سرسید نے نہ کسی نئے مذہب کی تبلیغ کیااور نہ کوئی کتاب پیش کی ۔لیکن اس پر بھی مولویوں نے ان کے خلاف طوفان برپا کر دیا، کفر کے فتوے دیے ۔دل خراش مضامین لکھے ۔سرسید کے فوٹو پر لکھا ‘شیطان رجیم’ لیکن بڑے جیدعلما نے کفرکے فتووں پردستخط نہیں کیے ۔حضر ت مولانامحمدقاسم بانی مدرسہ دیو بند سے علما نے کہا کہ سرسید کے خلاف کفرکے فتوے پر آپ بھی دستخط کر دیجیے۔ انہوں نے فرمایاکہ میں تحقیقات کر لوں کہ آیا وہ کافر ہیں بھی یا نہیں۔ چنانچہ حضر ت مولانا محمد قاسم نے تین سوالات لکھ کرسر سید کے پاس بھیجے ۔
۱۔ سوال: خدا پر آپ کاعقید ہ کیا ہے ؟
جواب: خداوند تعالی ازلی ، ابد ی مالک و صانع تمام کائنات ہے۔
۲۔ سوال: محمد ﷺ کے متعلق آپ کا عقید ہ کیاہے ؟
جواب: بعد از خدابزرگ توئی قصہ مختصر
۳۔ سوال: قیامت کے متعلق آپ کا کیاعقیدہ ہے ؟
جواب: قیامت برحق ہے ۔
اس کے بعد مولانا قاسم نے ان لوگوں سے کہا کہ تم اس شخص کے خلاف دستخط کرانا چاہتے ہو جو پکا مسلمان ہے ۔
(بحوالہ ماہنامہ الشریعہ اکتوبر ۰۵ گوجرانوالہ)
ہم تاریخی ناولوں کی خیالی دنیاؤں میں رہتے ہیں جن میں گھوڑوں کی ٹاپیں ہیں، شمشیروں کی جھنکاریں ہیں اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے ہیں۔یہ فقط اللہ اللہ ہو والی کیفیت ہے ۔ شاید ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے تصور کرنے ہی سے فتوحات حاصل ہو جائیں گی اور دودھ کی نہریں بہناشروع ہو جائیں گی ۔سوال پیداہوتا ہے کہ کیاہم (نعوذ باللہ) خدا ہیں کہ کہا ہو جا او ر ہو گیا؟کیاہم ان تصورات کو عملی شکل دینے کے لیے اس تگ و دو کے پابند نہیں ہیں جورب العزت نے انسانو ں کے لیے مقد ر کر رکھی ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ بغیر مادی تیاری کے صرف ایک ذہنی کیفیت کے زیر اثر ہاری ہوئی بازی جیت لیں گے۔
(پروفیسر انعام الرحمن بحوالہ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ)