ایک مثالی بیوی کی سچی داستان
ایک دن اطلاع ملی کہ حاجی حمید الدین صاحب کی بیوی وفات پاگئی ہیں۔مرحومہ ہماری بھابی کی چچی تھیں۔
جنت بی بی کے انتقال پر تعزیت کے لئے میں حاجی صاحب کے ہاں گیا۔ان کے ہاں اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔جنت بی بی نے اپنے دیورکا بیٹا لے کر پالا تھااور اب وہ نوجوان آرمی آفیسر بن چکا تھا۔جس حسن و خوبی سے اس بچے کی تعلیم و تربیت مرحومہ نے انجام دی تھی، ا س کا چرچا تعزیت پر آئے ہوئے ہر شخص کی زبان پر تھا۔
ہمارے ہاں ایک نہایت خوب صورت روایت پائی جاتی ہے کہ بعد از انتقال مرنے والے کی خوبیاں اور اچھائیاں خوب بیان ہوتی ہیں۔جب بھی کسی میت کے موقع پر حاضر ہونے کا اتفاق ہوتا ہے،ہر آدمی جانے والے کی کوئی نہ کوئی خوبی ہی بیان کر رہا ہوتا ہے۔سچی بات ہے کہ اس سے میرا جی باغ باغ ہوتا ہے۔کیونکہ سرور دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا،مرنے والے کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرو۔بعض اوقات تو ہمیں معلوم بھی ہوتا ہے کہ مرنے والے میں ہزاروں عیوب تھے لیکن کم از کم تعزیت کے موقع پر تو ذکر خیر ہی ہوتا ہے۔لیکن یہ مرحومہ تومجسمہ کمال تھیں۔ زندگی میں بھی اس کی خوب تعریف کی گئی تھی اور مرنے کے بعد بھی اس کی اچھائیوں کا قابل رشک تذکرہ ہو رہا تھا۔مرحومہ کا ایک بھتیجا بتا رہا تھا کہ اس بستی کی کوئی بچی یا بچہ ایسا نہیں ہے کہ جس نے ماں جی سے کچھ نہ پڑھا ہو۔روزانہ صبح کے وقت بچیوں کو قرآن پڑھاتی تھیں اور شام کو دسویں تک کی بچیوں کو سکول کی تعلیم دیتی تھیں۔ایک ایک وقت میں بعض اوقات ۵۰،۵۰ بچیاں بھی زیرتعلیم رہتی تھیں۔اور یہ سب کچھ فی سبیل اللہ ہوتا تھا۔
پورے گاؤں میں سوگواری کی فضا طاری تھی۔ چھوٹے سے گاؤں میں اتنا بڑا جنازہ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل شکستہ تھا۔سب سے زیادہ خستہ حالت حاجی حمید الدین صاحب کی تھی۔حاجی صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھے۔۷۰ سال کی عمر ہوگی۔نحیف و نزار جسم لیکن مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔لیکن شریک حیات کی موت نے ان کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیا تھا۔ہر آدمی اماں جنت کے گن گا رہا تھا،لیکن جس انداز سے حاجی صاحب مرحومہ کی تعریف کر رہے تھے،حقیقت یہ ہے کہ میرے لئے یہ حیران کن بات تھی۔بیوی کے لئے شریک حیات کے لفظ کا حقیقی مفہوم مجھے اس دن معلوم ہوا۔اور یہ کہ کوئی عورت اس حد تک بھی اپنے خاوند کو چاہ سکتی ہے اور کوئی خاوند اپنی بیوی کی اتنی تعریفیں بھی کر سکتا ہے میرے علم میں نہ تھا ۔
‘‘ ڈاکٹر صاحب’’ حاجی صاحب مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے،‘‘آج میرا پچاس سال کا ساتھی موت نے جدا کر دیا،ہمارا نصف صدی کا ساتھ ایک پل میں ختم ہو گیا۔وہ کہتی تھی کہ میں تیرے ہاتھوں دفن ہونا چاہتی ہوں،بس یہی ایک تمنا رہ گئی ہے۔آہ !میری دوست !آج تیری یہ تمنا بھی بر آئی۔۵۰ سال بعد، یہ پہلی رات تھی کہ وہ مجھ سے دور جا سوئی۔۔۔۔۔۔اتنا اچھا سنگی مقدر والوں کو ملتا ہے اور میں اس معاملے میں مقدر کا سکندر تھا،آہ،آج مجھ سے زیادہ بد بخت کوئی نہیں،کہ میرا مقدر ہی مجھ سے روٹھ گیا۔’’اور واقعی وہ مقدر کا سکندر تھا۔کیونکہ سید عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے،وہ عورت سب سے بہتر عورت ہے جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے۔اور شوہر جب اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے۔اور اپنی ذات اور شوہر کے مال میں کوئی ایسی بات نہ کرے جو شوہر کی مرضی کے خلاف ہو ۔ایک اور موقع پر،نبی ﷺ نے فرمایا کہ‘‘ اس بندے کو دین دنیا کی ساری بھلائیاں مل گئیں جس کو وہ عورت مِل گئی جو اپنی ذات اور شوہر کے مال میں خیانت کرنے والی نہ ہو’’۔اور دنیا یہ گواہی دے رہی تھی کہ جنت بی بی،واقعی ایسی ہی تھی۔
جنت بی بی کی حاجی صاحب سے پہلے سے کوئی رشتہ داری نہ تھی۔حاجی صاحب بی اے بی ایڈ کرنے کے بعد جہلم شہر کے گورنمنٹ ہائی سکول میں بطور ٹیچر تعینات ہوئے تھے۔جنت بی بی اسی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کی بیٹی تھی۔ایف اے میں پڑھتی تھی۔ اس کے والد مولوی لال دین نے اس نوجوان کے عادات و اطوار ملاحظہ کئے تو اسے شرفِ دامادی بخشنے کا فیصلہ کر لیا۔اور یوں وہ بیگم حمید الدین بن کر اس چھوٹے سے گاؤ ں میں آگئی۔شروع شروع میں توحمیدالدین کے خاندان نے اس رشتے پر ناک بھوں چڑھائی،لیکن آہستہ آہستہ جنت بی بی اپنی ہنس مکھ طبیعت اور عمدہ اخلاق کے باعث گاؤں بھر کے لوگوں کی آنکھ کا تارا بن گئی۔حمید الدین کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں۔سب اس سے چھوٹے اور مختلف تعلیمی درجات میں تھے۔جنت بی بی شہر کی پلی بڑھی تھی اور اس کی عادات ،رہن سہن کے انداز اور میل ملاقات کے اطوار بالکل مختلف تھے۔لیکن اس نے دیہات میں آکر ایک کاشتکار فیملی میں جس طرح اپنے آپ کو ڈھالا،کچھ اس کا ہی کمال تھا۔گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کا رواج ہی نہ تھا،اگرچہ لڑکیوں کا پرائمری سکول موجود تھا۔اس نے اپنی نندوں کو سکول بھیجنا شروع کیا۔گھر میں بھی شام کے وقت گاؤں کی بچیوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔
اگرچہ حمید الدین درمیانے درجے کا زمیندار تھا۔لیکن مال ڈنگر،دھن دولت بہت تھا۔گندم،چاول،سبزیاں اور دودھ مکھن سب گھر کا تھا۔مکان بھی بڑا اور کھلا تھا۔گاؤں کی دیگر خواتین کی طرح،اندر باہر کے ہر کام میں جنت بی بی حصہ لیتی تھی۔جس لڑکی نے شہر میں رہتے ہوئے بھینس دیکھی بھی نہ تھی،سسرال آکر بھینسوں کو چارہ ڈالنا، پانی پلانا،دودھ دھونا،دہی بنانا،دہی کو بلوناحتٰی کہ گوبر کے اپلے تک بنانابھی سیکھ لیا تھا۔ماسٹر حمید الدین روزانہ گھر واپس آجاتا۔اور دونوں کی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔
حاجی حمید الدین صاحب بتا رہے تھے کہ‘‘ہماری شادی کو دوسرا ہی سال تھا ایک دن جنت کا بڑا بھائی جو پولیس میں انسپکٹر تھا،ہمارے گھر آیا۔جنت اس وقت بیرونی دیوار پر گوبر کے اپلے لگا رہی تھی۔اس نے اس کو یہ‘‘ نیچ ’’کام کرتے دیکھا،تو ششدر رہ گیا۔اپنی لاڈلی اور اکلوتی بہن کو یوں گوبر میں لتھڑا دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا اور اس نے گھر میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔جنت نے اس کو جواب دیا،اورمیں سمجھتا ہوں کہ اسے ہر بچی کو یاد کروا دینا چاہیے ،اس نے کہا،بھائی جان،یہ میرے خاوند کا گھر ہے،اس گھر کا انتخاب میرے لئے ابا جی نے کیا ہے۔اپنے گھر کا کوئی کام بھی نیچ نہیں ہوتا۔یہی میری زندگی اور میری شناخت ہے۔خاوند کی خدمت سے بڑی کوئی سعادت نہیں اور خاوند کی تابعداری سے بڑی کوئی عبادت نہیں۔یہی ابو جی کی ہدایت اور یہی میرے اللہ کا فرمان ہے۔’’
پنجاب کے اس علاقے میں، جہاں میں پچھلے ۲۰ سالوں سے پریکٹس کر رہا ہوں،کسی کے فوت ہو جانے کے بعد ۳ دن تک سوگ منایاجاتا ہے۔لواحقین ۳ دن تک اپنے گھر کے قریب کسی مخصوص جگہ پر بیٹھتے ہیں اور ان سے تعزیت کرنے والے اپنی اپنی سہولت کے اوقات میں ان کے پاس جاتے ہیں اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔فوت ہونیوالے کے لواحقین کے یوں بیٹھے رہنے کو پھُوڑی ڈالناکہتے ہیں۔میں مرحومہ جنت کی فاتحہ خوانی کے لئے برپا کی جانے والی اس پھُوڑی پر خلافِ عادت ۳ دن جاتا رہا۔صرف اور صرف حاجی صاحب کی دل جوئی اور اماں جنت بی بی کی باتیں سننے کے لئے۔پیا رو محبت کی وہ عظیم داستان اور ایثار و قربانی وہ عظیم مثال،جو اماں جنت بی بی قائم کر گئی تھی،اس کے تذکرے سننے سنانے اور لکھنے لکھانے کے لئے تو ایک عمر چاہیے تھی،یہ ۳ دن تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق تھے۔جنت نے ماسٹر حمید الدین کے گھر کو صحیح معنوں میں جنت بنا دیا تھا۔حمید الدین نے جب عملی زندگی کا آغاز کیا تو چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور بوڑھے والدین کی نگہداشت و خدمت کے مسائل منہ کھولے کھڑے تھے۔جنت بی بی کے اس گھر میں آجانے سے تمام مسائل ایک ایک کر کے حل ہوتے چلے گئے اور ماسٹر حمید الدین کو خبر بھی نہ ہوئی۔اس نے گھر کا انتظام کچھ اس سلیقے سے سنبھالا جیسے مسائل اپنے حل کیلئے اس کے دست بختاور کے منتظر تھے۔اس نے ایک ذہین،با اعتماد اور مدبر عورت کی طرح گھر بھر کا انتظام کچھ اس سلیقے سے سنبھالاکہ لوگ اس کی مثالیں دینے لگے۔یوں ہنستے کھیلتے شادی کو چار سال بیت گئے،یوں تو اللہ کا دیا سب کچھ تھالیکن یہ جوڑا ابھی اولاد ایسی نعمت سے محروم تھا۔اور اب خاندان بھر میں باتیں ہو نے لگی تھیں۔جنت بی بی ہی اس کی ذمہ دار سمجھی جانے لگی تھی۔بانجھ پن کا طعنہ عورت کیلئے موت ہے۔کوکھ سڑی کا گھر اجڑتا ہی اجڑتا ہے۔کہا جاتا ہے معلوم نہیں اس بھرے پرے گھر میں یہ کوکھ سڑی کہاں سے آ گئی۔
ماسڑ حمید الدین کے بقول اب ہماری زندگی تلخ ہونے لگی اگرچہ اولاد کی محرومی کو میں بھی محسوس کرنے لگا اور وہ بھی محسوس کرنے لگی،پھر بھی ہم ابھی پیار و محبت سے رہ رہے تھے لیکن اڑوس پڑوس اور ملنے ملانے والوں نے ہماری زندگی اجیرن بنا دی۔ان کے طعن و تشنیع کا نشانہ بیچاری جنت ہی بنتی تھی۔ہمارے احساس محرومی میں لوگوں نے اضافہ کردیا تھا۔اس عالم میں جس صبر و ہمت کا مظاہرہ وہ کررہی تھی،حقیقت ہے کہ شبہ ہونے لگتا کہ وہ انسان نہیں جذبات سے عاری کوئی روبوٹ ہے۔ہماری محبت کے سمندر میں اب اضطراب آنے لگا۔پیار کا شیشہ ٹوٹنے لگا۔اور مجھے یہ تسلیم ہے کہ میرے دل میں بھی بال آ گیا تھا ۔لیکن بیچاری جنت نے محبت ،خدمت اور اطاعت میں رتی برابر کمی نہ آنے دی۔بظاہر وہ پہلے کی طرح ہنستی،مسکراتی اور دوڑتی بھاگتی تھی،لیکن اندر سے وہ ٹوٹ سی گئی تھی۔اس عالم میں بھی کبھی اس نے میری بے اعتنائی کا گلا نہ کیا اور نہ ہی میری بے رخی کو دل کا روگ بنایا۔لیکن کب تک؟آخر وہ ہار بیٹھی اور بستر مرگ سے جا لگی۔اس زمانے میں میرا تبادلہ دور کے ایک شہر میں ہو گیا۔جہاں جاتے ہوئے مجھے جنت کو بھی ساتھ لے جانا پڑا۔
اب ہم لوگوں سے دور تھے۔تنہا تھے۔اور یہ تبادلہ میرے لئے رحمت ثابت ہوا۔میں جو تباہی کے کنارے کھڑا تھا،واپس آگیا۔میں محبت کرنے والی بیوی کے معاملے میں لا پرواہ ہوتا جا رہا تھا اور لوگو ں کی باتوں میں آکر اپنی جنت سے دور ہٹ رہا تھا۔قریب تھا کہ میرا گھر اجڑ جاتا،لیکن تبادلے کے باعث سنبھل گیا۔اب تک تو ہم نے اپنے علاج معالجے کی طرف توجہ نہ دی تھی۔دیہی ماحول کی وجہ سے ٹونے ٹوٹکے آزما رہے تھے۔اور جنت بی بی مختلف دائیوں کی الٹی سیدھی ترکیبوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔اب جب ہم شہر میں آئے تو ہمیں اپنے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی سوجھی اور مختلف ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ڈاکٹر صاحبان نے طویل معائنہ اور بہت سے ٹیسٹوں کے بعد فیصلہ سنایا کہ دونوں میاں بیوی بالکل تندرست ہیں۔فائنل رپورٹ کے بعد ،گھر آکر جنت نے مجھے کہا،‘‘ماسٹر جی یہ اللہ کی آزمائش ہے۔آپ کی رپورٹ بھی ٹھیک ہے اور میری بھی رپورٹیں ٹھیک ہیں۔اولاد نہیں ہو رہی تو ہمارا آقا ہم دونوں کو آزما رہا ہے۔آئیے ہم دونوں مل کر یہ کوشش کریں کہ اس امتحان میں کامیاب ہوں۔’’میں چونکہ ایک استاد تھا،مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگا کہ میں ہی امتحان میں نا کام ہو رہا تھا۔یہ اللہ کی بندی تو اپنے امتحان میں کامیاب جا رہی تھی۔اور اللہ کا فضل ہے اور یہ اس کی عنایت ہے کہ مجھے بات سمجھ آگئی اور پھر میں بھی میدان میں ڈٹ گیا اور اللہ کی رضا پر راضی ہو گیا۔وہ دن اور آج کا دن، پھر اولاد سے محرومی کا احساس بھی میرے قریب نہیں پھٹکا۔
ہم ان کے بیڈ روم میں بیٹھے تھے‘‘ڈاکٹر صاحب’’حاجی صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا،‘‘وہ سامنے دیکھئے،میرا استری شدہ جوڑا لٹکا ہے،ابھی رات ہی اس نے استری کر کے لٹکایا تھا۔۔۔۔۔۔وہ دیکھئے،میرے جوتے۔۔۔کس خوبصورتی سے سجے ہیں۔یہ اس کا روز کا معمول تھا۔اس عمر میں بھی میری خدمت اور میرے کام کو جس چاہت سے وہ کرتی تھی،نوکروں چاکروں کے باوجود، اس کی مثال ملنا نا ممکن ہے۔۔۔۔۔کہتی تھی آپ کی خدمت تو میری عبادت ہے۔۔۔۔۔۔۔’’وہ اٹک اٹک کر بول رہے تھے۔۔۔۔۔ روتے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔اور میں حاجی صاحب کی خوش بختی پررشک کر رہا تھا۔واقعی۔۔۔ وہ مقدر کا سکندر تھا کہ اتنی اچھی چاہنے والی بیوی ملی تھی۔