رواں مہینے کی بارہویں تاریخ کوجنرل صاحب کی حکومت کے چھ برس پورے ہورہے ہیں، اس سالگرہ کے تناظرمیں دیکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل پرویز مشرف صاحب اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا کی قیادت میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ وہ ان چند لیڈروں میں سے ہیں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ انہیں اپنی بات کرنے کا سلیقہ بھی آتا ہے اورا ن کے اند ر اپنے موقف کو بیان کرنے کی جرأت بھی موجود ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود، وطن عزیز میں ان کے اقتدار کا اخلاقی جواز آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ ان کی زیر قیادت وطن عزیز شدید قسم کے سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ جس قوم کے ہاں سیاسی استحکام نہ پایا جائے وہ کبھی بھی معاشی استحکام نہیں پا سکتی اورجن قوموں کے نظام پر خود اپنے لوگوں کا اعتماد نہ ہو ، منزلیں ان کا مقدرنہیں ہواکرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم اٹھاون برس بعد بھی ابھی تک اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے اور نہ جانے ابھی کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری فوج وطن عزیز کا منظم ترین ادارہ ہے۔ افرادی قوت کے اعتبار سے ہماری فوج ملک کے دیگر اداروں اور محکموں سے کہیں آگے ہے۔ اپنے ملازمین کی تربیت اور ڈسپلن کے اعتبار سے بھی یہ ادارہ پاکستان میں سب اداروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے بجٹ کا دو تہائی حصہ فوج پر صرف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مالی نظام بھی فوج کے پاس ہے۔ وطن عزیز کی سب سے زیادہ زمین بھی فوجی چھاؤنیوں اور انفرادی رقبوں کی صورت میں فوج کے تصرف میں ہے۔ یہ زمین زرعی بھی ہے ، تجارتی بھی اور رہائشی بھی۔ ہماری فوج انجینئرنگ کا بھی سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اسی طرح ہسپتالوں ، سکولوں اور کالجوں کا بھی سب سے بڑا نیٹ ورک پاک فوج چلا رہی ہے۔ غرض کسی بھی پہلو اور کسی بھی رخ سے آپ دیکھیں ، پاک فوج وطن عزیز کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔کیا اس سب کچھ سے فوج کو یہ استحقاق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ قوم پر حکمرانی کرے ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا حل ہونا ملک و قوم کی ترقی او ر بقا کی خشت اول ہے۔
قومی خدمت کا جذبہ بھی ہماری فوج کا طرہ امتیاز ہے۔ ہر ہنگامی حالت میں ان جوانوں نے قومی خدمت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے ۔ یہ واحد ادارہ ہے جسے حقیقی معنوں میں خادم قوم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ واحد ادارہ ہے جس پر کسی بھی قدرتی آفت کے موقع پر ہر ایک کی نظر اٹھتی ہے۔ ملک میں دوسرا ایسا کوئی منظم ادارہ موجود ہی نہیں ہے جسے اس طرح کے ہنگامی حالات میں فوری طور پر کال کیا جا سکے اور وہ اپنی افرادی قوت کی بہتر تربیت کے بل بوتے پر منظم انداز میں ہنگامی حالات سے نپٹ سکے۔ سیلاب ہو ، زلزلہ ہو یا کوئی وبا پھوٹے، فوج ہی عوام کی خدمت کرتی ہے۔ قومی خدمت کے اس طرح کے کاموں میں پاک فوج ایک شاندار ریکارڈ رکھتی ہے جس پر وہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ ہنگامی حالات میں خدمت کے علاوہ معمول کے دنوں میں بھی قومی تعمیر کے بے شمار کام ہیں جو فوج سر انجام دیتی ہے۔ دور دراز اور مشکل ترین مقامات پر سڑکیں بنانا، پلوں کی تعمیر کرنا، مواصلات کے نظام کو قائم کرنا، ضروریات زندگی کی فراہمی اور دیگر ترقیاتی پروگرام فوج ہی کے ذریعے روبہ عمل لائے جاتے ہیں۔ آرمی انجینئرنگ کور نے ، کمال مہارت سے ملک میں کئی بڑے بڑے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے ہیں اس کے علاوہ بسا اوقات ملک کے سول اداروں کے نظم و نسق کو بہتر کرنے کے لئے بھی فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ ان ذمہ داریوں کو بھی پاک فوج نے بڑے شاندار طریقے سے پورا کیا ہے۔ واپڈا میں اور تعلیم کے شعبہ میں بھی فوج نے اہم خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی نیم سرکاری اداروں ، فیکٹریوں اور تنظیموں کی سربراہی، جب فوج کے اعلیٰ افسران کے حوالے کی گئی تو انہوں نے اپنی بے مثال کارکردگی ، تنظیمی صلاحیت اور لیڈرانہ کردار کے باعث ان اداروں کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ا س تناظرمیں ہمارے بعض دانشور یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ ایسی خادم قوم تنظیم کو بطور حکمران قبول کرنے میں کیا چیز مانع ہے!! ان دانشوروں کے دلائل بجا لیکن کسی بھی قوم میں فوج کو حقِ حکمرانی عطا کرنا اصل میں قوم کی اجتماعی دانش کی توہین ہوتی ہے۔ فکر انسانی نے طویل سوچ بچار ، بحث و تمحیص اور تجربے سے آخر کار یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کسی قوم پر حکومت کرنے کا حق اس قوم کا ہی ہے۔ جسے وہ ایک دستور ، ضابطے اور آئین کے تحت اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتی ہے۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور پیشہ وارانہ مہارتوں کے باوجود فوج قوم کی سروسز میں سے محض ایک سروس ہے اور اسے اپنے اس منصب پر قانع رہنا چاہئے۔ عوام کی قوت کو یعنی ووٹ کو توپ پر ہر حال میں فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ دنیا ترقی کر رہی ہے، یہ نظریات کا زمانہ ہے اورنظریات سے اخذکرتے ہوئے یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ آخر فوج ہی ہم پر کیوں حکمرانی کی حقدار ہے کوئی اورمحکمہ کیوں نہیں ؟
مہذب دنیا میں ہمیں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے اس طرف کبھی ہم نے توجہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔فوج اقتدار پر قبضہ کر لے، مہذب دنیا میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔یہ صحیح ہے کہ جمہوری راستے پر چلتے ہوئے ہماری قوم نے کوئی عمدہ مثال قائم نہیں کی ہے۔ لیکن اس سے اس بات کا قطعاً کوئی جواز فراہم نہیں ہوتا کہ قوم کو اپنے جمہوری حق سے مسلسل محروم رکھا جائے۔ ہماری جمہوریت کی مثال اس بچے کی سی ہے جس نے ابھی چلنا شروع کیا ہے۔ اس بچے پر یہ اعتراض کرنا کہ وہ گرتا کیوں ہے، بچے کے ساتھ زیادتی ہے۔ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں اس وقت اقتدار کی طاقت ہے وہ اگر رضا کارانہ طور پر اپنے اقتدار سے دست بردار ہو کر خالص اور دیانت دارانہ طریقے سے اس قوم کو حق انتخاب عنایت کر دیں تو ہمیں یقین ہے کہ قوم کا فیصلہ غلط نہیں ہو گا۔ قوم کے اجتماعی شعور پر کبھی اعتماد ہی نہیں کیا گیا۔ ہمیشہ اہل اقتدار نے قوم کے شعور پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی ہے اوراسکی خواہشات اوراسکے انتخاب کو بدلنے اورمتاثر کرنے کی ہر جائزو ناجائز کوشش کی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تو خالص جمہوری راستے کی طرف ہم نے پہلاقدم اٹھانا ہے۔ جنرل ضیاء صاحب کے بعدہم نے جو ایک قدم اٹھایا تھا وہ بھی بارہ اکتوبر کی نذر ہو کر پھرصفر ہو چکا ہے اوریوں ہم نے 6برس اورضائع کردیے اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!
سیاسی عدم استحکام اور خلفشا ر نے ملک کو کس صورت حال سے دوچار کردیا ہے ، آخر میں ہم اس کا ایک نقشہ خود ایک سابق فوجی کی زبان سے پیش کررہے ہیں جسے محترم ارشاد حقانی صاحب نے اپنے کالم میں نقل کیا ہے (بحوالہ جنگ ۹ ستمبر۰۵) کہ شاید اس سے کچھ تنبہ ہو!
‘‘اپنے زمانہ طالب علمی میں ہمیں اقبال و جناح کا سپاہی ہونے کی خوش فہمی ہو گئی ۔ ملٹری اکیڈمی کے پریڈ گراؤنڈ میں ، پھر ڈھاکہ کی رزم گاہ میں مادر وطن پر جان قربان کرنے کا عہدکیا ۔ لیکن ہمارے وطن میں ہر روز وہ قیامتیں آتی رہیں کہ ‘‘یاراں فراموش کردند عشق’’ ملک تو آئین و قانون کی پاسداری سے زندہ رہتے ہیں کیسی ٹریجڈی ہے کہ ہمارے وطن میں ساٹھ سال سے نہ کوئی آئین نافذ ہے نہ کبھی منصفانہ الیکشن ہوئے ہیں ۔ آئین کاغذ کا ایک چیتھڑاہے یا ٹشو پیپر جس سے حکمران اپنے آلودہ ہاتھ پونچھنے کا کام لیتے ہیں ۔ ہمارے پاک وطن میں الیکشن دھونس دھاندلی، دھینگامشتی، بے شرمی ، بے حیائی ، ضمیروں کی خریدو فرخت سے لڑے اور جیتے جاتے ہیں ایسے میں کوئی معقول شہری الیکشن میں کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا …… آپ کی تجویز ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے مشورے سے بنایا جائے ۔ کیا سادہ ہیں آپ بھی ۔
افسوس پورے ملک میں حکومت کی رٹ ، ہر چند کہیں کہ ہے ، کہیں وہ بھی نہیں ہے بلکہ کہیں بھی نہیں ہے ۔پاکستان راجواڑوں میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے کراچی کسی کا مقبوضہ ہے تو پنجاب کسی اور کی جاگیر ہے ۔ بلوچستان میں سرداروں کی بادشاہت ہے …… خود پرویز مشرف صاحب قصر صدارت میں محصور ہیں ۔ جناب شوکت عزیز کا حکم ہر معاملے میں نہیں چلتا ۔ قومی ، سماجی زندگی میں غنڈوں اور رسہ گیروں کی بالادستی ہے چوری ، ڈاکے ، قتل ، گینگ ریپ ، سٹریٹ کرائمز کی خبروں سے اخبار بھرے پڑے ہیں ۔ لوٹ مار کرا چی میں ذریعہ روزگار ہے اس دور میں زندگی عام بشر کی بیمار کی رات ہو گئی ہے ۔ آپ کے کالم کا کیا فائدہ ؟ جن سے خطاب مقصود ہوتا ہے ۔ وہ شاید پڑھتے نہیں ۔ جو پڑھتے ہیں وہ کچھ کر نہیں سکتے ۔ آپ کبھی کبھار ان کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کا مشورہ بھی دیتے رہتے ہیں ۔ اب نہ آپ کے بوڑھے بازوؤں میں دم ہے نہ قارئین میں سے کسی میں زور حیدر کہ رسہ گیروں کے دامن کو کھینچ سکے ۔ اور ان کا دامن ، دامن یوسف بھی نہیں کہ کھینچنے میں مزہ آئے …… دل کو یقین ہو چلا ہے کہ یہ چمن یونہی خون تمنا سے سیراب ہوتارہے گا ۔ خیر اندیش لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر۔