اللہ کے فضل و کرم اور اس کی بے پایاں عنایت و رحمت سے سوئے حرم اپنے سفر کے دوسرے سال میں داخل ہور ہاہے ۔ہم اپنے کریم رب کے بے انتہا شکر گزار ہیں کہ جس نے ہمیں اس تعلیمی ، اصلاحی و دعوتی مشن کے اجرا ، اسے چلانے او ر آگے بڑھانے کی توفیق بخشی۔یقینا ہم اس قابل نہ تھے ۔ اسی وجہ سے لوگ ہمار ی اس ‘‘حماقت’’ پر زیر لب ہنس رہے تھے او رآنکھوں ہی آنکھوں میں بہت کچھ کہہ بھی رہے تھے لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ بات قابلیت کی نہیں قبولیت کی ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات پر کامل یقین تھا کہ وہ سب کچھ کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے اور ہم سب کچھ کے ساتھ بھی کچھ نہیں کرسکتے اگر اسے منظور نہ ہوتو ۔چنانچہ ہم صرف اسی کے بھروسے پر اس خارزار میں اتر ے تھے چنانچہ اسی نے ہماری لاج رکھی۔وہی تھا، جب اپنوں نے ساتھ چھوڑا تو اس نے غیروں کو اپنا بنا دیااور آئند ہ بھی وہی ہمار ا دست گیر ہے اور ہم اسی سے مدد اور نصرت کے طالب ہیں۔ جو دوست اس سفر میں ہمارے ساتھ چل رہے ہیں ان کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ انہیں بھی ا سی کریم ذات کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس نے انہیں اس نیک کام میں تعاون کا موقع فراہم کر دیا۔ یقینا ہم ایسے سب دوستوں کو لائق صد احترام سمجھتے ہیں او ران کی قربانی او رتعاون کے دل سے معتر ف بھی ہیں لیکن اگر، کبھی وہ یہ چاہیں ،کہ اس کے صلے میں ہم ان کے بندہ بے دام بن جائیں تویہ ان کی خام خیالی ہو گی۔سوئے حرم جس مشن او رجس مقصد سے شروع کیا گیا ہے وہ ہماری آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہم اسے کبھی پس پشت ڈالنے کا تصور کرسکتے ہیں۔اس سفر میں اللہ جسے جتنا چاہے گا چلائے گا اس لیے سب دوستوں کو یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ انہیں چلائے رکھے ۔ ہم سب اسی کے محتاج ہیں بلکہ وہ جتنا غنی ہے ہم اتنے ہی محتاج ہیں ، وہ جتنا قاد ر ہے ہم اتنے ہی بے بس ہیں ۔ بس اس سے یہی التجا ہے کہ وہ ہماری بے بسی اور احتیاج پر رحمت فرماتا رہے ۔بیتے سال میں ہم پر کیا بیتی، جاہلی تعصب ، فرقہ واریت ، تقلید اور روایتی مذہبیت نے اس دوران میں ہمار ا سفر روکنے کے لیے کیا کیا جتن کیے اور ستم کے کیا کیا تیر آزمائے اس داستان کو دہرانا یہاں مقصود نہیں البتہ اس بات کو ہم ایک بار پھر دہرانا چاہتے ہیں کہ سوئے حرم کیا ہے تا کہ کسی کو اب بھی کوئی شک ہو تو دور ہو جائے ۔یہ وضاحت ہم پہلے بھی کر چکے ہیں لیکن بعض وجوہات کی بنا پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک بار پھر اسے تازہ کر دیا جائے چنانچہ ہم اسی تحریر کو مِن وعن یہاں نقل کیے دیتے ہیں جو چند ماہ قبل انہی صفحات میں آپ کی نظروں سے گزر چگی ہے ۔
ستمبر ۲۰۰۴ میں جب ہم سوئے حرم کا آغاز کر رہے تھے توہمار ا خیال یہ تھا کہ اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ہو گی کہ سوئے حرم کیا ہے ؟ اس کے مقاصد کیا ہیں اور اس کارخ کس طر ف ہو گا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ اقبال کایہ مصرع ہماری ہزار تشریحات اور وضاحتوں پر بھاری ہے۔کیونکہ یہ ہی ہمار ا مقصد ’ یہ ہی ہماری منزل اور یہ ہی ہماری دعوت ہے۔لیکن اب ‘‘بھری محفل ’’ میں ہمیں یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کوئی عا ر محسوس نہیں ہورہی کہ ہمارا خیال درست نہ تھااس لیے ہم اپنی اس غلطی کی معافی مانگتے ہوئے اب یہ وضاحت کیے دیتے ہیں کہ سوئے حرم کیا ہے؟
ہمارے کرم فرماؤں نے ہمیں یہ سمجھانے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی کہ سوئے حرم ایک خالص مذہبی نام ہے اور اس نام کے ساتھ صرف قرآن و حدیث ہی میل کھاتے ہیں۔ یہ جو تم نے اس میں شعر و ادب’ کہانی ’ افسانہ ’ نظم ’ غزل ’ انٹر نیٹ کا تذکرہ اورتجارت وغیرہ کا ذکرچھیڑ رکھاہے اس کا سوئے حرم سے کیاتعلق؟
ہمارے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہمارے معاشرے میں ہر داڑھی والے کے ساتھ ہو رہا ہے داڑھی والا اگر کرکٹ کھیل رہا ہو تو لوگ کہتے ہیں مولوی صاحب آپ کرکٹ کھیل رہے ہیں؟ مولوی کسی تفریحی مقام کی سیر کر رہا ہو تو لوگ کہیں گے مولوی صاحب آپ یہاں! حتی کہ مولوی اگر پیپسی پی رہا ہو تو لوگ کہتے ہیں آپ پیپسی پیتے ہیں!دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مولوی صاحب آپ کا مقام مسجد کی چار دیواری ہے باہر آپ کا کوئی کام نہیں۔(اور اند ر ہمار اکوئی کام نہیں)
یہ تصورات اصل میں اس اجتماعی نفسیات اور سوچ کا نتیجہ ہیں جو دین کے عامیانہ’ سطحی ’غیر علمی اور غلط تصورکے نتیجے میں وجو د میں آگئی ہے ۔مذہب کے بارے میں اسی عامیانہ اور غلط سوچ کو بدلنے کی سعی خود اقبا ل کی زند گی کا محور بنی رہی او راسی کے وہ داعی رہے کہ اس زمانے میں یہ امت جو کہ شہر کی خوگربن گئی ہے وہ اپنے اسلاف کی طرح صحرا کی وسعتوں سے ہمکنا رہو جائے۔ اقبال کے حاشیہ خیا ل میں بھی نہ ہو گا کہ ایک زمانے میں میرے اس خوبصورت شعر اور پیغام کو روایتی مذہبیت سے جوڑ دیاجائے گا ۔اور سوئے حر م جیسی خوبصورت ادبی اصطلاح کو ملائیت اور مولویت کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔ سوئے حر م تو اقبال کا ایک پیغام ہے امت کو اسی ایک مرکز کی سمت متوجہ کر نے کا کہ جس کے ساتھ اس امت کی ساری عزتیں اور حرمتیں وابستہ ہیں’سوئے حرم تو ایک دعوت ہے امت کے لیے اس مرکز سے وفا کر نے کی کہ جس سے منہ موڑنے کی سزا پھر نسلوں کو بھگتنا ہوتی ہے ’ سوئے حرم توایک جہد مسلسل ہے امت کو علاقائی ’ قومی’ لسانی ’ نسلی تعصبا ت کے کنوؤں سے آزاد کرانے اور اسے آفاق کی وسعتوں سے ہمکنا ر کرنے کی’ سوئے حرم توایک کاوش ہے امت کا رشتہ پھر اس اصل سے جوڑنے کی کہ جہاں دین اور دنیا الگ الگ نہ ہوتے تھے اورسوئے حرم تو ایک محنت ہے امت کو جدید علوم و فنون کی راہ دکھانے کی تا کہ تسخیر کائنات کا خواب جب شرمند ہ تعبیر ہو تو یہ امت کنارے کی تماشائی نہ ہو بلکہ اس عمل میں برابر کی شریک ہو۔
آج امت کے لیے یہ پیغام ’ یہ دعوت ’ یہ جہد’ یہ کاوش اور یہ محنت ایک اجنبی چیز بن کر رہ گئی ہے ۔ ہم اسی اجنبیت کو مٹانا چاہتے ہیں اور راستے میں حائل تمام پر دوں کوہٹا کر یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ علوم وفنون کے ساتھ رشتہ ہی اصل میں وہ زینہ تھا کہ جس نے امت کو اوجِ ثریا نصیب کیا تھااور آج بھی اسی زینے کا حصول ہی وہ مرحلہ ہے کہ اگر یہ مرحلہ اس امت نے صبر واستقامت کے ساتھ طے کر لیا تو وہ دن دور نہیں کہ اس کا نشیمن پھر پہاڑوں کی چوٹیوں میں ہو گا اور صحرا کی وسعتیں پھر اس کے قدموں تلے ہوں گی ’ ستاروں پر اس کے کمند ہوں گے اور عقابوں کے نشیمن یقینا زاغوں کے تصرف سے آزاد ہو ں گے۔
سوئے حرم امت کو پھر بھولا ہوا سبق یا د کروانا چاہتا ہے ۔سوئے حرم چاہتا ہے کہ امت کواحساس زیا ں بھی ہو جائے اور وہ یہ بھی جان جائے کہ وہ ‘‘ کیا گردوں تھا تو ہے جس کا ٹوٹا ہو ا تارا’’۔
یہ ساری کہانی تو اور لوگ بھی سناتے ہیں سوئے حرم اس میں کوئی منفرد نہیں مگر سفر کے زاد راہ اور راستے کے تعین میں سوئے حرم ان سے مختلف ہے ۔ لوگ جذبات کا زادِ راہ دیتے ہیں جب کہ سوئے حرم عقل و فکر کا اور علوم و فنون کا زاد راہ مہیا کر نے کاداعی ہے۔ دین کے غلط تصور نے اس امت کو جو زخم لگائے ہیں سوئے حرم انہیں مندمل کرنے کی تگ ودو کا نام ہے۔سوئے حرم جذبات اور رد عمل کی نفسیا ت سے نکل کر حقائق کا سامنا کرنے کا پیغام ہے ۔ان تمام حوالوں سے سوئے حرم نے ہر اس علم، ہر اس فن اور ہر اس شعبے کی نمائندگی کرنے کا عزم کر رکھا ہے جو امت کے احیا کے سفر میں کسی بھی درجے میں معاون ہو سکے ۔سوئے حرم کا دعوی ہے اور یہ عقید ت نہیں حقیقت پر مبنی ہے کہ فنون لطیفہ سے لے کر قرآن وسنت تک سب علوم و فنون کی راہیں ہمارے ہی اسلاف کے خونِ جگر سے روشن ہوئی تھیں۔تو پھر ہم انہیں کیوں بھلا دیں ؟اور ان کا راستہ اور تذکرہ کیوں چھوڑ دیں؟سوئے حرم کی آرزو ہے کہ جہاں ہم بخاری ’ مسلم ’ ابو حنیفہ ’ شافعی و مالک ’ غزالی و شاہ ولی اللہ کے صحیح اخلاف ثابت ہوں وہیں ہم جابر’ رازی’البیرونی’ابن الہیثم’فارابی’کندی’سینا’ابن رشد’ عمر خیام’ خوارزمی’ادریسی اور مسعودی کی روایات کے امیں بھی ثابت ہوں۔ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی ایک دو دن کا قصہ نہیں بلکہ صدیوں کی کہانی ہے ۔ لیکن اس کہانی کاآغاز تو ہو ۔ اس کی آواز تو لگے ۔ کوئی تو ہو جواذانِ فجرکہے ! سوئے حرم بس یہی آواز لگانے اور اذان کہنے کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ کہ شاید سننے والے کان’ دیکھنے والی آنکھیں اور سوچ و فکر کے حامل دل و دماغ مل جائیں جو اس پیغام کو مزید قوت و استعداد کے ساتھ امت کا مسئلہ بنا سکیں۔
مذہبی دنیا میں فرقہ واریت’ تعصب و تنگ نظری ’ جہالت اور عدم برداشت نے ہمیں اقوامِ عالم کی صف میں بہت پیچھے کر دیا ہے ۔ترقی کا سفر شروع کر نے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ان امراض سے جتنی جلد ممکن ہو جان چھڑ ا لیں۔ اس کے لئے تمام شعبہائے زندگی میں انفرادی اور اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے ۔سوئے حرم اس جانب بھی ایک کاوش ہے۔ جس کا بنیاد ی مقصد قوم میں ان امراض کی سنگینی کا احساس پیدا کرنا اور اسے مناسب اور صحیح علاج کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس کے لیے سوئے حرم امت کے تما م علمی دھاروں کو بغیر کسی تعصب کے آپ تک منتقل کر نے کے لیے کوشاں ہے اورانشااللہ کوشاں رہے گا۔ سوئے حرم اس بات کا آرزو مند ہے کہ قارئین میں جستجو اور تحقیق کا مادہ پرورش پا سکے اور انھیں اپنی عقل وفکر کو استعمال کرتے ہوئے حق کو پانے کی فکر نصیب ہو سکے۔
سوئے حرم وحدت ِ امت کا داعی ہونے کے ساتھ ساتھ امن ومحبت کا نقیب بھی ہے ’ رواداری کا پیامبر بھی ہے اور امت کی تمام علمی ’ ادبی ’ فنی ’ تعلیمی ’ اصلاحی اوردعوتی روایات کا امین بھی ہے۔
ہم کسی مسلک اور گر وہ کی نمائند گی نہیں کرتے بلکہ پوری امت کے نمائندہ ہیں جو لوگ ہمیں کسی خاص عینک سے دیکھنا چاہتے ہیں انہیں بھی مایوسی ہو گی۔اور انہیں بھی جو اسے روایتی مذہبی پرچے کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم مذہبی ضرور ہیں لیکن روایتی نہیں ہم جدید اور روشن خیال ضرور ہیں مگر ایسے بھی نہیں کہ اپنی مذہبی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیں۔ہم مذہب کا دامن تھام کر جدیدیت کا سفر طے کرنا چاہتے ہیں اور جہاں مذہب اور جدیدیت میں مقابلہ ہو گا توہم بلا شبہ مذہب کی طرف کھڑ ے ہوں گے ہمارے صفحات ہر اس جدید علم اور فن کے لیے حاضر ہوں گے جن سے کسی اخلاقی بگاڑ کا اندیشہ نہ ہو اور ہما راد روازہ ہر اس خالص مذہبی علم اور مذہبیت کے لیے کھلا رہے گا جس سے کسی فرقہ واریت ’ تشدد اور امت کی صفوں میں تفریق و انتشار کا اندیشہ نہ ہو۔ وما علینا الا البلاغ المبین