وہ اس بات کو بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ بشپ کو تو ایک سادہ زندگی بسر کرناہوتی ہے اسے کسی مٹکے میں سونے چاندی کے زیورات جمع کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں۔اس کے ذہن میں آیا کہ ہوسکتا ہے کہ بشپ نے حفاظت کے طور پر چرچ کی اس امانت کو اپنے پاس رکھا ہو لیکن یہ بات اس لیے نہیں مانی جاسکتی تھی کہ خیرات اور عطیات کو جمع کرنے اور محفوظ کرنے کا تو باقاعدہ ایک محکمہ ہے ۔ ان عطیات کا بشپ کے کمرے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بہر کیف حقیقت جو بھی تھی ،مابہ بشپ کو خائن اور بددیانت ماننے پر آمادہ نہ ہوا۔ لیکن شک کا بیج ضرور اس کے سینے میں بویا جا چکا تھا پھر اسی شک کی بنا پر اس نے بشپ کی سن گن لینا شروع کی اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک رات اس نے بشپ کے کمرے میں روشنی دیکھی۔ اس نے دروازے کی اوٹ سے جو کچھ دیکھا اس کے بعد کسی دوسری رائے کی گنجائش نہیں رہی تھی۔
مابہ بشپ سے بہت محبت کرتا تھا لیکن اس کا یہ روپ دیکھ کر اسے بہت صدمہ پہنچا۔ پوری رات وہ سو نہ سکا۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟اچھی طرح جانتا تھا کہ جس طرح وہ بشپ سے محبت کرتا ہے، اسی طرح سب لوگ اس کے گرویدہ ہیں۔ یہ بات بھی اس پر واضح تھی کہ وہ ایک اجنبی آدمی ہے اور اسے یہاں پر آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس عالم میں اگر اس نے لوگوں کو بشپ کے بارے میں کچھ بتانا بھی چاہا تو لوگ اس کا یقین نہیں کریں گے اور الٹا اسے ہی جھوٹا اور احسان فراموش سمجھیں گے۔ مابہ سوچ کے ان ہی الجھاؤ میں الجھا رہا لیکن کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکا۔
اگلے کئی روز وہ اس نا گوارراز کے بوجھ کو سینے میں دبائے پھرتا رہا ۔ کوئی بھی اسے اس قابل نظر نہ آیا کہ اس کا محرم راز بنے۔بعض اوقات تو وہ اپنے آپ سے لڑنے لگتا کہ جس سچائی او ر حقیقت کی خاطراس نے اپنا گھر بار چھوڑا ، ماں باپ اور بہن بھائیوں سے کنارہ کشی اختیارکی ، وہ اگر یہ ہی کچھ ہے تو اس نے بہت گھاٹے کا سودا کیا ۔ لیکن پھر اس کے اندر سے آواز آئی کہ یہ ایک شخص کی ذاتی برائی ہے، اس سے اس کے نئے مذہب میں یاحقیقت کی جستجو میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوئی۔مابہ اسی الجھن میں رہاکہ بشپ اچانک بیمار پڑ گیا۔ اس کے دل نے گواہی دی کہ اللہ کی خاموش لاٹھی اس منافق شخص پر برس کر رہے گی اور یونہی ہوا۔ بشپ چند ہی روز کسی پراسرار علالت کے دوران ہی میں مرگیا۔
بشپ کی موت پر لوگوں میں کہرام مچ گیا۔ دورو نزدیک سے لوگ اس کا سوگ منانے پہنچنے لگے۔ مابہ کے لیے یہ صورت حال بڑی تکلیف دہ تھی۔ لو گ اس کو اللہ کاولی قراردیتے۔ عظیم انسان اور عالم دین مانتے مگر حقیقت کا علم تو مابہ کوتھا، وہ دل ہی دل میں کڑھنے لگا۔ جب بشپ کی آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں اور لوگ اس کا آخری دیدار کر کے رو رو کر ہلکان ہورہے تھے تو مابہ نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔
اس کے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ لوگوں کے اخلاص کا مذاق اڑایا جائے اور ان کی سچی محبت پر ایک جھوٹا شخص ڈاکہ ڈالے۔ اس نے لوگوں کو بشپ کا اصل چہرہ دکھانے کا پختہ عزم کر لیا۔ جب جنازے کی دعائیں مکمل ہو چکیں اور بشپ کی تدفین کا مرحلہ در پیش ہوا تو اچانک آواز گونجی۔یہ آواز مابہ کی تھی۔وہ ایک اونچی جگہ پر کھڑا تھا اور پوری قوت سے بول رہا تھا :‘‘لوگو! میرے پاس تمہارے پیارے اور محترم بشپ کا ایک اہم راز ہے۔’’
تمام لوگ حیران ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ دوبارہ بولا‘‘آج میں آپ لوگوں کو بشپ کی اصلیت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔’’مابہ خاموش ہوا تو ایک شخص بولا:‘‘ ہمیں معلوم ہے ، وہ نہایت نیک اور پرہیز گار انسان تھے۔’’‘‘نہیں!’’ مابہ چیخا۔‘‘ یہ ہی تو تمہاری بھول ہے، بشپ ایک جھوٹا اور مکار شخص تھا، وہ ایک کھوٹا سکہ تھا۔’’اس اعلان نے گویا مجمع میں آگ لگا دی۔ سبھی پہلے حیرت سے اور پھر غصے سے مابہ کی عقل پر ماتم کرنے لگے۔ لوگ مختلف تبصرے کر رہے تھے، کوئی اونچی تو کوئی آہستہ۔‘‘ارے یہ نوجوان کیسی باتیں کر رہا ہے۔’’‘‘یہ پاگل ہوگیا ہے۔’’‘‘احسان فراموش ہے۔’’
ایک شخص نے لوگوں کو خاموش ہونے کے لیے کہا اور بولا: ‘‘تمہارے پاس اپنے دعوے کا کیا ثبوت ہے۔؟’’ بشپ کو ملنے والے تمام عطیات ان کے خاص کمرے میں محفوظ ہیں۔’’‘‘تمہیں کیسے معلوم ہوا؟’’ اسی شخص نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔‘‘میں نے ایک دن اتفاقاً بشپ کو اس کے کمرے میں سونے چاندی کے زیورات محفوظ کرتے دیکھ لیا تھا۔تمہیں یقین نہ ہو تو جاؤ، خود جاکر اس کمرے کی تلاشی لے لو۔’’مابہ کے اس کھلے چیلنج نے لوگوں میں سنسنی دوڑادی۔ لوگ اب کھسر پھسر کرنے لگے۔ پھر ایک آواز آئی:‘‘ مابہ، اگر تمہاری بات غلط نکلی تو سزا جانتے ہو؟’’‘‘مجھے سزا کی کوئی پروا نہیں، میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کے سچے جذبات کو دھوکا نہ دیا جائے۔’’
مابہ کی اس بات نے لوگوں کو سنجیدہ کر دیا اور اسی وقت کچھ لوگ بشپ کے ذاتی کمرے کی طرف لپکے۔ انہیں دیر نہ لگی تھی کہ وہ ایک ریڑھی پر کئی ایک دیگیں لاد کر لے آئے اور پھر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، یہ دیگیں ہیرے جواہرات اور سونے چاندی سے بھری ہوئی ہیں۔’’لوگوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ بپھر گئے اور کفن میں لپٹے بشپ کی لاش پر ٹوٹ پڑے۔ پہلے اس کی خوب بے حرمتی کی اور پھر اس کی لاش کو صلیب پر لٹکا دیا۔
مابہ کے لیے یہ منظر کسی راحت یا خوشی کا باعث نہ تھا بلکہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی مالا موتی موتی ٹوٹنے لگی۔جلد ہی نیا بشپ مقرر ہوا اور مابہ اس کابھی خادم مقرر ہوا۔
نئے بشپ کو مابہ نے ہر طرح سے ایمان دار اور نیک انسان پایا۔ مابہ اس سے بے انتہا محبت کرنے لگا۔ اس نے مابہ کو مذہب کے متعلق کئی حقائق اور قیمتی باتیں بتائیں۔ مابہ نے اس قدر نیک اور عظیم انسان کی صحبت مہیا ہونے پر اللہ کا شکر ادا کیا ۔ لیکن اس کی یہ خوشی بھی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔
ہوا یوں کہ یہ بشپ بھی بیمار پڑگیا۔ مابہ نے اس کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، لیکن اس کی حالت روز بروز بگڑتی چلی گئی۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اب اس کا آخری وقت قریب ہے۔ ایک روز اس نے مابہ کو اپنے پاس بلایا اور کہا:‘‘ بیٹا، مجھے یقین ہے کہ میں اب زیادہ دیر نہ جی سکوں گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے اندر علم کی سچی طلب ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہاں پر اب کوئی شخص ایسا نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔’’
‘‘یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں محترم استاد؟’’‘‘ہاں بیٹا، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سچے مذہب پر کئی جھوٹی باتوں کا سایہ پڑ چکا ہے اور جو لوگ جھوٹے عقیدے کو چھوڑ کر سچا عقیدہ رکھنا چاہتے ہیں ان پر زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔ ان حالات میں تمہارا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ تم ‘‘موصل’’ چلے جاؤ۔ وہاں کا پادری ایک سچا انسان ہے۔ وہ جھوٹے عقیدوں پر ایمان نہیں رکھتا، تم اس سے ملنا اور میرا یہ رقعہ اسے دینا۔’’ بشپ نے اسے اپنے تکیے کے نیچے سے چمڑے پرلکھا ایک پیغام اسے دیا اور مابہ نے اسے رکھ لیا۔ بشپ کا اسی دن انتقال ہو گیا۔
آخری رسومات اداکر کے مابہ نے اپنا مختصر سا سامان اٹھایا اور ایک قافلے میں شامل ہو کر موصل جا پہنچا۔ موصل پہنچ کر وہ متذکرہ پادری سے ملا اور اسے پہلے بشپ کا رقعہ دیا۔ اس پادری نے مابہ کی بہت قدر کی اور اسے اپنی شاگردی میں لے لیا۔ مابہ کی قسمت میں ابھی اور سفر لکھا تھا، اسی لیے تو یہ پادری بھی بستر مرگ پر لیٹ گیا۔ پادری کے یوں بستر مرگ سے لگ جانے پر مابہ بہت پریشان تھا۔ اس نے مابہ کو نصیحت کی کہ اس کے مرنے کے بعد وہ نصیبین نامی شہر کی طرف روانہ ہو جائے۔ وہاں پر اس نے ایک پادری کا نام بتایا اور کہا کہ اس کے پاس تمہیں سچے مذہب کی تعلیمات ملیں گی۔اس کی نصیحت کے مطابق مابہ نے نصیبین کا رخ کیا اور بتائے گئے پادری کے پاس جاپہنچا۔ یہاں بھی مابہ زیادہ عرصہ قیام نہ کر سکااور پادری نے اسے ایک دوسرے شہر عموریہ کی طرف روانہ کر دیا۔
عموریہ میں مابہ نے خاصا عرصہ قیام کیا۔ وہاں کا پادری بھی نیک اور متقی انسان تھا۔ اسے دنیا سے کم اور اپنی آخرت سنوارنے کی زیادہ فکر رہتی ۔ اس نے مابہ کو نصیحت کہ وہ اپنی گزر بسر کے لیے کچھ کمانے کا انتظام کر لے۔ یہ ایک بڑا پادری تھا اور اسے اسقف کہتے تھے۔اس نصیحت کے مطابق مابہ نے کچھ بکریاں اور گائے پال لیں۔ اس کام میں مابہ کو بڑی کامیابی ہوئی اور اللہ نے اسے خوب رزق دیا۔
آخر اس پادری کا بھی وقت آخر آیا تو مابہ نے اسے کہا:‘‘اے شفیق استاد، آپ کو میری ساری داستان کا علم ہے، میں سچائی کی تلاش میں اپنا سفر جاری کیے ہوئے ہوں، اب تک آپ ہی میری منزل تھے، اب بتائیں میں کہا جاؤں؟’’اس بوڑھے اسقف نے کمزور سی آواز میں کہا:‘‘بیٹا، مجھ سے پہلے لوگ خوش قسمت تھے۔ وہ اس دنیا میں اکیلے نہیں تھے۔ ان کی سچائی میں اور بھی کئی شریک تھے۔ لیکن میں مجبور ہوں، مجھے دور دور تک کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتاجو اب سچے دین پر قائم رہا ہو۔ سبھی لوگ بگڑے ہوئے دین کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اللہ نے جس رسول کو اپنا بندہ بنا کر بھیجا تھا، لوگوں نے اسے اللہ کا بیٹا بنا لیا ہے اور تم جانتے ہو، جو کوئی حضرت عیسٰیؑ کواللہ کا بیٹا نہ مانے گا، لوگ اس کا کیا حشر کریں گے۔ اس دور میں کم از کم مجھے کسی سچے آدمی کا سراغ نہیں ملتا۔’’مابہ نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا:‘‘اے محترم استاد، تو کیا میں پھر اندھیروں میں بھٹکتا پھروں؟’’‘‘نہیں بیٹے اس اندھیرے میں بھی امید کی کرن باقی ہے۔’’‘‘وہ کیا میرے محسن؟’’ ‘‘تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کی کتاب میں ایک آنے والے نبی کا ذکر ہے۔ میرا علم کہتا ہے کہ اس نبی کی آمد کا وقت اب زیادہ دور نہیں ۔ بیٹا یہ وہی نبی ہے جو ہمارے جد امجد ابراہیمؑ کے دین کو پھر سے زندہ کر دے گا۔’’
‘‘حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے والد یعقوب یعنی اسرائیل کے دادا؟’’ ‘‘ہاں میرے بیٹے وہ ان ہی ابراہیمؑ کے دین کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ کھجوروں والی سرزمین میں آئے گا۔ تم نے اگر اس نبی کو پالیا تو سمجھ لو کہ اصفہان سے جس منزل کی تلاش میں تم نے سفر شروع کیا تھا وہ کامیابی سے طے ہو گیا۔’’
‘‘محترم استاد، میں اگر کھجوروں والی زمین پر پہنچ گیا تو پھر اس نبی کو پہچانوں گا کیسے؟’’اسقف نے اپنی ڈوبتی آواز پر قابو پایا اور کہا:‘‘ بیٹے تمہیں معلوم ہے کہ تثلیث کے عقیدے کے بعد نئے نبی کی پیشین گوئیوں پر گردو غبار آگیا ہے لیکن میں تمہیں اس نبی کی تین نشانیاں بتاتا ہوں۔ ان نشانیوں کے ذریعے سے تم اس نبی کو پہچان سکو گے۔’’اسقف کچھ لمحے رکا تو مابہ سمٹ کر اور اس کے قریب آگیا۔ مابہ نے انتہائی توجہ سے اسقف کی بتائی ہوئی نشانیاں سنیں اور انہیں اچھی طرح ذہن نشین کر لیا۔ ان نشانیوں کو سننے کے بعد اسے یوں لگا جیسے دل پر پڑا برسوں کا بوجھ یک دم ہلکا ہو گیا ہو۔ اسے اپنی منزل قریب محسوس ہوئی اور خیالوں ہی خیالوں میں کھجوروں کی سرزمین کی سیر کرنے لگا۔
اگلے ہی روز مابہ کو یہ بشارت دینے والا اسقف بھی راہی ملک عدم ہوا۔ مابہ نے اس کی آخری رسومات میں شرکت کرنے کے بعد اپنی بھیڑ بکریوں اور گائیوں کو فروخت کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے کھجوروں والی سرزمین کے متعلق لوگوں سے پوچھا۔ اسے جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ اسقف کی بتائی ہوئی سرزمین عرب ہے اور وہیں کھجوروں کے باغات ہیں۔ اس دوران میں مابہ کو اپنی بھیڑ بکریاں اور گائیں فروخت کرنے کے لیے کوئی مناسب گاہک نہ ملا۔ایک دن ایک شخص نے مابہ کو بتایا کہ ایک عرب قبیلے کا تجارتی قافلہ عموریہ میں ٹھہرا ہوا ہے اور جلد ہی عرب کی طرف روانہ ہوجائے گا۔مابہ نے اس قافلے کے متعلق معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ یہ بنی کلب کا قافلہ ہے ۔ مابہ نے قافلے کے سردار سے بات کی اور کہا:‘‘مجھے عرب کی سرزمین جانا ہے، اگر تم مجھے وہاں پہنچا دو تو میں تمہیں اپنے سارے جانور دینے کو تیار ہوں۔’’سردار نے حیرت سے مابہ کی طرف دیکھا۔ بھلا اس سے بہتر اور کیا پیشکش ہو سکتی تھی۔ اسے کیا خبر تھی کہ مابہ کے لیے مال و دولت ایک بے معنی چیز ہے۔وہ تو کسی اور خزانے کی تلاش میں ہے۔ عرب سردار نے فوراً حامی بھرلی اور مابہ کو جانوروں کے بدلے عرب پہنچانے کا وعدہ کر لیا۔ایک آدھ دن کے وقفے کے بعد قافلہ روانہ ہوگیا اور مابہ اس کے ہمراہ تھا۔قافلہ جیسے جیسے منزل کے قریب پہنچ رہا تھا، ویسے ویسے قافلے والوں کا رویہ مابہ کے ساتھ کچھ عجیب سا ہونے لگا۔یہ لوگ نہ اس سے کوئی بات کرتے اور نہ مابہ کو اپنی محفل میں شریک کرتے۔ بعض اوقات تو مابہ دیکھتا کہ وہ اس کی طرف کن اکھیوں سے دیکھ رہے ہیں اور اشارے کر رہے ہیں مگر اس نے ان کی ساری حرکتوں کو نظر انداز کر دیا۔ اسے تو عرب پہنچنے سے دلچسپی تھی ۔ مابہ نے سوچا کہ عربوں کے اس رویے کی یقینا یہ ہی وجہ ہوگی کہ وہ ان کے لیے اجنبی ہے۔ اسے کون سا عرب میں ان لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔ منزل پر پہنچ کر سب اپنی اپنی راہ لیں گے۔نہ ان تاجروں کو اس سے کوئی لینا دینا ہوگا اور نہ اسے ان سے۔
سفر کے تیسرے ہفتے وہ لوگ ‘‘القریٰ’’ نامی بستی میں پہنچ گئے۔ منزل اب قریب تھی۔ مابہ کو بتایا گیا کہ یہاں پر یہودیوں کی خاصی تعداد رہتی ہے۔ قافلے نے رات یہاں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔خیمے گاڑے گئے اور کھانا تیار کیا جانے لگا۔ مابہ نے محسوس کیا کہ اس دفعہ قافلے والوں نے اہتمام سے کھانا تیار کیا ہے اور ایک بات اور وہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ یہ کہ عربوں کا رویہ اس سے بدل گیا ہے۔ اب وہ اس سے خوش اخلاقی سے پیش آرہے تھے اور اسے ہنسی مذاق کی محفلوں میں شرکت کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔ دستر خوان پر بھی انہوں نے مابہ کو خصوصاً اپنے ساتھ بٹھایا اور خوب کھلایا پلایا۔ کھانے کے بعد اسے ایک شربت پیش کیا گیا۔ مگر مابہ نے کہا کہ وہ پانی کے علاوہ کوئی چیز نہیں پیتا لیکن ہم سفروں نے کچھ اس محبت اوراصرار سے فرمایش کی کہ مابہ کو یہ شربت پینا پڑا۔دن بھر کے سفر کی تھکن تھی یا شربت کا کچھ اثر، مابہ کو جلد ہی نیند آنے لگی۔ وہ ان سے اجازت لے کر اپنے خیمے میں آگیا اور گہری نیند سو گیا۔
صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج سر پر آچکاتھا۔ وہ فوراً اٹھا، خیمے سے باہر دیکھا تو منظر بدل چکا تھا، قافلہ غائب تھا اور اسے چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔مابہ اس صدمے سے ابھی نکل ہی پایا تھا کہ اس کے کانوں میں گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آئی ۔ اس نے مڑکر دیکھا تو کچھ لوگوں کو کھڑے پایا۔
ایک شخص نے کہا :‘‘مابہ تم میرے غلام ہو، میں نے تمہیں بنی کلب سے خرید لیا ہے۔ یہ دیکھو تحریر۔’’مابہ نے حیرت سے یہ الم ناک خبر سنی۔اسے اب بنی کلب والوں کی سازش سمجھ آرہی تھی ۔انہوں نے اسے شربت میں کچھ گھول کر پلا دیا تھا اور اسے فروخت کر کے آگے نکل گئے تھے۔
مابہ ایک کٹی پتنگ کی طرح تھا، وہ یہاں سے بھاگنا بھی چاہتا تو کہاں بھاگتا؟ اس لیے وہ تقدیر کے اس فیصلے کو قبول کرنے پر مجبور تھا۔اسی وقت اس شخص نے مابہ کو بیڑیاں پہنا دیں اور اسے بتایا کہ وہ ایک یہودی ہے اور مابہ اس کا غلام۔مابہ نے اس پر بہت شور مچایا، یہودی کو قافلے والوں کے دھوکے کے متعلق بتایا مگر اس نے مابہ کو بیڑیاں پہنا کردم لیا۔
بیڑیاں پہنتے ہوئے مابہ کی عجیب کیفیت تھی، اسے باپ کا گھر یاد آرہا تھا۔اس وقت اسے باپ کی پہنائی ہوئی بیڑیاں بہت اچھی لگی تھیں۔ اسے غلام بن جانے کا دکھ تو تھا ہی لیکن اس غم کا اثر سوا تھا کہ وہ منزل کے اس قدر قریب آکر بھی اس سے دور اور محروم ہے۔اس کا یہودی آقا اسے اپنے گھر لے گیا اور اسے کام کاج پر لگا دیا۔
مابہ نے القریٰ کی بستی میں بھی کھجوروں کے درخت دیکھے تو دل کو تسلی دی کہ اس کی منزل اس سے اتنی بھی دور نہیں ۔ وہ یہ بھی سوچنے لگا کہ ہوسکتا ہے کہ اسقف نے اسی سرزمین کے متعلق اسے کہا ہو۔
کچھ عرصہ قیام کے بعد اس کے مالک یہودی سے ملنے اس کا چچا زاد آیا۔ نہ جانے دونوں میں کیابات ہوئی کہ اس نے مابہ کو اپنے چچا زاد کے حوالے کر دیا اور وہ اسے لے کر جس سرزمین میں آیا، مابہ کے لیے یہ کسی جنت سے کم نہ تھی۔
یہاں اسے کھجوروں کے کئی باغات نظر آئے ، یہ بستی یثرب کی تھی اور اس کا نیا مالک یہیں رہتا تھا۔ مابہ کو یہاں غلام بن کر رہنے میں بھی مزہ آرہا تھا۔
مابہ کو یہا ں رہتے کئی ماہ بیت گئے۔ اس دوران میں اسے لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوا کہ قریب کی بستی میں ایک شخص نیکی اور سچائی کا پیغام لایا ہے اور وہ نبی ؐ ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔مابہ کے دل میں شدید خواہش پید ا ہوئی کہ وہ جا کر خود اس شخص سے ملے لیکن وہ تو غلام تھا اور غلام بھلا اپنی مرضی سے کہاں آجاسکتا ہے؟ اسی لیے مابہ جب رات کو سونے کے لیے لیٹتا تو یہ ہی دعا کرتا:‘‘ اے خدا! مجھے میری منزل تک پہنچا دے۔ مجھے اس شخص سے ملنے کی توفیق دے، میری مشکلیں اور آزمایشیں کم کر دے۔’’
ایک روز مابہ بازار سے گزر رہا تھاتو لوگوں میں عجیب ہل چل اور گہما گہمی دیکھی۔ کچھ لوگ ٹولیوں میں کھڑے باتیں کر رہے تھے اور کچھ لوگ سرگوشیوں میں مصروف تھے۔مابہ نے ایک شخص سے پوچھا:‘‘بھائی آج کیا خاص معاملہ ہے؟’’ تو اس نے بتایا:‘‘اپنے آپ کو نبی کہنے والا شخص عنقریب یثرب آرہا ہے۔’’
مابہ کو اپنے کانو ں پر یقین نہ آیا، اسے ایسے لگا جیسے اس نے کوئی خواب دیکھا تھا جو اب پورا ہونے کو ہے۔مابہ اپنے آقا کے پاس پہنچا تو ان ہی خیالوں میں تھا۔ اس کے آقا نے اسے کسی کام کے لیے بلایا مگر وہ خیالوں میں مگن مست رہا۔ آقا نے اسے سخت ڈانٹ پلائی لیکن آقا کی ڈانٹ بھی اسے خیالوں کی دنیا سے نہ نکال سکی اور وہ بار بار ان تین نشانیوں کے بارے میں پادریوں اور اسقف کی باتوں میں کھو جاتا۔اسی کیفیت میں سارا دن گزر گیا ۔ شام کے وقت وہ اپنے آقاکے باغ میں کھجوریں توڑ رہا تھا ۔ آقا بھی درختوں کے نیچے بیٹھا تھا۔ اس کے پاس اس کا وہی چچا زاد بھائی آیا ہوا تھا، جس نے مابہ کو اس کے ہاتھ فروخت کیاتھا ۔وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے۔‘‘بھئی آج تو پورا شہر پاگل ہو رہا ہے!’’‘‘کیوں ، خیر تو ہے؟’’ مابہ کے پہلے آقا نے پوچھا۔‘‘دراصل لو گ اس شخص کے پاس جمع ہیں، جو دوسرے شہر سے آیا ہے اور اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔’’یہ جملہ مابہ کے کانوں میں بھی پڑ گیا اور اس کے بدن کے سارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ پورے وجود میں ایک سنسنی دوڑ گئی۔وہ فوراً درخت سے نیچے اترآیا اور آقا کے قریب آکر کہنے لگا:‘‘آقا.... یہ شخص کیا کہتا ہے؟’’آقا کو مابہ کا یوں بے تکلف ہونا سخت ناگوار گزرا۔ اس نے مابہ کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا اور غصے سے پھنکارتے ہوئے بولا:‘‘تم اپنے کام سے کام رکھو، خبردار جودوبارہ اس طرح کا سوال کیا!’’
مگر مابہ بھلا اس خبر کوکیسے بھلا سکتا تھا۔ وہ اس بے عزتی سے ہر گز بد مزہ نہ ہوا اور سوچنے لگا کہ یہاں سے فارغ ہو کر وہ ضرور اس ہستی کے پاس جائے گا، جو اپنے آپ کو نبی قرار دیتی ہے۔ لیکن اس وقت آقا کے حکم پر وہ دوبارہ کھجورسے پھل اتارنے میں مشغول ہوگیا، تھوڑی دیر بعد آقا کی آواز آئی:‘‘مابہ، میں آرام کرنے گھر جارہا ہوں، تم کام جاری رکھو...اگر سستی کی تو رات کا کھانا نہیں دوں گا۔’’‘‘آقا آپ فکر نہ کریں، میں اس درخت سے آج سارا پھل اتارا لوں گا۔’’
آقا کے جانے کے بعد ، مابہ نے بڑی پھرتی سے کام شروع کیا، اس کے گھنٹوں کا کام منٹوں میں مکمل کیا اور بھاگتا ہوا اپنے جھونپڑے میں آگیا۔اس نے کپڑے اتارے اوراپنے پاس موجود بہترین لباس زیب تن کیا۔ سفید پگڑی کے ایک سرے سے اپنا آدھا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اسے خطرہ تھا کہ اگر اس کے آقا کے کسی واقف نے اسے دیکھ لیا تو اس کی شامت آجائے گی۔جھونپڑی سے باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی پوٹلی بھی تھی۔ یہ ان نشانیوں کی تصدیق کے لیے تھی جو عموریہ کے اسقف نے اسے ذہن نشین کرائی تھیں۔مابہ کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ اللہ کے نبی قبا نامی بستی میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اس نے سیدھا وہا ں کا ہی رخ کیا۔قبا پہنچ کر پتہ چلا کہ ایک عبادت گاہ ہے، جسے مسجد کا نام دیا گیا ہے، اس میں اللہ کے نبی تشریف رکھتے ہیں۔مابہ لرزتے قدموں اور دھڑکتے دل کے ساتھ مسجد کی طرف بڑھا۔مسجد کے باہر اسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد نظر آئی، وہ صحن میں داخل ہوا تو کئی لوگ وہاں بیٹھے تھے۔آخر وہ اس کمرے میں داخل ہوا جہاں پر اللہ کے نبیؐ بیٹھے تھے۔ کمرے کے سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک سفید چادر بچھی ہوئی تھی جس پر کوئی دس بارہ لوگ بڑے ادب سے بیٹھے تھے اور ان کے درمیان وہ ہستی تھی جسے پہچاننے میں مابہ کو ذرا بھی دقت نہ ہوئی۔اس ہستی کے چہرے کا نور اور وقار ہی اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ خدا کا نبیؐ اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس کا جی چاہتا تھاکہ وہ اپنے آپ کو ابھی اس ہستی کی غلامی میں دے دے ۔ مگر اس لمحے اسے عموریہ کے اسقف کی بات یاد آگئی کہ جب تک تینوں نشانیاں پوری نہ ہوں، کسی شخص کو اللہ کا نبی نہ ماننا۔اس نے اپنے جذبات پر قابو پایا اور قریب آکر اس پر نور ہستی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔آخر اس کے ہونٹ ہلے اور وہ ان سے ہم کلام ہوا۔‘‘ میں نے سنا ہے آپ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں ۔ کچھ غریب الدیار اور حاجت مند بھی آپ کے ساتھ ہیں.... میرے پاس یہ چند چیزیں صدقہ کے لیے ہیں۔ آپ لوگوں سے زیادہ بھلا اس کا کون مستحق ہوسکتا ہے۔ اسے قبول فرمائیے۔’’
آپؐ نے مسکراتے ہوئے مابہ کی پوٹلی کو لیا اور حکم دیا کہ اسے غریب لوگوں میں بانٹ دیا جائے۔ اور خود انہوں نے اس پوٹلی میں سے ایک بھی چیز نہ لی۔
اس پوٹلی میں کھانے کی کچھ اشیا تھیں۔ مابہ کی طرف سے دیے گئے اس صدقے سے انہوں نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہ لیا۔مابہ کو یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔
عموریہ کے اسقف کی بتائی ہوئی پہلی نشانی پوری ہوگئی تھی کہ اللہ کا وہ نبی صدقہ یعنی خیرات اپنے لیے نہیں قبول کر سکتا۔ پہلی نشانی دیکھ کر مابہ کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد واپس آگیا۔ اگلے دن وہ پھر موقع پا کر کچھ چیزیں لے کر حضورؐ کے پاس جا پہنچا اور موقع اور اجازت پاکر کہا! ‘‘آپؐ نے کل صدقہ تو قبول نہیں کیاتھا آج میں کچھ چیزیں آپؐ کے لیے تحفے (ہدیے) کے طور پر لایا ہوں۔’’اور جب آپؐ نے اسے قبول کر لیاتو اسقف کی بتائی ہوئی دوسری نشانی بھی پوری ہوچکی تھی کہ اللہ کے نبیؐ اپنے لیے خیرات قبول نہیں کرتے البتہ وہ ہدیہ لے سکتے ہیں۔ مابہ اب تیسری نشانی کی تلاش میں تھا۔ اس کا دل تو گواہی دے رہا تھا کہ وہ منزل پر پہنچ چکا ہے لیکن اسے اسقف سے کیا وعدہ یاد تھا کہ تینوں نشانیاں پوری ہونے کا انتظار کیاجائے۔ تیسری نشانی کی نوعیت ایسی تھی کہ اسے براہ راست پوچھنا سخت معیوب لگ رہا تھا ۔ مگر مزید انتظار مابہ کے بس سے باہر ہورہاتھا۔ اس لیے کہ یہ انتظار برسوں کی مسافت پر محیط تھا۔اس نے حقیقت کی تلاش میں ایک دنیا کی خاک چھانی تھی۔ دردر کی ٹھوکریں کھائی تھیں۔ ماں باپ ، وطن، دولت، آزادی....آخر کون سی قربانی اور کون سی قیمت ادا نہیں کی تھی۔ یوں یہ ساری کیفیت ایک کرب، ایک بے چینی بن کر اس کے چہرے پر ظاہر ہو گئی اور رسول اللہؐ نے مابہ کے چہرے پر ثبت اس کیفیت کو کسی تحریر کی طرح پڑھ لیا تھا۔ کچھ لمحوں کے بعد حضورؐ نے کندھے پر پڑی چادر کو ذرا سا خود سرکا دیا یا چادر اتفاقی طور پر سرک گئی ، بہر حال مابہ نے بے چینی اور پیاسی نظروں سے ان کے دائیں شانے کو دیکھنے لگا جہاں وہ تیسری نشانی موجود تھی۔ نہ جانے یہ کسی زخم کا نشان تھا یا قدرت کی طرف سے بنائی گئی علامت، جو کچھ بھی تھا بہت ہی حسین تھا، بہت ہی بھلا تھا۔ اسے دیکھنے کے بعد مابہ سے صبر نہ ہو سکا۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور زمین پر گر پڑا اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ روتا جاتا اور کہتا جاتا:‘‘اے اللہ کے نبی ؐ مجھ میں مزید انتظار کی سکت نہیں.... مجھ غریب کے سر پر شفقت کاہاتھ رکھ دیجیے۔’’
اللہ کے آخری رسولؐ نے اسے اٹھایا ، سہارا دیااور گلے سے لگایا.... اور یہ ہی پوچھا کہ باقی زندگی میں کیا کیا اور پوری داستان بیان کر نے کوکہا۔ مابہ نے پوری داستان بیان کی۔آپؐ نے سب کو ان کی داستان سننے کے لیے کہا۔ مابہ نے باقاعدہ اسلام قبول کیا اور ان کا نام ‘‘سلمان’’ رکھا گیا۔ آج تاریخ انہیں سلمان فارسیؓ کے نام سے جانتی ہے۔