علی احمد با کثیر الیمنی ؍ قلب بشیر خاور بٹ
دعوت و عزیمت اور عشق رسول ﷺ کی سچی داستان جس کا ایک ایک لفظ سوز و گداز میں ڈوبا ہوا ہے۔
پہلا منظر
(سردارانِ مکہ کے گھروں میں سے ایک گھر۔ ایک بچہ تیزی سے دوڑتا ہوا اپنی ماں (جلیلہ) کے پاس آتا ہے جو کہ ایک کمرے میں بیٹھی ہے۔ بچہ، جس کا نام عامر ہے کہتا ہے۔)
عامر: امی امی …… !
جلیلہ: کیا بات ہے عامر؟
عامر: ماموں عقبہ اپنے ساتھ ایک قیدی لائے ہیں۔
جلیلہ: کہاں ہے وہ؟
عامر: اصطبل میں اسے قید کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ محمدؐ کے صحابیوں میں سے ہے۔
جلیلہ: اصحاب محمدؐ میں سے؟ اور وہ تمھارے ماموں کے ہاتھ کیسے لگا؟
عامر: معلوم نہیں (دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے) ٹھہریے ماموں جان آ رہے ہیں انہی سے پوچھئے۔ (عقبہ آتا ہے)
جلیلہ: عقبہ بھائی! یہ کون ہے جسے آپ ساتھ لائے ہیں؟
عقبہ: جلیلہ بہن! یہ ہمارے باپ کا قاتل ہے…… ہمارے والد محترم کو میدانِ بدر میں اسی نے قتل کیا تھا۔
جلیلہ: خبیب بن عدی۔ کیا یہ خبیب بن عدی ہے؟
عقبہ: ہاں…… اچھا تم اس کا نام بھی جانتی ہو؟
جلیلہ: کیسے نہ جانوں؟ قریش میں وہ کون سی عورت ہے جس کا کوئی رشتہ دار بدر میں قتل نہ ہوا ہو۔ اور اس نے انتقام لینے کے لیے اس کے قاتل کا نام حفظ نہ کر لیا ہو۔
عقبہ: بس یہ وہی ہے اور اسے تمھارے پاس لے آیا ہوں۔ اب جی بھر کر انتقام لو!
جلیلہ: بخدا اب مجھے سکون ملے گا۔ اسی کی وجہ سے تو میرے سینے میں انتقام کی آگ لگی ہوئی ہے۔ اب یہ میرے قبضہ میں ہے، چوڑے پھل والے خنجر سے میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گی۔ آپ اسے ابھی میرے حوالے کر دیجیے۔
عقبہ: نہیں …… نہیں یہ ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ مقدس مہینوں میں اسے قتل کریں۔ ہاں اسے ایسے عذاب میں مبتلا کر سکتی ہو جو اس نے کبھی نہ دیکھا ہو۔
جلیلہ: اچھا تو اس لیے آپ نے اسے قید کیا ہے کہ یہ مقدس ماہ گزر جائیں؟
عقبہ: ہاں اسی لیے!
جلیلہ: بہت خوب! اب میں اسے دردناک عذاب میں مبتلا کرکے خوشی محسوس کروں گی۔
عقبہ: جس قدر چاہے عذاب دو، بلکہ اس قدر عذاب دو کہ میں بھی باپ سے تمھاری وفا کا معترف ہوجاؤں۔
جلیلہ: مجھ پر بھروسا کیجیے میں اس کو مختلف طریقوں سے سخت ترین عذاب میں مبتلا رکھوں گی، لیکن یہ تو بتائیے آپ نے اسے پکڑا کیسے؟
عقبہ: محمدؐ نے بنی ہذیل کو اسلام سکھانے کے لیے اپنے جن صحابیوں کو بھیجا تھا یہ انہی میں سے ایک ہے، بنی ہذیل نے ان پر دھوکے سے حملہ کرکے گرفتار کر لیا اورپھر گرفتار کرکے ہمارے ہاتھ بیچ دیا۔
جلیلہ: تو کیا آپ نے ان سے خریدا ہے؟
عقبہ: ہاں پچاس اونٹوں کے عوض۔
جلیلہ: پچاس اونٹوں کے بدلے؟ (حیرت ظاہر کرتی ہے)
عقبہ: کیا میں نے مہنگا خریدا ہے؟ بخدا اگر وہ مجھ سے سو اونٹوں کا بھی مطالبہ کرتے تو میں انھیں دے دیتا۔ یہ ہمارے والد محترم حارث کا قاتل ہے۔
جلیلہ: سچ کہا آپ نے۔ باپ کے قاتل کو خریدنے کے لیے جتنے بھی اونٹ دیتے کم تھے۔
عقبہ: جلیلہ بہن! اب تم اس کے لیے کھانے کا انتظام کرو۔
جلیلہ: کیا آپ اسے کھانا کھلانا چاہتے ہیں اپنے باپ کے قاتل کو؟
عقبہ: اسے کھانا کھلاناضروری ہے ایسا نہ ہو کہ وہ ہمارا عتاب نازل ہونے سے پہلے ہی مر جائے۔ میں نے اور صفوان بن امیہ نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اسے کھلا پلا کر زندہ رکھیں گے اور عذاب دیں گے۔اس نے ہمارے قیدی کے بارے میں ہی نہیں، بلکہ اپنے قیدی کے متعلق بھی یہی فیصلہ کیا ہے ۔اپنے باپ کے قاتل کو اس نے بھی خریدا ہے۔
جلیلہ: امیہ بن خلف کے قاتل کو؟
عقبہ: ہاں۔
جلیلہ: کیا نام ہے اس کا؟
عقبہ: زیدؓ بن دثنہ
جلیلہ: کیا اس نے بھی پچاس اونٹوں کے عوض خریدا ہے؟
عقبہ: ہاں۔
جلیلہ: تب تو بنی ہذیل خاصے امیر ہو گئے ہیں۔
عقبہ: (ہنستے ہوئے) ہاں انھوں نے مویشیوں کی تجارت چھوڑ کر اصحاب محمدؐکی تجارت شروع کر دی ہے۔ (یہ کہہ کر عقبہ باہر نکل جاتا ہے)
جلیلہ: (بیٹے سے مخاطب ہوتے ہوئے) عامر یہ ڈنڈے لے کر میرے ساتھ آؤ، کھانا تو بعد میں کھلائیں گے، اسے مار کا مزہ چکھائیں!
عامر: لیکن امی جان!
جلیلہ: کیا اس کے پاؤں میں بیڑیاں نہیں ہیں؟
عامر: بیڑیاں تو ہیں۔
جلیلہ: تو پھر اس سے کیوں ڈر رہے ہو؟
عامر: میں کسی سے نہیں ڈرتا، لیکن اسے مارنا نہیں چاہیے کیونکہ وہ تو بہت ہی اچھا شخص ہے۔
جلیلہ: خدا تمھیں غارت کرے۔ وہ تمھارے نانا کا قاتل ہے!
عامر: امی جان!میرے خیال میں ایسا شخص قاتل نہیں ہو سکتا۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا جب اس نے مجھے دیکھا تو مسکرایا اور سلام کیا۔
جلیلہ: خاموش! اگر تمھاری یہ بات تمھارے ماموں عقبہ نے سن لی تو وہ تمھیں ماریں گے۔ اٹھاؤ ڈنڈا اور میرے ساتھ چلو (عامر بڑی کراہت سے ڈنڈا اٹھاتا ہے اور ماں کے پیچھے اصطبل کی طرف جاتا ہے)
دوسرا منظر
(اصطبل…… ایک نیم تاریک کمرہ جس کا دروازہ بہت مضبوط ہے۔ حضرت خبیبؓ بن عدی زمین پر تشریف فرما ہیں۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں۔ ماں بیٹا ڈنڈوں سے انھیں مار رہے ہیں)
خبیبؓ: (ہر ضرب کے جواب میں) الحمدللہ، الحمدللہ……
جلیلہ: (غصے کی حالت میں) تمھیں موت آئے، مار کھاتے ہو اور الحمدللہ کہتے جاتے ہو، کیا تمھارے رسولؐ نے تمھیں یہی سکھایا ہے؟
خبیبؓ: ہاں بہن ! ہمارے پیارے نبیؐ نے ہمیں دین کی راہ میں پہنچنے والی مصیبت کے وقت صبر کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
جلیلہ: تو بلاؤ اس کو اب وہ تمھاری مدد کرے۔
خبیبؓ: انہی نے تو ہمیں پہلے بھی نفع پہنچایا ہے اب بھی ضرور پہنچائیں گے۔
جلیلہ: تمھارا برا ہو وہ کیسے؟
خبیبؓ: انھوں نے ہم سے وعدہ کیا ہے ہم میں سے جو اللہ کی راہ میں لڑتا ہوا شہید ہو جائے گا اس کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔
جلیلہ: چھوڑو…… نرا جھوٹ ……یہ وعدہ نہیں بلکہ تمھارا غرور ہے۔
خبیبؓ: اے بہن! کاش تم نے بھی نبیؐ سے سنا ہوتا جو ہم نے سنا ہے۔ کیا وہ آپ سننا پسند کریں گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے؟
جلیلہ: (مارتے ہوئے) نہیں مجھے کچھ نہیں سننا۔
خبیبؓ: تب تو تم نے بہت سی بھلائیوں کو کھو دیا۔
جلیلہ: خاموش رہو! خدا کی قسم تمھیں اتنا ماروں گی کہ محمدؐ کا انکار کر دو گے۔
خبیبؓ: رہنے دیجیے …… مجھے مارنے سے اس کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا کہ آپ کے ہاتھ تھک جائیں۔
جلیلہ: (زور سے مارتے ہوئے)عامر تم بھی اسے مارو!
خبیبؓ: اس بچے کا بھی ہاتھ تھکانا چاہتی ہیں آپ؟
جلیلہ: تمھیں ہم سے کیا غرض …… اس کو مارو بیٹے!
عامر: امی جان! میں ماروں؟ اچھا۔ (کراہت سے مارتا ہے)
جلیلہ: زور سے مارو …… اپنی پوری قوت سے مارو!
خبیبؓ: الحمدللہ …… الحمدللہ …… الحمدللہ۔
جلیلہ: ستیاناس ہو تمھارا …… مت دہراؤ اس جملے کو!
خبیبؓ: اگر یہ کہنے سے میں رک گیا تو پھر تمھاری چوٹوں کی مجھے واقعی تکلیف محسوس ہو گی۔ یہی تو وہ کلمۂ مبارک ہے جس کی وجہ سے مجھے تکلیف کا احساس تک نہیں رہتا۔ اوہو۔ اب کیا ہوا؟ تم نے مجھے مارنا کیوں چھوڑ دیا۔ کیا تمھارے ہاتھ تھک گئے ہیں۔ اچھا! تھوڑی دیر آرام کر لو پھر اپنے ظلم کو آزمانا۔
جلیلہ: ٹھہرو ذرا، میرے بھائی عقبہ کو تو آنے دو، ان کی مار تمھارے ہوش ٹھکانے لگا دے گی۔
خبیبؓ: ٹھیک ہے۔ بلا لو اپنے بھائی کو۔ وہ تم سے اور اس معصوم بچے سے زیادہ طاقتور ہے۔
جلیلہ: (غصے سے) میں خوب جانتی ہوں کہ میرے کلیجے کی آگ کیسے ٹھنڈی ہو گی۔
خبیبؓ: تو کیا آپ نے مجھے تکلیف پہنچانے کے مختلف طریقے سوچ رکھے ہیں؟
جلیلہ: ہاں، ضرور سوچ رکھے ہیں۔
خبیبؓ: لیکن مجھے آپ پر اور اس معصوم پر ترس آتا ہے۔
جلیلہ: تمھیں اب میں ڈنڈے سے نہیں ماروں گی۔
خبیبؓ: کیا تلوار استعمال کریں گی آپ؟ تو پھر بہن جلدی کیجیے۔
جلیلہ: ہاں جلد ہی تمھارا انتظام کیے دیتی ہوں۔
خبیبؓ: اور یوں آپ مجھے جنت میں پہنچا دیں گی۔ سبحان اللہ۔
جلیلہ: قتل تو تجھے میرے بھائی اور ان کے دوست کریں گے۔ میں تجھے نت نئے عذاب میں مبتلا رکھوں گی۔ توبھوک سے تڑپ اٹھے گا۔ پیاس سے تیری زبان پر کانٹے پڑ جائیں گے۔
خبیبؓ: تو کیا آپ میرا کھانا اور پانی بند کر دیں گی؟
جلیلہ: ہاں، تو ایک بوند پانی کو بھی ترسے گا۔
عامر: امی جان، اس کا آپ کو کوئی حق نہیں۔
جلیلہ: تم خاموش رہو۔
عامر: ماموں جان نے تو انھیں کھانا کھلانے کے لیے کہا تھا۔
جلیلہ: تمھیں کہا نہیں کہ اپنی زبان بند رکھو!
عامر: اگر آپ نے ایسا کیا تو ماموں جان ناراض ہو جائیں گے۔
جلیلہ: (بے چینی کے ساتھ) تو چپ کرے گا یا تجھے……؟
خبیب ؓ: چھوڑو بیٹے! کرنے دو جو تمھاری امی کرتی ہیں۔
عامر: نہیں، ماموں جان نہیں چاہتے کہ آپ وفات پا جائیں۔
خبیبؓ: کیا وہ مجھے مقدس مہینوں کے اختتام پر قتل کرنا چاہتا ہے؟
عامر: جی ہاں! کیا آپ ان کی باتیں سن رہے تھے؟
خبیبؓ: کوئی بات نہیں، اگر آپ کی امی جان نے میرا کھانا بند کر دیا تو میرا اللہ مجھے کھلائے پلائے گا۔
جلیلہ: اچھا ہم دیکھیں گے کہ وہ کس طرح تمھیں کھلاتا پلاتا ہے۔
خبیبؓ: اگر میرے رب رازق نے مجھے کھلایا پلایا تو کیا آپ ایمان لے آئیں گے؟
جلیلہ: نہیں ہرگز نہیں، میں تمھارے رب پر کبھی ایمان نہ لاؤں گی۔
خبیبؓ: اگر اس نے مجھے کھلایا پلایا تب بھی؟
جلیلہ: ہاں! تب بھی ایمان نہ لاؤں گی۔
خبیبؓ: اور آپ میرے پیارے بیٹے؟
جلیلہ: تجھے موت آئے چھوڑ میرے بیٹے کو، خبردار اسے اگر آبائی دین سے نکالنے کی کوشش کی۔ آؤ عامر بیٹے! (اسے کھینچ کر لے جاتی ہے، مگر اس کا دل نہیں چاہتا ۔ وہ چاہتا ہے کہ قیدی کے پاس ہی بیٹھا رہے۔)
تیسرا منظر
(عامردبے قدموں اس اصطبل کے پاس آتا ہے جو حضرت خبیبؓ کا قید خانہ ہے اور دروازے سے جھانکتا ہے)
خبیبؓ: (محبت سے) آؤ …… آؤ …… پیارے بیٹے آجاؤ!
عامر: مجھے مارو گے تو نہیں؟
خبیبؓ: معاذ اللہ بیٹے! مجھے معلوم ہے کہ آپ کی امی جان آپ کو مجبور کرتی ہیں، ورنہ آپ کا تو جی نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ برا سلوک کریں۔
عامر: جی ہاں! وہی مجھے مجبور کرتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ بڑے اچھے آدمی ہیں، لیکن وہ مانتی ہی نہیں۔ اچھا آپ یہ بتلائیں کیا واقعی آپ نے میرے نانا حارث بن عامر کو قتل کیا تھا؟
خبیبؓ: ہاں بیٹے! تمھارے نانا نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی تو میں نے انھیں قتل کردیا۔
عامر: کیا آپ کو پتا نہیں تھا کہ وہ میرے نانا ہیں؟
خبیبؓ: نہیں بیٹے! مجھے کیسے خبر ہوتی کہ وہ آپ کے نانا ہیں۔ (عامر اندر داخل ہو کر خبیبؓ کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے۔ رو کر کہتا ہے)
عامر: اگر آپ نہیں جانتے تھے کہ وہ میرے نانا ہیں تو پھرمیرے اور آپ کے درمیان کوئی ناراضی نہیں۔
خبیبؓ: بہت خوب! بیٹا میرے پاس بھی تمھارے لیے محبت اور نیکی کے سوا کچھ نہیں۔
عامر: کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟
خبیبؓ: ہاں بخدا۔
عامر: (اپنی قمیص کے دامن کے نیچے سے دودھ کا پیالہ نکال کر خبیبؓ کو پیش کرتے ہوئے) یہ پی لیں۔
خبیبؓ: دودھ۔
عامر: جی ہاں! جلدی کیجیے کہیں کوئی آ نہ جائے۔
خبیبؓ: کہاں سے لائے ہو یہ دودھ!
عامر: اپنی بکریوں کا دوہ لایا ہوں۔
خبیبؓ: کیا آپ کی امی جان کو معلوم ہے؟
عامر: نہیں تو۔
خبیبؓ: تو پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔
عامر: کیوں؟
خبیبؓ: میں نہیں چاہتا کہ وہ آپ کو ماریں۔
عامر: میں پتا بھی نہیں چلنے دوں گا۔
خبیبؓ: جب وہ بکریوں کو دوہیں گی تو جان جائیں گی۔
عامر: تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے پی لیا ہے۔
خبیبؓ: وہ آپ کی بات نہیں مانیں گی اور مجھ سے پوچھیں گی۔
عامر: اگر وہ آپ سے پوچھیں تو آپ کہہ دیں کہ میں آپ کے پاس کچھ لے کر آیا ہی نہیں۔ ٹھیک ہے؟
خبیبؓ: نہیں بیٹے، اگر انھوں نے مجھ سے پوچھا تو میں سب کچھ بتلا دوں گا۔
عامر: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مجھ سے محبت نہیں کرتے۔
خبیبؓ: نہیں بیٹے، میں نہیں چاہتا کہ آپ جھوٹ بولیں اور چوری کریں۔
عامر: لیکن آپ بھوکے ہیں۔ میں آپ کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا۔
خبیبؓ: نہیں بیٹا! میں بھوکا تو نہیں ہوں۔
عامر: یہ کیسے ہو سکتا ہے، آج تیسرا دن ہے آپ نے کچھ کھایا اور نہ پیا ہے۔
خبیبؓ: عامر بیٹا! اللہ مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔
عامر: مجھے معلوم ہے کہ جس طرح آپ مار کو برداشت کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح بھوک کو بھی برداشت کر رہے ہیں۔
خبیبؓ: پیارے بیٹے! کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ دودھ میں ضرور پئیوں؟
عامر: جی ہاں! آپ میری خاطر ہی پی لیں۔
خبیبؓ: اچھا تو اپنی امی جان سے اجازت لے آؤ۔
عامر: نہیں وہ مجھے اجازت نہیں دیں گی بلکہ الٹا ماریں گی۔ (آہٹ سنتے ہی عامر پیالے کو دامن کے نیچے چھپا لیتا ہے۔ جلیلہ اندر داخل ہوتی ہے)
جلیلہ: عامر کے بچے تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
عامر: کچھ بھی تو نہیں …… بس دیکھنے آیا تھا کہ یہ بھوک سے کیسے تڑپ رہے ہیں۔
جلیلہ: یہ تم نے قمیص کے نیچے کیا چھپا رکھا ہے؟ دکھاؤ مجھے (آگے بڑھ کر دامن اٹھاتی ہے اور دودھ کا پیالہ دیکھ کر کہتی ہے)
جلیلہ: دودھ کا پیالہ؟ اچھا تو تو ہی اسے ہر روز کھلاتا پلاتا ہے۔
عامر: نہیں امی جان! انھوں نے تو مجھ سے کبھی کوئی چیز قبول نہیں کی۔
جلیلہ: کم بخت! میں تیری چمڑی ادھیڑ دوں گی۔ پکڑا مجھے یہ دودھ کا پیالہ۔
عامر: امی جان! میں نے انھیں دود ھ پیش کیا تھا تو انھوں نے آپ کی اجازت کے بغیر پینے سے انکار کر دیا تھا۔
جلیلہ : میں کہتی ہوں کہ مجھے دودھ کا پیالہ دو!
عامر: (اپنی ماں کو دودھ کا پیالہ دیتے ہوئے) لیجیے! انھیں دیجیے یہ آپ سے لے لیں گے۔
جلیلہ: (دودھ کو زمین پر انڈیلتے ہوئے) اسے پلانے سے بہتر ہے کہ زمین کی پیاس بجھا دی جائے۔
عامر: امی کتنی سنگ دل ہیں آپ!
جلیلہ: بتاؤ مجھے، محض اپنی ذات کے لیے میرے بیٹے کو کب تک چوری کی ترغیب دیتے رہو گے؟
خبیبؓ: اپنے بیٹے سے پوچھئے وہی آپ کو بتلا دے گا۔
عامر: امی جان! میں اپنی مرضی سے ان کے لیے دودھ لایا تھا مگر انھوں نے آپ کی اجازت کے بغیر پینے سے انکار کر دیا تھا۔
جلیلہ: اچھا تو اب میرے بیٹے کو جھوٹ کی مشق بھی کروا رہا ہے!
عامر: امی! انھوں نے تو مجھے جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔
جلیلہ: تمھارے فریب کا آج پردہ چاک ہو گیا ہے۔ اپنا کھانا منگوانے کے لیے اس بچے کی عقل پر قبضہ کر لیا ہے تاکہ مجھ سے کہہ سکے کہ میرا اللہ مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔
عامر: امی جان، خدا کی قسم آج پہلی مرتبہ میں ان کے لیے دودھ لایا تھا ، مگر انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
جلیلہ: کم بخت مجھے دھوکا دینے کی کوشش نہ کر۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تین دن کے بھوکے پیاسے پر کمزوری کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو؟
خبیبؓ: میں نے آپ کو بتایا نہیں کہ میرا اللہ مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔
جلیلہ: یہ لغو بات کسی اور سے کہنا۔
خبیبؓ: تو کیا آپ اس پر دلیل چاہتی ہیں؟
جلیلہ: ہاں اللہ کی کوئی نشانی دیکھنا چاہتی ہوں۔
خبیبؓ: (آسمان کی طرف بڑے ہی خشوع و خضوع کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا فرماتے ہیں۔) اے اللہ! اپنی نشانی دکھلا دیجیے تاکہ آپ کے دین کے لیے حجت بنے اور آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہو۔ آمین
عامر: (تقریباً چیختے ہوئے) ان کی طرف دیکھیے امی جان!
خبیبؓ: (اپنے ہاتھ میں انگور کا گچھا پکڑے ہوئے) یہ لو، بہن!
جلیلہ: یہ کیا ہے؟
خبیبؓ: انگور!
جلیلہ: تم نے یہ کہاں سے لیے ہیں؟
خبیبؓ: اپنے اللہ کریم سے۔
جلیلہ: نہیں تمھارے پاس یہ کم بخت بچہ لایا ہو گا۔
عامر: میں کہاں سے لایا ہوں، کیا آپ نے پہلے بھی اس طرح کے انگور مکہ مکرمہ میں دیکھے ہیں؟
جلیلہ: تم نے صحیح کہا۔ میں نے ایسے انگور پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ (سرگوشی کے انداز میں) یہ تو جادوگر ہے بیٹا۔
خبیبؓ: لو کھاؤ اس میں سے بہن!
جلیلہ: نہیں …… میں نہیں چاہتی کہ تم مجھ پر جادو کر دو۔
خبیبؓ: عامر! تم کھاؤ۔
جلیلہ: (عامر کا ہاتھ کھینچتے ہوئے) نہیں بیٹے! یہ تم پر جادو کرنا چاہتا ہے، آؤ ہم اس سے دورہٹ جائیں۔ (اپنے بیٹے کو لے کر نکل جاتی ہے)
چوتھا منظر
(عامر دبے قدموں قید خانے میں داخل ہوتا ہے)
عامر: چچا حضور معاف فرمائیے، کل میں آپ کے پاس حاضر نہ ہو سکا۔
خبیبؓ: کیا تمھاری امی جان نے محبوس کر رکھا تھا؟
عامر: جی ہاں، پہلے انھوں نے پیٹا اور پھر محبوس کر دیا۔
خبیبؓ: اور تم پھر آج میرے پاس آگئے؟
عامر: چچا حضور! آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں، مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے۔
خبیبؓ: میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں، لیکن ڈرتا ہوں کہیں تمھاری امی جان ناراض ہو کر پھر نہ ماریں۔
عامر: ڈرنے کی ضرورت نہیں! وہ آل عبدالدار کے ہاں گئی ہوئی ہیں اور شام سے پہلے واپس نہیں آئیں گی۔
خبیبؓ: تو پھر عامر بیٹے بسرو چشم آؤ …… آؤ میرے پاس بیٹھو۔
عامر: (خبیبؓکے پاس بیٹھتے ہوئے) کہاں ہیں چچا وہ انگور جو آپ کے پاس تھے؟
خبیبؓ: وہ تو میں نے کھا لیے۔
عامر: سارے؟
خبیبؓ: ہاں بیٹا! سارے ہی کھا لیے۔
عامر: میرا بھی انگور کھانے کو جی چاہ رہا تھا۔
خبیبؓ: (نہایت انکساری اور خشوع و خصوع سے دعا فرماتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں انگور آجاتے ہیں) لو بیٹے کھاؤ۔
عامر: عجیب بات ہے، آخر یہ آپ کے پاس کہاں سے آگئے؟
خبیبؓ: عامر بیٹے! میرے اللہ کی طرف سے جو سب کا پالنے والا ہے۔
عامر: (انگور کھاتے ہوئے) لیکن چچا حضور یہ تو انگوروں کا موسم ہی نہیں ہے۔ پھر آپ کا اللہ میاں کہاں سے لے آتا ہے؟
خبیبؓ: میرا اللہ میاں تو ہر چیز پر قادر ہے۔
عامر: کیا وہی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اللہ ہے؟
خبیبؓ: ہاں وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رب ہے …… اور محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
عامر: لیکن چچا حضور محمدؐ تو مجھے اچھے نہیں لگتے۔
خبیبؓ: کیوں بیٹا! وہی تو اس لائق ہیں کہ ان سے محبت کی جائے۔
عامر: لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو جھٹلاتے ہیں۔
خبیبؓ: بیٹا! بت تو ہوتے ہی جھوٹے ہیں۔ اس اکیلے رب سے تو سچا کوئی ہے ہی نہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
عامر: لات، عزی، منات اور ہبل بھی؟
خبیبؓ: یہ بت تو لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔
عامر: لیکن چچا، آپ کے اللہ میاں نے بھی تو آپ کوبھوکا پیاسا اور تکلیفیں اٹھانے کے لیے چھوڑ دیا ہے؟
خبیبؓ: نہیں بیٹے! میرے اللہ نے مجھے ایسے ہی نہیں چھوڑا بلکہ اگر اس مصیبت پر صبر کر جاؤں تو وہ مجھے انعام سے نوازے گا۔
عامر: اچھا چچا! کیا آپ مجھے اس شخص کی کہانی نہیں سنائیں گے جسے شہد کی مکھیوں نے بچا لیا تھا؟
خبیبؓ: تو تم نے بھی سن رکھا ہے وہ قصہ!
عامر: تھوڑا بہت سنا تھا، مگر میں پورا قصہ سننا چاہتا ہوں کیونکہ آپ تو ان کے ساتھ تھے نا؟
خبیبؓ: ہاں بیٹے! وہ ہمارے امیر تھے …… عاصمؓ بن ثابت…… جب بنی ہذیل نے دھوکے سے ہم پر حملہ کر دیا تو وہ ان سے اس وقت تک لڑتے رہے جب تک ان کے جسم مبارک میں جان تھی۔ پھر بیٹا! ان کی شہادت کے بعد ہذیلیوں نے ان کے سر مبارک کو ایک عورت کے ہاتھ جس کے دو بیٹے میدانِ بدر میں قتل ہو گئے تھے ایک سو اونٹوں کے بدلے بیچنا چاہا۔
عامر: چچا حضور! میں اس عورت کو جانتا ہوں وہ ال عبدالدار کی سلافہ ہے۔ آج میری امی جان اسی کے ہاں گئی ہیں(عامر کچھ لوگوں کے قدموں کی آواز سن کر ڈر جاتا ہے اور تیزی سے چھپ چھپا کر بھاگ جاتا ہے۔ جلیلہ اور سلافہ داخل ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک غلام ہے جس نے کٹا ہوا سر اٹھایا ہوا ہے۔
سلافہ: تو یہ ہے آپ کا قیدی
جلیلہ: ہاں۔
سلافہ: سنو! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سر کس کا ہے؟
خبیبؓ: اللہ کی لعنت ہو بنی ہذیل پر
سلافہ: میں پوچھ رہی ہوں کیا تو جانتا ہے کہ یہ سر کس کا ہے؟
خبیبؓ: ہاں یہ سر میرے پیارے بھائی کا ہے۔
سلافہ: کون ہے یہ؟
خبیبؓ: تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی۔
جلیلہ: اے بد بخت یہ بنی عبدالدار کی سلافہ عقیلہ ہیں۔
خبیبؓ: وہی جس کے دونوں لڑکے بدرمیں جہنم واصل کر دیے گئے تھے۔
جلیلہ: ہاں ! اور یہ سر ان دونوں کے قاتل کا ہے؟ کیا تو اسے جانتا ہے؟
سلافہ: عاصمؓ بن ثابت بن ابی الاقلع۔
خبیبؓ: تم نے بنی ہذیل کو اس کی کتنی قیمت ادا کی ہے؟
سلافہ: ایک سو اونٹ۔
خبیبؓ: کیا انھوں نے تمھیں یقین دلایا ہے کہ یہ عاصمؓ بن ثابت کا سر ہے؟
سلافہ: ہاں۔
خبیبؓ: تو پھر انھوں نے جھوٹ بولا ہے اور تمھیں دھوکا دیا ہے کیونکہ یہ میرے بھائی عاصمؓ کا سر مبارک نہیں ہے۔
سلافہ: میرے خیال میں تم جھوٹ بول رہے ہو۔
خبیبؓ: مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ جھوٹ بولوں۔
سلافہ: تمھیں پتا چلا ہو گا کہ میں اس کھوپڑی میں شراب پینے والی ہوں تو تمھیں اپنے اس دوست پر رحم آگیا ہو گا۔
خبیبؓ: یہ سر مبارک میرے ایک اور محترم بھائی کا ہے۔ میرے دل میں جس کی محبت کسی طرح بھی عاصمؓ کی محبت سے کم نہیں۔
سلافہ: تو پھر کون ہے یہ؟ کیا نام ہے اس کا؟
خبیبؓ: یہ عبداللہؓ بن طارق کا سر ہے جب ہم عہد کے مطابق بنی ہذیل پہنچے تو انھوں نے دھوکے سے حملہ کر دیا اور یہ وہیں لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبے پر سرفراز ہوئے تھے۔
سلافہ: اور عاصم …… کہاں ہے عاصم کا سر؟
خبیبؓ: مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو، ان سے پوچھو جنھوں نے ان سے غداری کرکے حملہ کیا تھا۔ اللہ کریم نے تو ان کی دعا کی لاج رکھ لی ہے۔ انھوں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ! میرے جسم کو کوئی مشرک ہاتھ نہ لگائے۔ خدا کی قسم کسی مشرک نے ان کے جسم مبارک کو چھوا تک نہیں۔
سلافہ: عقبہ بھائی کیا خیال ہے آپ کا؟یہ اپنے اس دعوے میں سچا ہے یا جھوٹا؟
عقبہ: میں نے تو اسے ہمیشہ سچا ہی پایا ہے۔
سلافہ: اللہ بنی ہذیل کو تباہ کرے، بخدا ان سے وہ سب کچھ واپس لے لوں گی جو اس سر کے عوض انھیں دیا ہے۔
عقبہ: سلافہ، یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ تو تمھیں یقین دلا دیں گے کہ یہ عاصم ہی کا سر ہے۔
سلافہ: میں دلیل کے طور پر آپ کے قیدی کی گواہی پیش کروں گی کیونکہ یہ اس کا دوست اور ساتھی تھا۔
عقبہ: وہ تو بڑے زبان دراز اور باتونی ہیں اور یہ حجت پیش کریں گے کہ یہ ان کا قیدی اور وہ اس کے دشمن ہیں۔
سلافہ: عجیب بات ہے عقبہ، آپ تو ان کا دفاع کر رہے ہیں؟
عقبہ: اصل میں، میں نہیں چاہتا کہ وہ آپ کا مال بھی ہضم کر جائیں اور باتیں بھی بنائیں۔
سلافہ: تو کیا اس دھوکا دہی پر میں انھیں چھوڑ دوں؟
عقبہ: اگر وہ مطلوبہ سر آپ کو دے سکتے تو انھیں کیا اعتراض تھا۔وہ تو اسی کو عاصم بن ثابت کا سر سمجھ کر لائے ہیں۔
سلافہ: انھیں چاہیے تھا کہ وہ مجھے حقیقت حال سے مطلع کرتے۔
عقبہ: اگر وہ آپ کو بتا دیتے تو مال کیسے حاصل کرتے؟
سلافہ: تو پھر انھوں نے مجھ سے وہ معاوضہ کیونکر لیا جس کے وہ مستحق نہ تھے؟
عقبہ: اگر یہ عاصم کا سر نہیں ہے تو پھر عاصم کے کسی ساتھی کا ہے۔ عاصم اور اس کے ساتھی محمدؐ کے صحابی ہیں۔ یہ سب ہمارے دشمن ہیں۔
سلافہ: لیکن میں تو اپنے بیٹوں مسافع اور جلاس کے قاتل کا سر چاہتی ہوں۔
عقبہ: تاکہ آپ اس کی کھوپڑی میں شراب پئیں؟
سلافہ: ہاں میں نے یہی نذر مانی ہوئی ہے۔
عقبہ: پھر اسی کی کھوپڑی میں شراب پی کر اپنی نذر پوری کر لیجیے کیونکہ مسافع اور جلاس کے قاتل کا بدر میں یہ ساتھی تھا۔
سلافہ: میں کسی اور کی کھوپڑی میں شراب نہ پیوں گی۔ میں نے اس کی کھوپڑی میں ہی شراب پینے کی قسم کھائی ہے اس وقت تک میرا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہو گا جب تک اپنے دونوں بچوں کے قاتل سے انتقام نہ لے لوں۔
عقبہ: اے سلافہ! تو خوش نہیں ہو گی کہ ہم اصحابِ محمدؐ سے انتقام لیں؟
سلافہ: ہاں بے شک۔
عقبہ: تو پھر اس سر کو اصحاب محمدؐ میں سے کسی ایک کا سر سمجھ کر انتقام لے لو۔
پانچواں منظر
(عقبہ صفوان بن امیہ کا استقبال کرتا ہے اور صفوان حضرت زید بن دثنہ کو بیڑیوں میں جکڑ کر لاتا ہے)
عقبہ: خوش آمدید…… آئیے آئیے، سنائیے صفوان، اس قیدی کے ساتھ کیسے تشریف لائے ہیں آپ؟
صفوان: میں آپ کے قیدی کو دکھا کر یہ یقین کرنا چاہتا ہوں کیا واقعی زید بن دثنہ یہی ہے۔
عقبہ: کیا آپ کو شک ہے؟
صفوان: آپ تو جانتے ہیں کہ بنی ہذیل نے سلافہ کے ساتھ کیا دھوکا کیا ہے، اب تو مجھے ان پر کوئی اعتماد نہیں۔
عقبہ: یہ قیدی خود کیا کہتا ہے، کیا اس نے انکار کیا ہے کہ وہ زید ابن دثنہ نہیں ہے؟
صفوان: اقرار کرتا ہے نہ انکار، جب بھی پوچھتا ہوں تو بس سبحان اللہ اور الحمدللہ کا ورد کرنے لگتا ہے۔
عقبہ: ان کا معمہ بھی بڑا عجیب ہے۔ آئیں، اصطبل میں جا کر خبیبؓ سے پوچھ لیں۔ (دونوں جاتے ہیں)
چھٹا منظر
(اصطبل میں عقبہ، صفوان اور حضرت زید ؓبن دثنہ، حضرت خبیبؓ بن عدی کے سامنے کھڑے ہیں۔ دونوں کے چہروں پر ملاقات کی خوشی نمایاں ہے۔)
زیدؓ: (حضرت خبیبؓ کی طرف دیکھتے ہوئے) السلام علیکم۔
خبیبؓ: وعلیکم السلام۔
زیدؓ: (صفوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) خبیب بھائی۔ یہ مشرک یقین کرنا چاہتا ہے کہ بنی ہذیل نے اس کے پاس اس کے باپ کے قاتل ہی کو بیچا ہے؟
خبیبؓ : تو پھر آپ نے اسے کیا بتلایا ہے؟
زیدؓ: میں نے نفی میں جواب دیا ہے اور نہ ہی اقرار کیا ہے۔ میں تو بس خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا ہی بیان کرتا رہتا ہوں۔
خبیبؓ: اے بھائی! آخر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
زیدؓ: اس لیے کہ اس کے غیض و غضب کو بھڑکاؤں اور یہ مجھے قتل کرنے میں جلدی کریں اور شہید ساتھیوں کو جنت میں ملنے کے لیے تڑپنے والے دل کو قرار ملے۔
خبیبؓ: پیارے بھائی! اللہ آپ پر رحم فرمائے، یہ لوگ آپ کو اس وقت تک شہید نہ کریں گے جب تک انھیں یقین نہ آجائے کہ آپ ہی ان کے باپ امیہ بن خلف کے قاتل زیدؓ بن دثنہ ہیں۔
زیدؓ: (صفوان سے) اب تو تمھیں پتا چل گیا ہو گا کہ میں وہی زیدؓ بن دثنہ ہوں جس نے میدانِ بدر میں تمھارے باپ امیہ بن خلف کو قتل کرکے جہنم رسید کیا تھا۔
عقبہ: خوب! اب تو اس نے آپ کے سامنے اعتراف کر لیا ہے۔
صفوان: لیکن مجھے تو اس کی بات پر یقین نہیں آ رہا۔
عقبہ: کیوں؟
صفوان: پہلے تو میں یہ سمجھتا رہا کہ شاید موت کے خوف نے اس کی زبان گنگ کر رکھی ہے، مگر اب اس کے اشتیاقِ شہادت نے مجھے شک میں ڈال دیا ہے۔
عقبہ: اب اسے قتل کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟
صفوان: مجھے کیا خبر کہ اس نے جلدی قتل ہونے کے شوق میں دعویٰ کیا ہو کہ یہی زید بن دثنہ ہے۔
زیدؓ: میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ اب تو میں جلد ہی اپنے ان ساتھیوں سے جنت میں ملوں گا جو مجھ سے پہلے شہید ہو کر رضائے الٰہی حاصل کر چکے ہیں۔
صفوان: سنا آپ نے۔ اس نے کتنا بڑا دعویٰ کیا ہے، مگر اس کا دعویٰ جھوٹا ہے۔
زیدؓ: ہم مسلمان کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی جھوٹ بولنے کی ضرورت ہے۔
خبیبؓ: جھوٹ وہ بولتا ہے جو کسی سے ڈرتا ہے اور ہم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی سے نہیں ڈرتے۔
صفوان: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ یہ زید بن دثنہ ہے؟
خبیبؓ: اسی طرح جس طرح میں گواہی دیتا ہوں کہ میں خبیب بن عدی ہوں۔
زیدؓ: اب تو تم نے سن لیا ہے کہ میں ہی زید بن دثنہ ہوں آؤ اور اب میرے قتل میں جلدی کرو۔ کیونکہ مجھے جنت میں داخل ہونے کا بڑا شوق ہے۔
صفوان: کیا پتا تمھارا آپس میں گٹھ جوڑ ہو۔
زیدؓ: چلو! جو کرنا چاہتے ہو جلدی کرو!
عقبہ: اب اور کیا چاہتے ہیں صفوان آپ؟
صفوان: خدا کی قسم! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ اگر مجھے یقین آجائے کہ یہی امیہ بن خلف کا قاتل ہے تو اسے ابھی قتل کر دوں۔
زیدؓ: اگر میں تمھارے باپ کا حلیہ بیان کر دوں پھر تو تمھیں یقین آجائے گا؟
عقبہ: اگر یہ آپ کے والد کا حلیہ بیان کر دے ، تو پھر آپ کو یقین کر ہی لینا چاہیے کہ یہی آپ کے والد کا قاتل ہے۔
زیدؓ: جب وہ سامنے سے آیا تھا تو میں نے محسوس کیا تھا کہ اس کی ایک ٹانگ دوسری سے چھوٹی ہے۔
عقبہ: بخدا تم نے سچ کہا۔
صفوان: (زید سے) ان کا حلیہ بیان کر!
(زیدؓ بن دثنہ غور سے صفوان کے چہرے کو دیکھتے ہیں)
صفوان: خدا تجھے غارت کرے تو اس طرح بغور میرے چہرے کی طرف کیوں دیکھ رہا ہے؟
زیدؓ: اس لیے کہ تمھارے اور اس کے درمیان کوئی مشابہت ہے بھی یا نہیں۔
صفوان: اچھا تو پھر غور سے دیکھو!
زیدؓ: جتنی تمھاری باپ سے کم مشابہت ہے اتنی کم مشابہت میں نے کبھی کسی باپ بیٹے میں نہیں دیکھی وہ سرخ تھا اور تو سفید ہے۔ وہ چپٹی ناک والا تھا اور تیری ناک تیز ہے۔ وہ چھوٹی گردن اور تنگ شانے والا تھا، مگر تو تو لمبی گردن اور چوڑے شانے والا ہے۔
صفوان: بالکل ٹھیک، اب میں نے تمھیں قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
زیدؓ: یایتھا النفس المطمئنہo ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃo فادخلی فی عبادیoو ادخلی جنتیo (صدق اللہ العظیم)
ساتواں منظر
(عامر اصطبل میں حضرت خبیبؓ بن عدی کے پاس بیٹھا ہے)
عامر: ہاں تو کیا قصہ ہے شہد کی مکھیوں کا؟ کیا واقعی وہ بہت بڑی بڑی تھیں؟
خبیبؓ: کیا تمھیں یقین نہیں۔ ہوا یوں کہ شہد کی مکھیاں بہت زیادہ مقدار میں حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارد گرد منڈلانے لگیں۔ اگر کوئی ان کے پاس جاتا تو اسے چمٹ جاتیں، اسی طرح اللہ نے شہد کی مکھیوں کے ذریعے حفاظت فرمائی، حتیٰ کہ پانی کا ریلا آیا اور ان کے جسد خاکی کو بہا کر لے گیا۔
عامر: کہتے ہیں وہ جادوگر تھا۔
خبیبؓ: عامر بیٹا! ان کی باتوں کا یقین نہ کرو۔ وہ تو سچے اور بہادر مومن تھے۔ انھوں نے اپنے اللہ سے دعا فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا تھا۔
عامر: کیا دعا مانگی تھی؟
خبیبؓ: عامر! وہ دن بھر جہاد کرتے رہے اور شام کو جب انھیں یقین ہو گیا کہ اب شہادت قریب ہے تو انھوں نے اللہ سے دعا کی۔ اے خداوندکریم، میں نے سارا دن تیرے دین کی حفاظت کی ہے اب تو میرے جسم کی حفاظت فرما۔
عامر: اگر ان کی دعا کو شرفِ قبولیت حاصل تھا تو انھوں نے موت سے بچنے کے لیے کیوں دعا نہ کی؟
خبیبؓ: انھوں نے زندگی پر شہادت کی موت کو ترجیح دی تھی تاکہ وہ جنت میں داخل ہو سکیں۔
عامر: اچھا چچا ذرا یہ تو بتائیے کہ جنت میں ہے کیا؟
خبیبؓ: بیٹا! جنت میں وہ نعمتیں ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک آیا۔
عامر: کیا یہ ممکن ہے کہ میں بھی جنت میں داخل ہو سکوں؟
خبیبؓ: ہاں بیٹا! کیوں نہیں، بشرطیکہ تم اللہ اور ان کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لے آؤ اور بھلے کام کرو۔
عامر: (خوشی سے چہک کر) سنیے چچا؟
اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہے۔ کیا کوئی چیز آپ کو پیش کروں؟
خبیبؓ: ہاں بیٹے! مجھے استرے کی ضرورت ہے۔
عامر: استرا؟ کیا کریں گے آپ اس سے؟
خبیبؓ: یقینا کل یہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے تو میں چاہتا ہوں کہ قتل سے پہلے ڈاڑھی کا خط بنا لوں اور غیر ضروری بال صاف کر دوں تاکہ اپنے رب سے خوب بن سنور کر اچھی حالت میں ملوں۔
عامر: تو کہاں ملیں گے آپ اپنے رب سے؟
خبیبؓ: ان شاء اللہ جنت میں۔
عامر: اچھا …… میں ابھی لاتا ہوں۔
(عامر باہر نکل جاتا ہے)
آٹھواں منظر
(وہی منظر۔ حضرت خبیبؓ بن عدی استرے سے ڈاڑھی اور مونچھوں کے بال سنوار رہے ہیں اور عامر بڑے ہی غور سے حضرت خبیبؓ بن عدی کی باتیں سن رہا ہے)
عامر: کیا رسولؐ اللہ بہت خوب صورت ہیں؟
خبیبؓ: ہاں بیٹا! وہ بہت ہی خوب صورت ، بہت ہی بھلے اور انتہائی بہادر ہیں۔ تم انھیں ایک دفعہ دیکھ لو تو تم بھی ان سے محبت کرنے لگو۔
لونڈی: (باہر سے لونڈی کی آوازیں آ رہی ہیں جو ڈر کر چیخ رہی ہے)
بیگم صاحبہ، بیگم صاحبہ! بی بی جی، آپ کا بیٹا عامر قیدی کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں تیز دھار آلہ ہے۔
جلیلہ: کس کے ہاتھ میں ؟
لونڈی: قیدی کے ہاتھ میں۔
جلیلہ: ہائے میں مر گئی! وہ میرے بیٹے کو قتل کر دے گا جس طرح اس نے میرے والد کو قتل کیا تھا۔ جلدی سے اپنے آقا عقبہ کو بلا لا!
(جلیلہ سہمی اور ڈری ہوئی تیزی سے اصطبل میں داخل ہوتی ہے اور گھبرائی ہوئی آواز میں کہتی ہے) خدا تجھے غارت کرے، تو میرے بیٹے سے کیا سلوک کرنے لگا ہے۔
خبیبؓ: (بچے کو اپنے قریب کرتے ہوئے) بہن! اللہ تعالیٰ نے مجھے تم پر دوبارہ غلبہ عطا کیا ہے۔
جلیلہ: تجھے تیری شفقت اور محبت کی قسم اس معصوم بچے کو کچھ نہ کہنا، میرا اس کے علاوہ دنیا میں کوئی نہیں ہے، کیا تیرے دل میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں؟
عامر: نہ ڈریں امی جان! وہ تو آپ سے مذاق کر رہے ہیں۔ وہ تو مجھے بے پناہ چاہتے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے کوئی تکلیف پہنچائیں۔
جلیلہ: اسی بات کا تو مجھے ڈر تھا کہ کسی نہ کسی دن وہ تمھیں اعتماد میں لے کر قبضہ کر لے گا پھر تمھیں قتل کر دے گا۔
عامر: یہ مجھے قتل کریں گے؟
جلیلہ: یہ تو اب کرنے والا ہے۔
عامر: کیا کیا ہے انھوں نے؟ اور نہ ہی کچھ یہ کرنے والے ہیں۔
جلیلہ: ہائے ہائے؟ اب تو تو اس کے قبضہ میں ہے۔ چاہے تو وہ تجھے زخمی کر دے یا ذبح کرکے خون پی جائے۔
عامر: (زور سے قہقہہ لگاتا ہے)
جلیلہ: کم بخت اب بھی ہنس رہا ہے؟
عامر: میں تو اس لیے ہنس رہا ہوں کہ آپ تو بلا وجہ ہی پریشان ہو گئی ہیں۔
جلیلہ: اندھے ہو گئے، کیا دیکھتے نہیں کہ اس کے ہاتھ میں چمکتا ہوا تیز دھار استرا ہے؟
عامر: (ہنستے ہوئے) یہ تو میں نے خود لا کر انھیں دیا تھا۔
جلیلہ: اس لیے کہ وہ تجھے اس سے قتل کر دے؟
عامر: نہیں امی جان! انھوں نے تو اپنی حالت سنوارنے اور بالوں کی اصلاح کے لیے لیا ہے تاکہ اپنے رب سے اچھی حالت میں ملیں اور امی، امی۔ بتاؤں ! یہ اپنے رب سے جنت میں ملیں گے۔
جلیلہ: تیرا ستیاناس ! کیا تو نے اس کی باتوں کو سچ جان لیا ہے؟
عامر: وہ ماموں آ رہے ہیں(عقبہ ڈرا ہوا اندر داخل ہوتا ہے)
جلیلہ: جلدی ادھر آؤ عقبہ بھائی! خدا کے لیے مجھے بچاؤ، میری مدد کرو!
عقبہ: ( گھبرا کر)کیا ہوا جلیلہ بہن؟
جلیلہ: کیا دیکھ نہیں رہے کہ بچہ قیدی کے پاس ہے اور اس کے ہاتھ میں تیز دھار استرا ہے۔
عقبہ: تمھارا بیڑا غرق ! کیا تمھارے نبی نے تمھیں یہی سکھایا ہے کہ تم لوگوں کے بچوں کو ذبح کرتے پھرو؟
خبیبؓ: جھوٹے الزام مت تراش! ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہدایت اور رحمت والے نبی ہیں، انھیں تو مبعوث ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ ‘‘مکارم الاخلاق’’ کی تکمیل کریں۔
عقبہ: پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ تو نے بچے کو پکڑ رکھا ہے اور تیرے ہاتھ میں استرا ہے؟
خبیبؓ: اس لیے کہ تمھیں دکھاؤں کہ میں اس بچے کو قتل کرنے پر قادر تھا، مگر مجھے میرے دین نے منع کیا ہے۔ اگر میرا دین نہ روکتا تو یقینا میں اسے قتل کر دیتا (عامر کی طرف دیکھ کر) جاؤ بیٹے! اپنی امی کے پاس، شاباش۔
عامر: نہیں…… میں نہیں جاؤں گا جب تک باقی کی کہانی نہ سن لوں۔
جلیلہ: ادھر آ کم بخت ادھر آ؟
عامر: (اپنے ماموں کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے جس کے چہرے پر غیض و غضب نمایاں ہے اور اپنی ماں سے کہتا ہے ) امی جان مجھے ڈر لگتا ہے۔
جلیلہ: بیٹا کس سے خوف محسوس کر رہے ہو تم؟
عامر: ماموں سے۔
جلیلہ: تمھارے ماموں تو تمھیں اس قیدی سے بچانے کے لیے آئے ہیں بیٹا۔
عامر: نہیں وہ مجھے ماریں گے۔ ان کے چہرے پر غصے کے آثار نہیں دیکھ رہیں آپ؟
جلیلہ: غصہ تو انھیں قیدی پر آرہا ہے۔
عامر: میں جانتا ہوں انھیں غصہ مجھ ہی پر ہے۔
جلیلہ: عقبہ بھائی! آپ اسے یقین دلائیں کہ آپ اسے ماریں گے اور نہ ہی برا بھلا کہیں گے۔
عقبہ: آؤ بیٹے! میں تمھیں کچھ نہیں کہوں گا۔
عامر: نہیں امی جان! جب تک ماموں حلفاً نہ کہیں میں ان کے پاس نہ آؤں گا۔
جلیلہ: عقبہ بھائی! آپ اسے حلفاً کہہ دیں کہ کچھ نہ کہیں گے۔
عقبہ: (غصے کو چھپاتے ہوئے) بخدا بیٹے میں تمھیں بالکل نہیں ماروں گا، بلکہ پیار کروں گا۔
(عامر ماں کے پاس جاتا ہے۔ وہ خوشی سے پھولی نہیں سماتی۔ اسے یقین نہیں آتا کہ اس کا بچہ زندہ واپس اس کے پاس آگیا ہے)
نواں منظر
(عامر اور جلیلہ دبے پاؤں اصطبل میں داخل ہوتے ہیں)
جلیلہ: عامر! ذرا باہر دیکھنا کہیں لونڈی ہمیں دیکھ تو نہیں رہی!
عامر: (تھوڑی دیر کے لیے باہر جا کر واپس آجاتا ہے) نہیں باہر کوئی بھی نہیں۔
خبیبؓ: اللہ بھلا کرے تمھارا عامر بیٹے اور ام عامر…… پیشتر اس کے کہ وہ مجھے قتل کرنے کے لیے لے جائیں، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بندہ حاضر ہے۔
عامر: چچا حضور! ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیں۔ تاکہ ان کے ہاتھوں سے آپ کو نجات ملے۔
خبیبؓ: میرے پاؤں تو بیڑیوں نے جکڑ رکھے ہیں۔
عامر: میں یہ ابھی کھولے دیتا ہوں چچا جان۔
خبیبؓ: (اس کی بات پر مسکراتے ہوئے) سن رہی ہیں، آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ کے صاحبزادے؟
جلیلہ: تھوڑی دیر پہلے ہم دونوں اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ آپ کو آزاد کر دیں۔
خبیبؓ: سچ؟
جلیلہ: ہاں بھائی! آپ نے مجھ پر جو احسان فرمایا ہے اس کے عوض تو یہ بات کچھ بھی نہیں۔
عامر: ہمیں جلدی کرنی چاہیے کہیں کوئی آ ہی نہ جائے۔ مجھے بیڑیوں کی چابی دیجیے امی جان۔
جلیلہ: (چابی دیتے ہوئے) یہ لو بیٹا!
خبیبؓ: جو آپ کر رہے ہیں کیا آپ اس کے نتائج کو سمجھتے ہیں؟
جلیلہ: آپ ہمارے بارے میں خوف محسوس کر رہے ہیں؟
خبیبؓ: ہاں بہن!
عامر: میں ماموں جان سے کہہ دوں گا کہ میں نے اپنی مرضی و خوشی سے چھوڑا ہے، اس میں امی جان کا قصور نہیں۔
خبیبؓ: لیکن چابی تو آپ کی امی جان کے پاس ہے۔ سارا الزام تو انہی کے سر آئے گا؟
عامر: میں کہوں گا کہ چابی میں نے چرالی تھی۔
خبیبؓ: مجھے ڈر ہے بیٹا کہ آپ کا ماموں آپ کو بہت مارے گا۔
عامر: یہ سب کچھ میں آپ کے لیے برداشت کر لوں گا۔
جلیلہ: زیادہ سے زیادہ وہ ہمیں چند کوڑے مار لیں گے۔
خبیبؓ: نہیں بہن! وہ آپ کو دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
جلیلہ: آپ عقبہ بھائی کے متعلق چنداں فکر مند نہ ہوں، میں خود ان سے نمٹ لوں گی۔
خبیبؓ: آپ اپنے بھائی سے تو نمٹ لیں گی، مگر اہل مکہ کا مقابلہ کیسے کریں گی جنھیں آپ کے بھائی نے صبح التمیم میں میرے قتل کا نظارہ کرنے کے لیے بلایا ہے۔
(عامر روتے ہوئے فریاد کر رہا ہے)
جلیلہ: عامر کی طرف دیکھیے وہ آپ کے لیے کیسے رو رہا ہے۔ اس کی تو ہچکیاں بندھ گئی ہیں۔ کیا آپ کو اس معصوم کے آنسوؤں پر رحم نہیں آ رہا؟
خبیبؓ: جلیلہ بہن! آنسو تو مجھے خون رلا رہے ہیں۔
جلیلہ: خبیبؓ بھائی! خدارا آپ میری خاطر بھاگ جائیں۔ میں آپ کے دین پر ایمان بھی لے آئی ہوں۔
خبیبؓ: (خوشی سے) پیاری بہن کیا یہ سچ ہے؟
جلیلہ: جی ہاں! خدا کی قسم یہ بالکل سچ ہے۔
عامر: (اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے) اور چچا جان! میں تو امی جان سے پہلے اسلام قبول کر چکا ہوں۔
خبیبؓ: اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے۔ آپ کو بہت بہت مبارک ہو اور اب آپ مل کر کہیں اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ۔
دونوں: اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ۔
خبیبؓ: واشھد ان محمدا رسول اللّٰہ۔
دونوں: واشھد ان محمدا رسول اللّٰہ۔
خبیبؓ: (یہ کہتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں) الحمدللہ اب آپ دونوں مسلمان ہیں اللہ آپ کو قبول فرمائیں۔
جلیلہ: اچھا اب ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم آپ کو آزاد کردیں تاکہ پھر آپ ہمارے دین کی اصلاح کر سکیں۔
خبیبؓ: اب آپ دونوں نے اپنے دین کی اصلاح کر لی ہے۔ آپ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے آپ ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں۔ اچھا خداحافظ۔ اب آپ جلدی سے چلے جائیں کہیں کوئی آ نہ جائے۔(عامر بلکتا ہوا اور جلیلہ سسکیاں لیتی ہوئی اور آنکھوں سے آنسو برساتی ہوئی باہر نکل جاتی ہے۔ خود خبیبؓ کی آنکھوں میں بھی آنسو تیرنے لگتے ہیں۔)
دسواں منظر
(مکہ سے باہر لکڑی کی صلیب بلندی پر نصب کی گئی ہے۔ حضرت خبیبؓکو عقبہ اور دوسرے اشخاص باندھ کر لا رہے ہیں۔ عامر اور جلیلہ بھی پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ حضرت خبیبؓ صلیب کے قریب آتے ہیں تو کہتے ہیں)
خبیبؓ: موت سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
عقبہ: نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔
جلیلہ: عقبہ آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ آخرت کے راہی کی آخری بات تو مان لو۔
عقبہ: تمھیں اس سے کیا غرض ہے!
جلیلہ: ان کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے۔میرا بیٹا ان کے قبضہ میں تھا اور پوری قدرت کے باوجود انھوں نے میرے بیٹے کو قتل نہیں کیا۔
عامر: ماموں جان! ان کی یہ معمولی خواہش ضرور پوری کر دیجیے۔
عقبہ: (نرم پڑ کر) اچھا پڑھ لو نماز مگر جلدی کرو!
(حضرت خبیبؓ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے)
گیارہواں منظر
خبیبؓ: (نماز پڑھ کر سلام پھیرتے ہیں) السلام علیکم و رحمتہ اللہ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ، (کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں) بخدا اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم طعنہ دو گے کہ موت کے ڈر سے نماز لمبی کر دی ہے تو میں اپنی نماز کو سکون اور خشوع و خضوع سے پڑھتا۔ آؤ اچھا اب آؤ، مجھے قتل کرو!
عقبہ: آؤ صلیب کے قریب کھڑے ہو جاؤ۔
خبیبؓ: خدا تمھیں غارت کرے۔ کیا تم مجھے مصلوب کرنا چاہتے ہو؟
عقبہ: ہاں …… کیا ڈر گئے ہو؟
خبیبؓ: سن اے شخص، مسلمان کبھی موت سے نہیں ڈرتا۔
(عقبہ اور اس کے ساتھی غیض و غضب کے عالم میں ہو کر حضرت خبیبؓ بن عدی کو رسی سے باندھتے ہیں اور پھر ان کا ایک ایک عضو کاٹتے ہیں)
خبیبؓ: الحمدللہ …… الحمدللہ …… الحمدللہ……
عقبہ: (آخری وار کرنا چاہتا ہے) تو تماشا دیکھنے والے شور مچا کر اسے روکتے ہیں۔ ایک شخص آگے بڑھ کر کہتا ہے:)
ایک عرب: ٹھہرو عقبہ ہمیں ایک سوال تو پوچھ لینے دو۔
عقبہ: ٹھیک ہے پوچھو جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو۔
وہی شخص: اے خبیب بتا۔ کیا تو یہ پسند کرے گا کہ تو امن اور آرام کے ساتھ اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ ہو اور تیری جگہ یہاں محمدؐ ہو؟
خبیبؓ: (ایک عزم سے) خدا کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میرے آقا کے پاؤں مبارک میں کانٹا چبھ جائے اور میں آرام سے رہوں۔
سب: اگر تو اب بھی اسلام سے پھر جائے تو ہم تجھے قتل نہیں کریں گے۔
خبیبؓ: اے باطل کے پرستارو، اللہ کی لعنت ہو تم پر (دعا کرتے ہیں) اے اللہ ان سب کو گن رکھ اور ایک ایک کو چن چن کر قتل کرنا ان میں سے کوئی باقی نہ بچے۔
عقبہ: سنا تم نے۔ یہ ہمیں بد دعائیں دے رہا ہے۔ خدا کی قسم! میں اسے اکیلا قتل نہیں کروں۔ سب لوگ مل کر ایک ساتھ اسکے جسم میں اپنے نیزے اور خنجر گھونپ دو!
سب : ٹھیک ہے ہمیں اپنے نیزے آزمانے دو۔
خبیبؓ: (آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے) اے اللہ! کوئی نہیں ہے یہاں جو آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک میرا سلام پہنچائے۔ پس اے رب کریم اپنے حبیبؐ تک خود ہی میرا سلام پہنچا دے۔
(نیزے حرکت کرتے ہیں اور جناب خبیبؓ کے جسم کے آرپار ہو جاتے ہیں، عامرؓ اور ان کی والدہ حضرت جلیلہؓ کی چیخیں بلند ہوتی ہیں اور وہ آنسو بھری آنکھوں سے حضرت خبیبؓ بن عدی کا آخری دیدار کررہے ہیں۔ ہجوم کی آوازوں کے درمیان حضرت خبیبؓ بن عدی کی آواز سنائی دیتی ہے۔)
اے میرے اللہ اے میرے رب، اپنے حبیب تک میرا سلام پہنچا دے۔