تحریر: ڈاکٹر محمد فاروق خان ، ڈاکٹر رضوانہ فاروق
انتخاب۔ رضوانہ منظور
اسلام میں خدیجہ ، خدیجہ رہتی ہے عائشہ ، عائشہ اور فاطمہ ، فاطمہ۔ شادی کے بعد بھی ‘‘مسز محمد ’’ اور ‘‘مسز علی’’ کے بجائے وہ اپنے نام ہی سے پہچانی جاتی ہیں۔ عورت کو اس سے زیاد ہ انفرادی اور باوقار تشخص کس مذہب نے عطا کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو سب کو دعوت فکر دے رہا ہے!
اسلام کے نزدیک ایک عورت اپنی نوع کے اعتبار سے مرد کی تابعِ محض نہیں،بلکہ اس کی اپنی علیحدہ مکمل شخصیت ہے۔ وہ دین و دنیا دونوں اعتبار سے اپنا پورا وجود رکھتی ہے۔ اسے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے، دین کی خدمت کرنے،تعلیم حاصل کرنے،ملازمت یا کاروبار کرنے، ملکیت حاصل کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے اور کسی تخلیقی کام میں اپنی صلاحیت ظاہر کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک مرد کو ہے۔ اس کا دین اور اس کی دنیا دونوں کسی کے تابع نہیں ہیں۔ وہ ہر اعتبار سے اپنی شخصیت کی مالک ہے۔ اس حقیقت کے دینی پہلو کو قرآن مجید نے یوں بیان کیاہے:‘‘مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں،مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، اللہ کو یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو یاد کرنے والی عورتیں، یقینا ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔’’(الاحزاب ۔۳۳:۳۵)
اس آیت میں جن صفات کا ذکر ہوا ہے وہ تعداد میں دس ہیں۔ ان صفات میں اسلام اور اسلامی اخلاق وکردار کے تمام پہلو سمٹ آئے ہیں۔ ان کا تعلق حقوق اللہ سے بھی ہے اور حقوق العباد سے بھی۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عبادت و اطاعت او ر اخروی درجات و فضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔
اسی مفہوم کی اور بہت سی آیات قرآن مجید میں جا بجا ارشاد ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاً مردوعورت میں کوئی فرق نہیں۔ ان کے درمیان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میں فرق ہے تاہم دونوں ہی انسان ہیں اور دونوں کے بنیادی حقوق و مراعات یکساں ہیں۔ ارشاد ہے:
‘‘میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔’’
یہ ہی وجہ ہے کہ دورِنبوی میں عورتیں دین کا علم بھی حاصل کرتی تھیں اور دنیا کا علم بھی۔زراعت بھی کرتی تھیں۔ تجارت اور صنعت و حرفت کا کام بھی کرتی تھیں اور اپنی جائیداد اور مال و اسباب کا انتظام بھی سنبھالتی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے متعلق تو سب ہی جانتے ہیں کہ ان سے ہزاروں کی تعداد میں احادیث روایت کی گئی ہیں۔ ان سے مروی احادیث کی تعداددوہزار دو سو دس ہے۔
امام ابن قیم نے دور نبوی کے صحابہ و صحابیات میں جو فقیہہ (Jurists)تھیں اور جنھوں نے قانونی معاملات میں نئی آرا دیں اور فیصلے کیے، کی فہرست مرتب کر کے واضح کیا ہے کہ ان میں ایک بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ مثلاً حضرت عائشہ،حضرت ام سلمہ، حضرت حفصہ، حضرت صفیہ، حضرت ام عطیہ، حضرت حبیبہ، لائلہ بنت قائم اور حضرت اسما بنت ابوبکر رضوان اللہ علیھن اجمعین وغیرہ ان میں شامل ہیں۔
دورِصحابہ کی تاریخ مرتب کرنے والی کتابیں ایسی صحابیات کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں۔ جنھوں نے دینی علم کے مختلف شعبوں میں کمال حاصل کیا تھا صرف یہ ہی نہیں،بلکہ بے شمار بڑے علما نے ان ہی خواتین سے دین کا علم حاصل کیا۔ بنت ربعی بنت مسعود رضی اللہ عنھا ایک بڑی عالمہ تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ان سے سیکھتے تھے۔ اسی طرح فاطمہ بنت قیس چند بہت بڑے علما مثلاً ابن مسیب ، عروہ ابن زبیر اور شعبی کی استاد تھیں۔
سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ بھی بہت بڑی عالمہ تھیں۔ ان کے شاگردوں میں امام مالک، ایوب سختیانی اور حکم بن عیتبہ جیسے علما و فقہا شامل تھے۔ اسی طرح امام شافعی جیسے عظیم انسان نے علم حدیث سیدہ نفیسہ سے حاصل کیا جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں۔
یہ ہی حال دنیوی علم و ادب کا تھا۔ مثلاً شاعری کے میدان میں بیسوں صحابیات کا ذکر آتا ہے ۔ جن میں حضرت خنسا،سودہ،عاتکہ،ام ایمن اور کئی دوسرے نام شامل ہیں۔
طب اور جراحت(میڈیسن اور سرجری) کے ضمن میں زماضہ اسلمیہ، ام مطاع ، ام عطیہ اور ام سلیم کے علاوہ کئی دوسری صحابیات بہت مشہور تھیں۔
دورِ صحابہ میں خواتین کو ایسے ذمہ دار مناصب بھی حوالے کیے جاتے تھے جن کی وہ اہل ہوتی تھیں۔ مثلاً شفا بنت عبداللہؓ کے متعلق تاریخی روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے انھیں بازاروں کے نگران افسر کی ذمہ داری دی تھی تاکہ وہ قیمتوں پر نگاہ رکھیں۔
اس زمانے میں خواتین آزادانہ طور پر تجارتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی تھیں ۔ اس امت کی سب سے محترم خاتون حضرت خدیجہ ؓ ایک تاجر تھیں۔ بہت سی صحابیات مثلاً حضرت خولہؓ، ثقافیہؓ اور بنت مکرمہؓ خوشبو کی تجارت کر تی تھیں۔
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مرد و عورت دینی، اخلاقی اور تمام انسانی حقوق کے حوالے سے عمومی طور پر اصلاً ہم پلہ و ہم مرتبہ ہیں۔ (بحوالہ اسلام اور عورت)