جن معاشروں میں قومی تاریخ کی غلطیاں درست کرنے کا رواج نہ ہو اور جہاں قومی سطح کے لیڈروں پر اعتراض کرناجرم ہوایسے معاشرے اور ایسی قومیں اپنی آنے والی نسلوں کو ان کے ماضی سے بے بہرہ رکھنے کی مجرم ہُوا کرتی ہیں اور جن قوموں کی نئی نسلیں اپنے گمشدہ ماضی کو تلاش نہ کر پائیں ان کا مستقبل کبھی تابناک نہیں ہوا کرتا۔
جن سماجوں کی بنیاد طبقاتی نظام پر رکھی گئی ہو ایسے سماج میں مراعات یافتہ طبقہ اپنے مذموم مقاصد کی خاطر تاریخی حقائق کو ہمیشہ توڑ موڑ کر پیش کیا کرتا ہے اور جب کبھی کوئی شخص حقیقت بیان کرنے کی کوشش کرے تو اس پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیاجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی روش ہے جس سے معاشرے کے چند مراعات یافتہ افراد فائدہ تو ضرور حاصل کرلیتے ہیں لیکن قوم کی اکثریت ایسی ازلی تباہی سے دوچار ہوا کرتی ہے جس کا علاج صدیوں میں نہیں ہوسکتا۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے دانشوروں نے نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی جو تاریخ مرتب کی تھی اور جسے آج تک ہمارا میڈیا نشر کرتا چلا آرہا ہے اور نصابی کتابوں کے ذریعے ہم اپنی نئی نسلوں کو پڑھاتے چلے آرہے ہیں،اس کے مطابق نظریہ پاکستان علامہ اقبال نے پیش کیا تھا اس لیے انہیں مفکر پاکستان قرار دیاگیا۔کیا واقعی ایسا ہے؟ اسی حوالے سے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور‘ نظریہ پاکستان’ ایک صحافی نے پیش کیا تھا جن کا نام مرتضیٰ احمد خان میکش تھا۔ یہ اپنے دور کے نامور صحافی اور روزنامہ احسان کے چیف ایڈیٹر تھے ۔ انہوں نے ۱۹۲۸ء میں روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹوریل صفحہ پر تین اقساط میں ایک مضمون تحریر کیا تھا اور ان کا یہ ہی مضمون دراصل پہلا نظریہ پاکستان تھا۔ ایک نامور ہندو صحافی جو روزنامہ پرتاپ کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے مرتضیٰ احمد خان میکش کے اس نظریہ کی سخت مخالفت کی تھی ۔ یہ دونوں اخبارات آج بھی برٹش لائبریری لندن میں محفوظ ہیں۔ جہاں تک علامہ اقبال کا تعلق ہے وہ شاعر مشرق ضرور ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی انقلابی شاعری کے ذریعے سے سوئی ہوئی قوم کو جگایاتھا انہوں نے اپنے اشعار میں قوم کو اس کے ماضی کاعکس دکھا کر انہیں یہ احساس دلایا کہ ان کی دنیا میں اہمیت کیا ہے ۔ان کی یہ خدمات بہت زیادہ قابل قدر ہیں لیکن الگ وطن کا تصوربہر حال ان کا نہیں ہے ۔ اس کا ثبوت ایک خط سے بھی ملا ہے جو انہوں نے چار مارچ ۱۹۳۴ء کو ڈی جے تھامسن کے نام تحریر کیا تھا۔ یہ خط زاہد چودھری کی کتاب‘‘پاکستان کی سیاسی تاریخ’’ کی پانچویں جلد مسلم پنجا ب کا سیاسی ارتقا میں شائع ہوا تھا۔ حسن جعفرزیدی کی مرتبہ یہ کتاب ادارہ مطالعہ تاریخ نے چیمبرز ٹمپل روڈ لاہور نے چھاپی تھی۔ علامہ اقبال کے اس خط کا اردو متن مع مذکورہ کتاب کے مصنف کی تحریر کے مندرجہ ذیل ہے۔ملاحظہ فرمائیے: اقبال بنام تھامسن۔ پاکستان سکیم سے اقبال کا اظہارِ لاتعلقی۔
جب دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہ دیا تھا تو ان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس خطبہ کے اندر سے ایک آزادوخودمختار مملکت پاکستان کا تصور نکال لیا جائے گا۔ برصغیر کے شمال مغرب میں پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی آزاد مملکت کا مطالبہ کیمبرج یونیورسٹی میں مسلم طلبہ کی ایک جماعت نے چودھری رحمت علی کی سرکردگی میں کِیا۔ جب لندن میں گول میز کانفرنسیں منعقد ہورہی تھیں۔ یہ ۱۹۳۰ء’۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء کا زمانہ تھا۔ کیمبرج کے مسلم طلبہ کے اس گروپ نے گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کیا۔ ان مندوبین میں علامہ اقبال بھی شامل تھے کچھ عرصہ بعد بعض حلقوں نے علامہ اقبال کے ۱۹۳۰ء کے خطبہ الہ آباد کو بھی چودھری رحمت علی کی پاکستان سکیم کے ساتھ منسوب کرنا شروع کر دیا۔ اس کا علامہ اقبال نے نوٹس لیااور تردید کی چنانچہ اس سلسلے میں چار مارچ ۱۹۳۴ء کو علامہ اقبال نے لاہور سے ڈی جے تھامسن کے نام ایک خط لکھا جس کے مکمل متن کا اردو ترجمہ یہ ہے: مائی ڈئیر مسٹر تھامسن!
مجھے اپنی کتاب پر آپ کا ریویو ابھی ابھی موصول ہوا ہے ۔ یہ بہت عمدہ ہے اور میں ان باتوں کے لیے آپ کا بہت ممنون ہوں جو آپ نے اس میں میرے متعلق بیان کی ہیں لیکن آپ نے ایک غلطی کی جس کی میں فوراً نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس اسکیم کا حامی ہوں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی جو شمال مغربی ہندستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہوگا پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیاگیا ہے۔جو ایک علیحدہ ڈومینن کی حیثیت سے انگلستان کے ساتھ براہِ راست تعلق رکھے گی اس اسکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے اس اسکیم کے مصنفین کا خیال ہے کہ ہم جو گول میز کانفرنس کے مندوبین ہیں ہم نے مسلم قوم کو ہندؤوں یا نام نہاد انڈین نیشنلزم کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
خیر اندیش محمد اقبال
اب اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ علامہ اقبال نظریہ پاکستان کے خالق نہیں۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر نظریہ پاکستان کے خالق مرتضیٰ احمد خان میکش کے نام کو دبا کر علامہ اقبال کو اوپر لایا گیا۔ در اصل مرتضیٰ احمد خان میکش نظام جاگیرداری اور سرمایہ داری کے سخت مخالف تھے۔ وہ چونکہ قیام پاکستان کے وقت زندہ تھے اگران کو یہ مقام دیا جاتا تو وہ قائداعظم کے کھوٹے سکوں کو حکمرانی کا حق نہ دیتے جو قائد اعظم کی وفات کے بعد برسراقتدار آگئے تھے۔ ان کھوٹے سکوں نے مرتضیٰ احمد خان میکش کو اس حد تک بد حال کیا کہ جب ۱۹۵۹ء میں ان کا انتقال ہوا تو ان کا بینک بیلنس تین روپے تین آنے تھا۔ ان کی زندگی ہی میں نظریہ پاکستان کی تاریخ کو تبدیل کیاگیااور ان کی آواز کو دبانے کے لیے ان کا اخباربھی ان سے چھین لیا گیا اور ان کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے سرفراز احمد جبریلی کو سرکاری ملازمت سے ڈس مس کر دیا گیا۔ اور اس طرح اس غریب صحافی کی قومی خدمات کو آنے والی نسلوں سے اوجھل کر دیا گیا۔ صرف میاں محمد نواز شریف نے ان کے بیٹے کو تحریک پاکستان کا گولڈ میڈل دیا تھا جو ان کے والد کی خدمات کا صلہ تھا۔ (بشکریہ ، روزنامہ صداقت ، ۱۸مئی ۱۹۹۶)