۱۱، جون کو ایک قومی اردو اخبار میں بغداد کے حوالے سے ایک خبر کی شہ سرخی تھی: ‘‘عراق:۵ امریکی فوجیوں سمیت ۱۵ ہلاک’’ اور ذیلی سرخی میں بتایا گیا تھا کہ مقدونیہ میں امریکی فوجیوں کی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی۔’’یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ عراق میں مقدونیہ کہاں آ پھنسا۔ مقدونیہ تو بلقان (جنوب مشرقی یورپ) میں ہے جہاں سکندر اعظم پیدا ہوا تھا۔ مقدونیہ صدیوں عثمانی سلطنت میں شامل رہا، پھر پہلی جنگ عظیم کے بعد اسے یوگوسلاویہ میں شامل کر دیا گیا اور ۱۹۹۱ء میں یوگوسلاویہ کی شکست و ریخت کے بعد آج (شمالی) مقدونیہ ایک آزاد ملک ہے جبکہ جنوبی مقدونیہ، یونان (Greece)میں شامل ہے۔ پھر یہ مقدونیہ کون سا تھا جہاں پانچ بد بخت امریکی مارے گئے؟ خبر کی تفصیل میں بھی ‘‘مقدونیہ’’ ہی لکھا تھا۔ ذرا غور کیا تو بات سمجھ میں آ گئی کہ غیر ذمہ دار مترجم نے جلدی میں انگریزی سے ترجمہ کرتے وقت ‘‘مقدادیہ’’ کو مقدونیہ بنا دیا جس کے حوالے سے وقتاً فوقتاً بش کی جنگ عراق کی کوئی خبرآجاتی ہے۔ پھر انگریزی اخبار کی خبر سے بھی تصدیق ہو گئی۔ ظاہر ہے ‘‘مقدادیہ’’ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔
مقدونیہ سے یاد آیا کہ جب ۱۹۹۱ء میں اس نے یوگوسلاویہ سے علیحدگی اختیار کی اور اس عشرے کے اواخر میں مقدونیہ کے البانوی نژاد مسلمانوں نے آزادی کی تحریک چلائی تو ہمارے بعض اردو اخبارات مقدونیہ کے انگریزی تلفظ کی پیروی میں اسے میسی ڈونیا(Macedonia)لکھتے رہے۔ غنیمت ہے اب وہ اس ملک کا عربی اور اردو تلفظ جاننے لگے ہیں۔ یا درہے ایک ڈیڑھ سال پہلے مقدونیہ کی پولیس نے پانچ چھ پاکستانی اس وقت گولی مار کر شہید کر دیے جب وہ مغربی یورپ جا رہے تھے۔
ایسے ہی کچھ اور جغرافیائی ناموں کی اصلیت پیش خدمت ہے:
اندلس مرحوم یا اسپین (ہسپانوی تلفظ کے مطابق ایسپانا) کے شہر قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ، برشلونہ، سرقسطہ، طلیطلہ اور بلنسیہ وغیرہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے خاص کشش رکھتے ہیں مگر آج ان کے نام عالمی خبروں میں آتے ہیں تو پہچانے نہیں جاتے۔ ۲۹ جون ۲۰۰۵ء کے نوائے وقت میں ایک خبر چھپی کہ ‘‘سپین کے شہر سیویل میں ایک مسجد تعمیر کرنے کی اجازت مل گئی جو یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہو گی۔’’ یہ ‘‘سیویل’’ دراصل اشبیلیہ ہے جسے ہسپانوی زبان میں Sevillaاور انگریزی میں Sevilleکہتے ہیں۔ اسی طرح قرطبہ کو Cordoba(ہسپانوی) یاCordova (انگریزی) اور غرناطہ کو گریناڈا(Granada) کہا جاتا ہے۔
غرناطہ کے ‘‘سیب’’: عربوں نے شرق اوسط سے پودے لے جا کر اندلس بالخصوص غرناطہ میں اناروں کے باغ لگائے تھے۔ انار کا پھل اہل یورپ کے لیے ایک سوغات تھا۔ جب غرناطہ کے انار فرانس پہنچے تو فرانسیسی انھیں Pomegranteیعنی ‘‘غرناطہ کے سیب’’ کہہ کر پکارنے لگے کیونکہ وہ حجم اور شکل میں سرخ سیب سے مشابہ تھے جبکہ فرانسیسی میں سیب کو Pomeکہا جاتا ہے۔ یہی ‘‘پومی گرینیٹ’’ انار کے لیے انگریزی میں مستعمل ہے۔
قرطبہ یا کارڈوبا: چونکہ جنوبی و مغربی ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA)سے لے کر براعظم جنوبی امریکہ کے انتہائی جنوبی سرے تک بیشتر علاقوں پر صدیوں سپین کی عملداری رہی، اس لیے ہسپانوی شہروں کے ہم نام شہر پورے لاطینی امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ کارڈوبا، ارجنٹیناکا بہت بڑا شہر ہے۔ علاوہ ازیں ارجنٹینا کے ایک پہاڑی سلسلے کا نام کوہستان کارڈوبا ہے۔‘‘کارڈوبا’’ نام کے شہر میکسیکو اور کولمبیا میں بھی واقع ہیں۔ امریکی ریاستوں الاسکا اور الاباما میں کارڈووا نامی شہر موجود ہیں۔ سپین کے صوبہ ‘‘قرطبہ’’ میں کارڈوبا کے نام سے دو قصبے بھی آباد ہیں۔ جنوبی برازیل کا ایک شہر تو قرطبہ (Curitiba)ہی کہلاتا ہے۔
غرناطہ کا ہم نام گریناڈا جزائر غرب الہند (West Indies)کا مشہور جزیرہ ہے جو ایک آزاد ملک ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں امریکی صدر ریگن کی حکومت نے اپنی فوجیں گریناڈا (Grenada) میں اتار دی تھیں تاکہ وہاں ابھرتے کمونسٹ انقلاب کا سد ِباب کیا جا سکے کیونکہ امریکہ بحیرہ کریبین کے خطے میں کیوبا کے بعد کسی اور ملک میں کمونسٹ نظام برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی نہیں ‘‘گریناڈا’’(Granada)نام کے شہر کولمبیا، نکاراگوا، ریاست کولوریڈو (امریکہ) اور ریاست مسسپی (امریکہ) میں بھی آباد ہیں۔ جنوب مغربی بحر اوقیانوس میں ایک زیر آب علاقہ ‘‘گریناڈا طاس’’ کہلاتا ہے اور مسسپی میں ایک جھیل کا نام ‘‘گریناڈا لیک’’ ہے۔
اشبیلیہ یا سیولا: پانچویں صدی ہجری کے اندلسی حکمران معتمد ابن عباد کا شہر اشبیلیہ طارق بن زیاد کی فاتحانہ سپین آمد سے پہلے ہسپالس(Hispalis)کہلاتا تھا جسے عربوں نے اشبیلیہ کا نام دیا اور یہی مسلمانوں کا پہلا دارالحکومت قرار پایا۔ بعد میں قرطبہ کو یہ مقام حاصل ہو گیا۔ وسطی امریکہ کے ملک پانامہ کے ایک جزیرے کا نام بھی سیولا ہے اور وسطی افریقہ کے ملک استوائی گنی کا ایک شہر سیولا ڈی نائیفانگ ہے۔ یاد رہے ۱۹۶۸ء میں آزادی پانے سے پہلے استوائی گنی بھی ہسپانوی نو آبادی تھا۔
وادی الکبیر: اشبیلیہ اور قرطبہ دونوں ‘‘وادی الکبیر’’ (Guadalqivir)کے کنارے واقع ہیں۔ چونکہ یہ جنوبی سپین کا بڑا دریا تھا، اس لیے عرب مسلمانوں نے اسے وادی الکبیر(بڑا دریا) کا نام دیا۔ علامہ اقبال نے اپنی لافانی نظم ‘‘مسجد قرطبہ’’ میں اس دریا کو مخاطب کرکے کہا
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عربی زبان میں ‘‘واد’’ یا ‘‘وادی’’ دریا کو بھی کہتے ہیں اور دریائی وادی کو بھی، جس کاہسپانوی تلفظGuad(گواڈ) ہے۔ چنانچہ اندلس کا ایک شہر وادی الحجارہ کہلاتا تھا جو ایک دریا کے کنارے واقع ہے اور ہسپانوی میں اسے گواڈ الاجارہ (Guadalajara) کہتے ہیں اس نام کا ایک شہر میکسیکو میں بھی ہے۔ ‘‘گواڈ’’ یعنی ‘‘واد’’ آج بھی سپین کے بیشتر دریاؤں کے ناموں کا جزو ہے۔
بعض اور اندلسی شہروں یا دریاؤں کے عربی اور ہسپانوی نام اس طرح ہیں:
عربی ہسپانوی
طلیطلہ Toledo (ٹولیڈو)
بلنسیہ Valencia (ویلنسیا) ویلنسیا ایک مشہور نارنگی کی قسم ہے اور لاہور کی ایک بستی کا نام بھی ویلنسیا ہے۔
مجریطہ Madrid (میڈرڈ)
برشلونہ Barcelona (بارسیلونا)
سرقسطہ Zaragoza (زاراگوزا)
وادی آنہ Guadiana (گواڈیانا)
القلعہ Alcala (الکلا)
الجزیرہ Algeciras (الجسیراس)
وادی سلیط Guadalete (گواڈا لیٹ)
وادئ سلیط یا وادئ برباط جنوب مغربی سپین کا وہ دریا ہے جس کے کنارے ۷۱۱ء میں طارق بن زیاد اور مسیحی بادشاہ راڈرک کی فوجوں میں جنگ ہوئی تھی۔
طلیطلہ یا ٹولیڈو:
یہ شہر مسلمانوں کے ہاتھوں سپین کی فتح سے پہلے دارالحکومت تھا اور Toletumکہلاتا تھا، چنانچہ عرب اسے طلیطلہ کہنے لگے۔ اس کے ہم نام شہر Toledoجنوبی برازیل ، کولمبیا، فلپائن کے جزیرہ سیبو اور امریکی ریاستوں الی نائے، آئیووا، اوہائیو، اوریگن اور واشنگٹن میں آباد ہیں۔ بیلائز (سابق برطانوی ہونڈوراس) کے ایک ضلع کا نام ٹولیڈو ہے۔ سپین کے ایک پہاڑ کا نام بھی ٹولیڈو ہے اور امریکی ریاستوں لوئیسیانا اور ٹیکساس کی سرحد پر ایک ذخیرۂ آب ‘‘ٹولیڈو بینڈ ریزروائر’’ کہلاتا ہے۔
برشلونہ یا بارسیلونا:
بارسیلونا(Barcelona)ہمارے ہاں ۱۹۹۲ء کے اولمپک کھیلوں کے باعث زیادہ مشہور ہوا۔ یہ بحیرۂ روم کے ساحل پر ہسپانوی بندرگاہ ہے اور صوبہ قطلونیہ(Cataluna)کا دارالحکومت ہے۔ بارسیلونا براعظم جنوبی امریکہ کے تیل برآمد کرنے والے ملک وینزویلا کا ایک شہر بھی ہے۔ ہجے کے فرق سے بارسیلوّنا(Barcellona)اٹلی کے جزیرہ سسلی کا ایک شہر ہے۔ دنیا میں ہسپانوی ناموں کے شہروں کی کثرت اس وجہ سے ہے کہ سقوطِ غرناطہ اور کولمبس کے ذریعے براعظم امریکہ کی دریافت کے بعد اہل سپین نے جہاں جہاں نو آبادیاں قائم کیں وہاں اپنے وطن کے شہروں کے نام پر نئے شہر بساتے چلے گئے۔
دریائے تاجہ یا ٹیگس (Tagus):
یہ وسطی سپین کا مشہور دریا ہے جو پرتگال میں سے گزر کر بحر اوقیانوس میں جا گرتا ہے۔ سپین میں اسے Rio Tago اور پرتگال میں Rio Tego کہا جاتا ہے (Rioکے معنی دریا ہیں) عربوں نے اسے ‘‘تاجہ’’ کا نام دیا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے ‘‘مسدس مدوجزرِ اسلام’’ میں اسلامی فتوحات و علوم کی گھٹا کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
جو ٹیگس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی
طلیطلہ شہر دریائے تاجہ ہی پر واقع ہے۔ اس دریا کے کنارے القنطرہ(Alcantara)نامی شہر آج بھی آباد ہے (عربی میں قنطرہ پل کو کہتے ہیں)
اندلس اور ہسپانیہ (سپین):
جنوب مغربی یورپ کا یہ ملک عربوں کے ہاتھوں فتح ہونے سے پہلے Hispanaکہلاتا تھا جس کی وجہ سے اردو میں اسے ہسپانیہ بھی کہتے ہیں، تاہم ان دنوں اسے ہسپانوی(Spanish)زبان میں Espanaاور انگریزی میں Spainکہا جاتا ہے لیکن جب عرب مسلمان اس ملک میں داخل ہوئے تو انھوں نے اسے جنوبی علاقے اندلوسیہ کی رعایت سے اَندلُس کا نام دیا تھا۔ آج بھی ویسٹ انڈیز میں کولمبس کا دریافت کردہ ایک بڑا جزیرہ ہسپانیولا(Hispaniola) کہلاتا ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہسپانوی بولنے والے لوگ Hispanicکہلاتے ہیں۔ ان دنوں سپین کا جنوبی صوبہ اندلوسیہ کہلاتا ہے۔
امیریگو اور امریکہ:
نئی دنیا یا براعظم امریکہ کی دریافت اطالوی نژاد کرسٹافر کولمبس سے منسوب ہے مگر اس براعظم کا نام ایک اور اطالوی نژاد جہاز ران امیریگو ویسپیوسی کے نام پر رکھا گیا جسے ۱۴۹۷ء میں شاہ سپین نے بھیجا تھا۔ امیریگو نے براعظم جنوبی امریکہ کے شمالی اور مشرقی ساحل کھنگالے۔ اسی نے سب سے پہلے یہ واضح کیا کہ نودریافت زمین ایشیا سے الگ ایک براعظم ہے جبکہ کولمبس ۱۵۰۶ء میں مرتے دم تک یہی سمجھتا رہا کہ اس نے ہندوستان (اور ایشیا) کا ساحل دریافت کیا ہے، اسی لیے اس نے نو دریافت جزائر کا نام جزائر غرب الہند (West Indies)رکھ دیا تھا اور نئی دنیا کے قدیم باشندوں کے سرخی مائل رنگ کے باعث انھیں ‘‘ریڈ انڈین’’ کا نام دیا تھا جنھیں اب بھی غلط طور پر ‘‘انڈین’’ کہا جاتا ہے۔(یاد رہے براعظم امریکہ دو حصوں براعظم شمالی امریکہ اور براعظم جنوبی امریکہ میں منقسم ہے جو پہلے خشکی کے ذریعے ملے ہوئے تھے مگر ۱۴۔۱۹۰۳ء میں نہر پانامہ کی کھدائی سے الگ الگ ہوگئے۔ جہاز رانی کے لیے کھودی گئی اس نہر نے بحیرۂ کریبین اور بحر الکاہل کے پانیوں کو باہم ملا دیا۔
کارتھیج اور قرطاجنہ:
کارتھیج(Carthage)کے کھنڈر تیونس شہر کے شمال مغرب میں ہیں۔ یہ تیسری دوسری صدی ق م میں ایک عظیم سلطنت کا دارالحکومت تھا جو سپین تک پھیلی ہوئی تھی۔ کارتھیج کے جرنیل ہنی بال نے ۱۔۲۱۸ ق م میں دوسری پیونک جنگ میں ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ جنوبی فرانس کے راستے روم پر چڑھائی کی تھی۔ کارتھیج والوں نے سپین میں بھی اس نام کا ایک شہر (بندرگاہ) بسایا جسے عرب قرطاجنہ (Cartagena) کہتے تھے۔ عرب مورخوں نے کارتھیج کو بھی قرطاجنہ لکھا ہے۔ امریکہ کی ریاستوں الی نائے، مسسپی، مزوری، نیویارک، نارتھ کیرولینا، ٹینیسی اور ٹیکساس میں کارتھیج نام کے شہر آباد ہیں۔ تیونس (دارالحکومت) کے ہوائی اڈے کا نام بھی کارتھیج ہے۔
سپین کا قرطاجنہ (Cartagena)رومی دور میں Carthago Nova(نیا کارتھیج) کہلاتا تھا۔ اس کے نام پر ہسپانویوں نے کولمبیا (جنوبی امریکہ) میں بھی ایک شہر بسایا۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو (۹۵۔۱۹۹۳ء) غیر وابستہ ملکوں کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے کولمبیا کے شہر Cartagenaگئی تھیں جس کا مقامی تلفظ اب ‘‘کارتاہینا’’ ہے۔Carthagoکی نسبت سے کولمبیا اور کوسٹاریکا کے دو شہرCartagoکہلاتے ہیں۔
اوقیانوس اور اوشن:
یونانی بڑے سمندر (بحر) کو اوشیانوس یا اوکیانوس(Oceanos)کہتے تھے (جسے عربی میں اوقیانوس کہا جانے لگا) یونانیوں نے موجودہ بحر ‘‘اوقیانوس’’ کو یہ نام دیا تھا کیونکہ اس وقت اہل یورپ اس سے بڑے سمندر ‘‘بحر الکاہل’’ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ اوشیانوس کی نسبت سے ‘‘بحر’’ کو انگریزی میں اوشن(Ocean)کہا جاتا ہے جبکہ بحر اوقیانوس کا نام انگریزی میں اب اٹلانٹک ہے۔ عرب دنیا کے اس دوسرے بڑے سمندر کو بحرِ ظلمات (تاریکی کا سمندر) بھی کہتے تھے کیونکہ اس کے پار نئی دنیا (براعظم امریکہ) کے بارے میں کسی کو کچھ پتا نہ تھا۔ بحر ظلمات کا ذکر علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ‘‘شکوہ’’ میں بھی کیا ہے کہتے ہیں
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
جہاں تک بحر الکاہل (Pacific Ocean)کا تعلق ہے اسے Pacific(دھیمایا کاہل) اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں بحر اوقیانوس اور بحر ہند جتنے شدید طوفان نہیں اٹھتے۔ ویسے رقبے (ساڑھے ۶ کروڑ مربع میل) میں بحر الکاہل کرۂ ارض کی تمام خشکی کے تقریباً برابر ہے۔
صقلیہ یا سسلی:
یہ بحیرۂ روم کا سب سے بڑا جزیرہ ہے اور اٹلی میں شامل ہے۔ ۸۲۷ء میں قاضی اسد بن فرات نے اسے فتح کیا تھا۔ اطالوی نام Siciliaعربی میں صقلیہ کہا جانے لگا۔ گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر تک صقلیہ (انگریزی میں سسلی) مسلمانوں کے قبضے میں رہا حتیٰ کہ رومن اس پر قابض ہو گئے۔ شریف ادریسی یہیں کا باشندہ تھا۔ بارہویں صدی عیسوی میں یہیں اس نے نصف کرے یعنی پیالے کی شکل کا گلوب بنایا تھا اس کی تیار کردہ جغرافیائی اٹلس سے کولمبس نے اپنے سفرِ امریکہ سے پہلے استفادہ کیا تھا۔ صقلیہ کے اس پس منظر کے باعث ہی اقبال نے اسے ‘‘تہذیب ِحجازی’’ کا مزار قرار دیا ہے
رولے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار
مخاچ قلعہ - منی شکالا:
اخبار میں یکم جولائی کو روسی مقبوضہ جمہوریہ داغستان کے دارالحکومت میں بم دھماکہ میں ۱۰ روسی فوجی افسروں کی ہلاکت کی خبر دی گئی تھی مگر دارالحکومت کا نام ‘‘منی شکالا’’ پڑھ کر حیرت ہوئی۔ شہر کا نام دراصل مخاچ قلعہ (Makhachkala) ہے جو ترکی نام ہے مگر غیر محتاط ترجمہ نے معروف عربی لفظ ‘‘قلعہ’’ کو ‘‘کالا’’ بنا دیا اور نام مخاچ قلعہ سے بگڑ کر منی شکالا ہو گیا۔ (یاد رہے ‘‘داغستان’’ کے معنی ترکی زبان میں ‘‘کوہستان’’ہیں کیونکہ ‘‘داغ’’ کا مطلب پہاڑ ہے۔) اگلے روز کے اخبار میں ‘‘مخاچ کالا’’ لکھا دیکھا۔ گویا ہمارا جانا پہچانا ‘‘قلعہ’’ ترجمے کی سان پر چڑھ کر ‘‘کالا’’ ہی رہا!