مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے چند نمایاں لیڈر پچھلے دنوں پاکستان کے دورے پر تھے ۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی لمحہ اور ایک تاریخ ساز پیش رفت تھی ۔ کشمیری عوام کی نصف صدی سے زیادہ طویل جدوجہد کے دوران میں یہ پہلا موقع ہے کہ ان کے قائدین ’ باضابطہ وفد کی شکل میں کنٹرول لائن پار کر کے کشمیر میں داخل ہوئے اور انہیں آزاد کشمیرمیں اپنے بھائیوں سے ملنے اور ان سے صلاح مشور ہ کرنے کا موقع حاصل ہوا ۔ جن جن قوتوں نے اس دورے کو ممکن بنایا ہے ہم انہیں خراج تحسین پیش کر تے ہیں اور اس وفد کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس وفد میں میر واعظ مولوی عمر فاروق ’ مولانا عباس انصار ی ’ بلال لون ’ عبدالغنی بھٹ ’ یاسین ملک ’ غلام محمد بٹ ’ فضل حق قریشی اور محمد یعقوب وکیل شامل تھے ۔ البتہ تحریک حریت کشمیر کے مسلمہ قائد اور کشمیر ی عوام کی امنگوں کے حقیقی ترجمان مرد فقیر سید علی گیلانی نہ تو خود تشریف لائے اور نہ ہی اپنا کوئی نمائندہ روانہ کیا، جس سے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے اندرونی اختلافات اور تضادات نمایا ں ہو کر دنیا کے سامنے آئے ہیں ۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیا ن سب سے زیادہ متنازعہ مسلہ کشمیر کا ہے ۔ جس کے حل کے لیے دونوں ملک تین بار جنگ بھی کر چکے ہیں ۔ اگر ان قائدین کرام کا حالیہ دورہ اس قضیے کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے تو یقینا یہ دورہ تاریخ کے رخ کو موڑنے والا ثابت ہو سکتا ہے ۔ بعض لوگوں کو اس دورے سے یہ توقع تھی کہ شاید اس قضیے کے حل میں اب دو چار دن ہی رہ گئے ہیں ۔ لیکن ہم یہ محسوس کر تے ہیں کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ پیچیدہ اور گنجلک مسلہ فوری حل ہونے جارہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نزدیک سید علی گیلانی ایسے بطل حریت کو اس سارے مسلے سے دور رکھ کر قضیہ کشمیر کا کوئی ایسا حل تلاش نہیں کیا جا سکتا جو کشمیر ی عوام کی خواہشات اور امت مسلمہ کی حقیقی امنگوں کا ترجمان ہو ۔ اس لیے ہم اپنی حکومت کے کار پر دازان سے گزارش کریں گے کہ وہ جلد از جلد ان سے رابطہ کرے اور ان کو اپنے اقدامات سے آگاہ کرے اور انہیں اعتماد میں لے ۔ جب سے انڈیا کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قائدین قدرے عجلت میں ہیں۔ وہ اس مسئلے کو ادھر یا ادھر کرنے پر تیار ہو گئے ہیں ہمیں اگرچہ اپنے قائدین کی حب الوطنی اور مسئلہ کشمیر سے وابستگی میں شک نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ انتباہ ضرور کرنا چاہیں گے کہ امریکہ اور انڈیا کے جال میں مت پھنسیں اور کشمیر کے لوگوں کی اصل قیادت کو ساتھ اور اعتماد میں لے کرچلیں۔
ہم پاکستانیوں کے لیے کشمیر ایک جذباتی موضوع ہے ۔ اس لیے موجودہ قیادت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا اور ہر مرحلے پر کشمیر اور پاکستان کے نمائندوں کو اعتماد میں لیکر چلنا ہو گا ۔ جنرل پرویز مشرف صاحب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں ان میں فرد واحد کی سوچ اور فرد واحد کے اختیار کلی کا تاثر ابھر رہاہے جو کہ اتنے نازک مسلے میں ہلاکت خیز ہے ۔ ا س لیے ہم صدر سے گزارش کریں گے کہ وہ ایک قومی فورم میں اس مسئلے کو زیر بحث لائیں ۔ ذرائع ابلاغ اور ملک و قوم کے دانشوروں کو متحرک کریں ۔ پوری قوم کو یکسو کریں اور کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر نہ کریں ۔
پچاس سالوں سے ہمارا ایک قومی موقف ہے ۔ سننے میں آرہاہے کہ ہم اس قومی موقف سے انحراف کر رہے ہیں ۔ دانشواران قوم کا ایک موثر طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ موجودہ حکومت کے اقدامات پاکستان کے اصولی موقف کی قربانی اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی پیٹھ میں چھرا گھونپناہے ۔ اور یہ کہ ہمارے حکمرانوں کے حالیہ اقدامات پاکستان کی نظریا تی اساس پر ضرب کاری لگانے اور سوا کروڑ کشمیر ی بھائیوں کو دھکے دے کر بھارت کے تسلط اور امریکہ کی گرفت میں دینے کے مترادف ہے ۔ ان کے بقول پاکستانی حکمرانوں کے کشمیر پر اپنا موقف تبدیل کر لینے سے نہ صرف کشمیر کی آزادی کا راستہ کھوٹا ہو گا بلکہ وطن عزیز کی اسلامیت اور سا لمیت بھی داؤ پر لگ جائے گی ۔ یہ تباہی کا راستہ ہے ۔( اس موقف کی تفصیلات کے لیے دیکھیے ترجمان القرآن جون اشارات از سینیٹر خورشید احمد ) ۔
ہمارے نزدیک یہ ایک انتہا پسندانہ رائے ہے جس میں جنرل صاحب سے سیاسی اختلافات کی شدت کا اظہار ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر جنرل صاحب نے اپنے سابقہ موقف میں لچک ضرور پیدا کی ہے اور مختلف فورمز پر اس حوالے سے کھلی بحث کی دعوت بھی دی ہے ۔ لیکن اس پر یہ رائے رکھناکہ کشمیر تو کشمیر خود پاکستان کی سا لمیت بھی خطرے میں پڑ چکی ہے ایک انتہا پسندانہ رائے ہے ۔ یقینا خطرات ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اصول یہ ہے کہ خطرات کا سامنا کرکے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے ۔ سب سے اہم بات اہل کشمیر کی تکالیف اور مصائب ہیں انہیں انڈیا کے غاصبانہ تسلط سے نجات دلانا ہے اور ان کی پر سکون شہر ی زندگی واپس دلانا ہے۔ اس مقصد کیلیے اگر اپنے سابقہ موقف میں کچھ لچک دکھانا پڑے تو کو ئی غلط نہیں ہے ۔ اقوام متحدہ کی جن قراردادوں کی دہائی دی جاتی ہے ان کی حقیقت کتنی ہے ہر صاحب عقل پر واضح ہے ۔ خود اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کی کتنی طاقت رکھتا ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
یقینا اہل کشمیر ہی اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیا ر رکھتے ہیں یہ صد فیصد ٹھیک ہے کہ حق خود ارادیت ان کا پیدائشی حق ہے کس نے ان کے اس حق سے انکار کیا ہے اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ اس حق خود ارادیت کو شیر کے منہ سے کس طرح نکالا جائے ۔ اسی حق خودارادیت کے حصول کیلیے ہی اب تک ساری سفارتی اور اخلاقی کارروائیاں تھیں ۔ لیکن ایک وقت آیا کہ محسوس کیا گیا کہ سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکل سکتا تو پاکستانی حکمرانوں کی اشیر باد سے جہادی سرگرمیاں شروع کی گئیں ۔ نوے کی دہائی میں جب جہادی حکمت عملی شروع کی گئی، کیا یہ اپنے دیرینہ موقف سے انحراف نہیں تھا ؟ جہادی کارروائیاں کر کے اقوام متحدہ کے کردار کو تو ہم پہلے ہی ختم کر چکے ہیں تو اب آخر کس منہ سے ہم ان قراردادوں کی رٹ لگا سکتے ہیں ؟ یہ بات اب ایک حقیقت بن چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام ہو چکی ہیں ۔ جہادی سرگرمیاں بھی بوجوہ ماندپڑ چکی ہیں تو اب اس کے علاوہ کیا راستہ رہ جاتاہے کہ انڈیا پاکستان کے درمیا ن مذاکرات کا سلسلہ کسی منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور اس آپشن سے فائد ہ اٹھایا جائے ؟
پاکستانی اور کشمیری قیادت جہادی سرگرمیوں کو معطل کر کے مذاکرات کی میز پر آنا چاہ رہی ہے تو اس میں کسی قسم کی ذلت اور ہزیمت کا پہلو نہیں ہے ۔ اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں کشمیر ی قیادت نے بالکل واضح طو رپر یہ کہاہے کہ مسلہ کشمیر کے حل کے لیے جدوجہد سیاسی ’ سفارتی اور جہادی سطح پر چلتی آ رہی ہے ۔ مختلف ادوار میں مختلف چیزیں فوقیت پاتی رہی ہیں اس وقت سیاسی سطح فوقیت حاصل کر گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاد ختم کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے واضح طور پر یہ کہا کہ آزادی کی تحریک میں سیاسی قیادت کی طاقت ہی اصل ہوتی ہے اور سیاسی ’ سفارتی اور عسکر ی کوششوں میں ہم آہنگی ہی سے مسائل ہوتے ہیں اور یہ حل مذاکرات کی میز پر ہی نکلتے ہیں۔ اس لیے ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے کہ اپنی جہادی سرگرمیوں کو کچھ دیر کے لیے معطل کر کے مذاکرات کی میز پر آرہے ہیں ۔
اس مسئلے کو بعض لوگ ایک اور پہلو سے بھی دیکھتے ہیں ۔ کیا یہ مسئلہ مذہبی مسئلہ ہے ؟ یا محض جغرافیائی قضیہ ہے ؟ یامحض ایک سیاسی جھگڑا ؟ اس پر ایک سے زیادہ آرا ممکن ہیں۔ اور عملًا ان مختلف آرا کے حامل بھی موجود ہیں ۔ میر واعظ عمر فاروق نے اپنے ایک حالیہ بیان میں مسئلہ کشمیر کو ایک جغرافیائی مسئلہ قرار دیا ہے جبکہ سید علی گیلانی اس مسئلے کو سراسر مذہبی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور اس کو تحریک پاکستا ن کا تسلسل اور دو قومی نظریے کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ یہ ایک بنیادی سوال ہے جو فریق جس نظر سے اس مسئلے کو دیکھتاہے اسی پر وہ اپنے لائحہ عمل کو طے کرتا ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ ایک جغرافیائی قضیہ تھا جو اب ایک انسانی المیے کا روپ دھا ر چکا ہے ۔ چونکہ یہ جھگڑا مسلمان اور ہندو کے درمیان تھا اس لیے یہ نا گزیر تھا کہ مذہبی رنگ اختیا رکر تا اور وہ پوری طرح یہ رنگ اختیا ر کر چکا ہے اب اسے کسی اور نظر سے دیکھنا محال ہو چکا ہے کیونکہ اس میں لاکھوں مسلم نوجوانوں کا خون شامل ہو چکا ہے جنہوں نے اسے ایک مذہبی فریضہ جان کر اپنی جان قربان کی تھی ۔
لیکن یہ با ت یاد رکھنی چاہیے کہ اہل کشمیر کی تگ و دو اپنی حقیقت کے اعتبار سے قومی تحریک آزادی ہے ۔ اس لیے اس بنیادی بات کو پیش نظررکھ کر ہی لائحہ عمل تجویز کیا جانا چاہیے ۔ اس تحریک آزادی نے جب نوے کی دہا ئی میں سیاسی عمل اور عدم تشدد کے راستے کو ترک کر کے انتہائی مجبوری کے عالم میں اور بعض موافق عوامل کے باعث تشدد کا راستہ اختیا ر کیا تو اس مسلح کارروائی کو تقدس کا رنگ دینے کے لیے جہاد کا نام دے دیا گیا ۔ ملت پاکستان کی ایک کثیر تعداد عملًا اس جہاد سے لاتعلق رہی اگرچہ وہ تحریک آزادی کے حق میں تھی لیکن یہ جدوجہد بوجوہ جاری رہی ۔ اس مسلح جدوجہد کی قیادت بعض مذہبی علما نے سنبھالی تو انہوں نے اس مسلح کارروائی کو جنگ آزادی کے بجائے جہاد برائے اعلائے کلمۃاللہ کا نام دے دیا ۔ ان نہتے مجاہدین نے بڑی ہی جرات ’ دلیر ی اور استقامت سے انڈیاکی جدید اسلحہ سے لیس منظم اور تربیت یافتہ فوج کو ناکوں چنے چبوائے ۔ ہم ان جانباز مجاہدین کو یہاں خراج تحسین پیش کیے بنا نہیں رہ سکتے لیکن ان کو یا ان کے پاکستانی سرپرستوں کو یہ بات قطعاً نہیں بھولنا چاہیے تھی کہ جہادی سرگرمی اصلا تحریک آزادی کو مہمیز لگانے کے لیے تھی اور جن قوتوں نے اسے شروع کیا تھا ان کے نزدیک یہ مسلح جدوجہد کبھی بھی اسلامی انقلاب یا اعلائے کلمۃ اللہ نہیں تھی۔ اس لیے ان قوتوں کو جب حالات نے مسلح کارروائیاں ختم کرنے پر مجبور کیا تو وہ یہ کام کرنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائے اور دیگرممکنات کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔
اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان اور ہندوستان تو فریق ہیں ہی’ لیکن اس قضیے کا اصل فریق وہ کشمیر ی عوام ہیں جن کے مقدر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے ۔ حریت کانفرنس کے جو رہنما پاکستان تشریف لائے ہیں وہ بار باریہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان مذاکرات میں کشمیریوں کو شامل کیا جائے ۔ اور یہ کہ مذاکرات سہ فریقی ہونے چاہییں ۔ اس مطالبے میں اور کشمیریوں کو مذاکرات میں شامل کرنے میں شاید کسی کو اختلاف نہ ہو لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان مجوزہ سہ فریقی مذاکرات میں کشمیری عوام کی نمائندگی کون کرے ؟ کیا آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی حکومتیں ؟ کیا آل پارٹیز حریت کانفرنس کے قائدین ؟ لیکن APHC کاکون سا دھڑا ؟ کیا علی گیلانی تن تنہا یا میر واعظ بھی ؟ کیا جہادی قائدین ؟ وہ بھی دھڑوں میں منقسم ہیں وغیرہ وغیرہ ۔یہ بہت ہی افسوس ناک پہلو ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کا کوئی ایک متفقہ قائد نہیں ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اتنی بے پناہ قربانیوں کے باوجود آزادی کی شمع روشن نہیں ہو پارہی ۔ اس لیے ہم کشمیر ی قیادت سے یہ گزارش کریں گے کہ اپنی انا او راپنی ذات کی قربانی دے کر (بڑی مشکل قربانی ہے انا کی قربانی ) جتنی جلدی ممکن ہو اپنی صفوں کے اندر اتحاد پیدا کریں اور کوئی مشتر ک قیادت سامنے لائیں ۔ اگر یہ قائدین ایسا نہیں کر سکتے تو پھر یہ انڈیا اور پاکستانی حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ کشمیری عوام کی نمائندگی کے لیے ان کی قیادت کے انتخاب کا کوئی مناسب طریقہ کار وضع کریں ۔
تاریخ نازک موڑ پر آ گئی ہے کشمیری عوام اپنی آزادی کے لیے بے پناہ قربانیا ں دے چکے ہیں ۔ ایک لاکھ افراد جان کا نذرانہ پیش کر چکے اور اپنی ہزاروں بیٹیوں کی عصمتوں کو آزادی کی دیوی پر قربان کر چکے ۔ ان کی بستیوں کی بستیا ں جلا ڈالی گئیں اور ان کے کاروبار تباہ کر دیے گئے۔ وہاں کی ایک پوری نسل ان حالات میں پروان چڑھی ہے کہ جس نے عام سول زندگی کا تجربہ حاصل ہی نہیں کیا ۔ یہ بات اب امر واقعہ ہو چکی ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام اب مزید بھارت کی حکمرانی او رتسلط قبول کرنے پر کسی طور راضی نہیں ہیں اور وہ دلی کی حکومت سے مکمل طور پر لا تعلق ہیں ۔ ان حالات میں پاکستان ’ کشمیر اور انڈین رہنماؤں کے کندھوں پر ایک بھاری بوجھ آن پڑا ہے۔ اگر یہ تینوں فریق بالغ نظری ’ حقیقت پسندی اور اخلاص کا مظاہر ہ کرسکیں تو پھر یہ گنجلک مسئلہ شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ۔ بہر حال اب تک کے کھیل میں ’ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اور یہ کہ پاکستان جو لچک دکھا رہاہے اس کا انجام کیا ہو گا ۔ بہترین ممکن حل کی کوشش کرتے رہنا بہر حال ضروری ہے اور اللہ تعالی سے دعا بھی ۔لیکن اس مرحلے پر انتہائی ضروری امر یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے لیڈر بالغ نظر ی سے کام لیں اور قوم کو جذباتیت سے نکالنے کی جدوجہد کریں تا کہ ممکنہ حل کی راہیں آسان ہو سکیں۔